آئیون ترگینیف کی ایک کہانی: انوچکا


میں دو دہائی اور پانچ سال کا ہو گیا تھا۔ اتنی مدت گزارنے کا مطلب یہ ہوا کہ میں وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ یقیناً میں ایک ماضی کا اکلوتا مالک ہوں۔ بالکل آزاد پنچھی تھا۔ اپنی مرضی کا مالک۔ کوئی پابندی نہ قید۔ سوچا زندگی میں کوئی ہنگامہ ہونا چاہیے۔ سفر سے اچھا اور کیا کارنامہ ہو سکتا ہے؟

ابھرتی جوانی تھی۔ صحت اچھی تھی، دل میں جذبہ اور جوش تھا، گھر بار کا کوئی بوجھ نہ تھا۔ کسی حسینہ نے پاؤں میں بیڑیاں نہیں ڈالی تھیں، کوئی فکر نہ فاقہ۔ پیسہ بھی ٹھیک ٹھاک۔ مستقبل کی کچھ پرواہ نہیں تھی۔ میں نے اپنے آپ کو بے تاب دل کے سپرد کر دیا۔ جو چاہے کرے، جہاں چاہے لے چلے۔

میں نگر نگر پھرا۔ نہ کوئی نقشہ نہ منصوبہ۔ جدھر منہ اٹھایا چل دیا۔ جتنے دن دل چاہا ایک جگہ قیام کیا، جب دل بھر گیا تو اگلے پڑاؤ کی جانب چل پڑا۔

پچاس سال پہلے میں جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہرمیں رکا جو دریائے رائن کے کنارے پر آباد تھا۔ ان دنوں میں ایک ناکام عشق کے صدمے سے بحال ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے مالک مکان کی حسین نوجوان بیوہ بیٹی نے مجھے چھوڑ کر فوج کے ایک سنہری بالوں والے لیفٹنٹ سے پیار کی پینگیں بڑھانی شروع کر دی تھیں۔

میں کرائے کی کشتیوں کے گھاٹ کے نزدیک دریا کے کنارے ایک بنچ پر بیٹھا اپنا غم غلط کر رہا تھا کہ مجھے موسیقی کی آواز سنائی دی۔ دریا کے اس پار ایک بڑی سی سیاحوں کی کشتی کھڑی تھی جس کے ڈیک پر بہت چہل پہل تھی۔ میں نے ایک ملاح کو اشارہ کیا اور کشتی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے پر اتر گیا جہاں نیوبرگ کا مختصر سی آبادی والا شہر آباد تھا۔ برلن کی کسی یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں دریائی سفر پر نکلے ہوئے تھے اور کشتی نے رات نیو برگ میں قیام کرنا تھا۔ تماشائیوں کا ایک ہجوم کنارے پر کھڑا موسیقی اور رقص سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

میں بھی جنگلے سے لگا سوچوں میں ڈوبا ان نوجوانوں کو حسرت سے دیکھ رہا تھا۔ میرے برعکس ان کے قہقہوں میں کتنی بے ساختگی تھی۔ بات بات پر وہ کتنی تازگی سے کھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔

 ”انوچکا، ابھی تمہارا دل نہیں بھرا؟ “

روسی زبان میں کسی نے یہ سوال پوچھا تھا۔

مجھے گھر سے نکلے ہوئے عرصہ بیت چکا تھا۔ اس کے باوجود اب بھی اپنی زبان سنتے ہی وطن سے فرقت کا احساس ہونے لگتا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو میری ہی عمر کا ایک آدمی کسی لڑکی سے مخاطب تھا۔

 ”بس تھوڑی دیر اور“

اس پتلی دبلی لڑکی نے جواب دیا۔

 ”آپ لوگ روسی ہیں؟ “

میں سوال کیے بغیر نہ رہ سکا۔

 ”ہاں“

میرے ہم عمر نے جواب دیا۔

 ”بڑی حیرت ہوتی ہے، اتنی غیر متوقع جگہ پر کسی ہموطن سے مل کر“

 ”ہاں، ہم بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ اپنا کوئی ہم زبان اتنے چھوٹے سے جرمن شہر میں ہمیں ملے گا۔ اوہ، میں اپنے تعارف تو کرا دوں۔ میرا نام نکولائی ہے۔ اور یہ میری“

وہ کچھ ہچکچایا۔

 ”یہ میری چھوٹی بہن انوچکا ہے۔ اور آپ موسیو؟ “

میں نے اپنا تعارف کرایا۔ میری طرح یہ دونوں بھی لمبے سیر سپاٹے کو نکلے ہوئے تھے۔

اگرچہ دوسرے ملکوں میں سفر کے دوران میں روسیوں سے ملنے سے اجتناب کرتا ہوں لیکن نکولائی کے چہرے او ر آواز میں کوئی ایسی پر تپاک بات تھی کہ آپ کا دل چاہتا کہ اس سے دوستی بڑھائی جائے۔

اور وہ سولہ سترہ سال کی پتلی دبلی لڑکی جس کو اس نے اپنی بہن کہا تھا خاصی خوش شکل تھی لیکن اس کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر تھا جس میں بچپن اور جوانی کا ا نوکھا امتزاج نمایاں تھا۔ جس بات کو میں نے بالخصوص محسوس کیا وہ یہ تھی کہ اس میں نکولائی کی ذرہ برابر بھی شباہت نہیں تھی۔

ایسا کیوں نہ کریں، ساتھ گھر چل کر چائے پئیں اور گپ شپ لگائیں۔ کیا خیال ہے انوچکا؟ جرمن موسیقی کافی نہیں ہو گئی ایک شام کے لئے؟ ”

انوچکا نے سر کے اشارے سے ہاں کر دی۔

ہم پیدل ہی چل دیے۔ پتھریلی فصیل کے محرابی دروازے سے نکل کر، جنگلی پھولوں کے درمیان ایک پگڈنڈی پر کافی دیر چلنے کے بعد ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنے ہوئے مکان تک پہنچے جو انگور اور عشق پیچاں کی بیلوں سے ڈھنپا ہوا تھا۔ اس مکان کے بالائی حصے میں نکولائی اور انوچکا مقیم تھے۔

سورج ڈوبنے کے قریب تھا۔ بنفشی شعاؤں نے مکان کی بیلوں بھری دیواروں کو، پس منطر میں پتھریلے پہاڑوں کو، پھولوں سے گھری پگڈنڈی کو، اور ہمارے عقب میں بہتے رائن دریا کو قوس قزح کے رنگوں میں رنگ دیا تھا۔

مکان کی مالکہ نے گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں چائے کی میز پر آنے کی دعوت دی۔ لیکن انوچکا نے کہا کہ ہم چائے باہر ٹیرس پر پئیں گے تاکہ ڈوبتے سورج کے منظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔

شروع شروع میں انوچکا گفتگو میں حصہ لینے سے جھجک رہی تھی۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ خاصی بے تکلفی سے باتیں کرنے لگی۔ اس کی چمکدار آنکھیں میرے چہرے پر مرتکز تھیں جو بات بات پر اس کے ہونٹوں سے پہلے مسکرانے لگتیں۔ اس کی ہنسی سے معلوم ہوتا تھا جیسے دل ہی دل میں کسی خیال پر ہنس رہی ہے۔

ہم گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ سورج کبھی کا ڈوب چکا تھا۔ اب چاند نکل آیا تھا اور اس کی کرنیں رائن دریا کی لہروں سے اٹکھکیلیاں کر رہی تھیں۔ نکولائی مجھے دریا تک پہنچانے کے لئے ساتھ ہو لیا۔ انوچکا نے اصرار کیا کہ وہ بھی ساتھ چلے گی اور نکولائی کے منع کرنے کے باوجود ساتھ ہو لی۔

ملاح نے چپو سنبھالے اور کشتی دوسرے کنارے کے لئے روانہ ہوئی۔

 ”تو پھر کل ملیں گے“

نکولائی نے کنارے پر سے چیخ کر کہا۔

 ”ضرور“

میں نے بھی بلند آواز میں وعدہ کیا۔

اگلے دن میں دیر تک سوتا رہا۔ تقریباً گیارہ بجے کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو نکولائی کو کھڑا پایا۔

 ”دن اتنا خوبصورت ہے کہ میں نے سوچا اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ چلیں دریا کی سیر کرتے ہیں، پھر گھر چلیں گے۔ “

میں نے ناشتہ کمرے میں لانے کا آرڈر دیا اور ہم باتوں میں مصروف ہو گئے۔ اس نے بتایا کہ وہ مصور بننا چاہتا ہے اور سفر کے دوران قدرتی مناظر کی تصویریں بناتا رہا ہے۔ ناشتے کے بعد جب ہم گھر پہنچے تو خاصے تھک چکے تھے۔ انوچکا اپنے کمرے میں تھی۔ جب وہ کمرے سے نکلی تو بڑا خوبصورت سکرٹ اور بلاؤز پہنا ہوا تھا۔ سر پر نیا ہیٹ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6