سلطان صلاح الدین ایوبی: شیعہ فاطمی خلیفہ کے وزیر سے صلیبی جنگوں کے ہیرو بننے تک


دمشق میں بیمارستان النوری: نور الدین زنگی کے دور میں 12ویں صدی میں بنایا گیا ہسپتال

نور الدین زنگی اور جہاد

سنہ 1146 میں سردار زنگی کے اچانک انتقال کے بعد ان کی جگہ ان کے چھوٹے بیٹے نور الدین زنگی نے لی جو آئندہ 30 برسوں تک بہت بڑی صلیبی مخالف قوت بن کر ابھرے۔ صلاح الدین کی زندگی پر ان کا بہت اثر تھا۔ نورالدین نے خطے میں جہاد کی ایسی بنیاد ڈالی جسے پھر صلاح الدین ایوبی آگے لے کر چلے۔ جہاد کے جذبے میں شدت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں دوبارہ فتح کی خواہش بھی پیدا ہو گئی۔

سنہ 1160 کی دہائی کے دوران صلاح الدین اپنے بھائی تران شاہ کی جگہ دمشق کے پولیس چیف بنے اور اس طرح انھیں انتظامیہ کا کچھ تجربہ حاصل ہوا۔ اس دوران وہ اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے نورالدین زنگی کے قریبی حلقوں کا حصہ بن چکے تھے اور حکمرانی کے طور طریقوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

فلپس لکھتے ہیں کہ ‘نور الدین عظیم حکمران تھے اور ہوشیار کرد نوجوان کے لیے بہترین مثال۔’

فرینکس، زنگی اور مصر کی کشش

تقریباً دو صدیوں سے اسماعیلی شیعہ فاطمی خلافت کے زیرِ کنٹرول مصر خطے کا دولت مند علاقہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرینکس اور دمشق کے حکمران نورالدین زنگی کو احساس ہو گیا کہ فاطمی خلافت کمزور ہو رہی ہے اور جو اس پر قبضہ کرے گا وہ دوسرے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

’جو بھی مصر حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا وہ اس دولت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی بحیرۂ روم کو بھی کنٹرول کرتا۔‘

اس چیز کا سب سے زیادہ احساس شیرکوہ کو تھا جنھوں نے نورالدین زنگی کو مصر فوج بھیجنے پر آمادہ کر لیا۔ فرینکس بھی خاموش نہیں رہ سکتے تھے اور دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔

فلپس لکھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے جب صلاح الدین کسی میدان جنگ میں قائدانہ کردار میں سامنے آتے ہیں۔ شیرکوہ نے انھیں مرکزی دستوں کا کمانڈر بنایا جسے فرنگیوں کے زوردار گھڑسوار دستوں کا سامنا کرنا تھا۔ انھیں حکم تھا کہ حملہ ہوتے ہی وہ درمیان سے جگہ چھوڑ دیں گے اور جب مسیحی گھڑسواروں کی تنظیم خراب ہو گی تو شیرکوہ اپنے گھڑسواروں کے ساتھ دوسری جانب سے حملہ کر دیں گے۔

منصوبہ کامیاب رہا اور مسیحیوں کے کمانڈر قیدی بنا لیے گئے۔

مصر میں صلاح الدین کا دور ان کی آنے والی کامیابیوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ بحیثیت وزیر ان کےدور کی پہچان ان کی سخاوت، خوش قسمتی، قوت ارادی اور دیگر بڑے حکمرانوں کی طرح ایک بڑا منصوبہ تھا

ایوبی خاندان کی ترقی

دریں اثنا ایوبی خاندان ترقی کرتا رہا اور سنہ 1137-38 میں زنگی سے پناہ حاصل کرنے والے 1157 میں نورالدین زنگی کے سب سے قابل اعتبار ساتھیوں میں شامل تھے۔

مصر میں وزارتِ عظمیٰ کی لڑائی نے نورالدین زنگی کو مصر کی سیاست میں مداخلت کا موقع دے دیا۔ وزارت عظمیٰ کی لڑائی میں بڑی تعداد میں اہم لوگ متحارب دھڑوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور یہ فاطمی سلطنت کے لیے آگے چل کر بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ’یہ وہ زمانہ تھا جب ہم صلاح الدین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ ان کی مصروفیات کیا تھیں۔‘ عام خیال ہے کہ ان کا زیادہ وقت دمشق میں پولو کھیلتے اور شکار کرتے گزرتا ہوگا اور یقیناً انھوں نے کچھ فوجی مہمات میں بھی اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ حصہ لیا ہوگا۔ انھوں نے دمشق میں شدت اختیار کرتا جہادی ماحول بھی دیکھا ہوگا۔

صلاح الدین شیعہ فاطمی خلیفہ کے وزیر

تاریخ بتاتی ہے کہ دو سال میں دو بار شیرکوہ کی قیادت میں فوج نے مصر کو مسیحی فوج کے حملے سے بچایا۔ فاطمی خلیفہ العاضد نے 1169 میں شیرکوہ سے ملاقات کے بعد نہ صرف انھیں اپنا وزیر بنا لیا بلکہ فوج کی کمان بھی انھیں سونپ دی۔ غیرملکی اور غیر شیعہ اس سے پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے تھے لیکن ایک فاتح فوج کے سپہ سالار کو یہ عہدہ دیا جانا نئی بات تھی۔

نورالدین کے لیے یہ ایک نئی صورتحال تھی۔ وہ مصر کو مسیحیوں کے ہاتھوں میں جاتا تو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن اب ان کے شیرکوہ کے ساتھ تعلق پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ’نورالدین نے شیرکوہ اور صلاح الدین کی شام میں جاگیریں ختم کر دیں لیکن شیرکوہ اس کے بعد زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور بیماریوں کا شکار ہو کر اسی سال 1969 میں انتقال کر گئے۔‘

اس بار فاطمی خلیفہ نے صلاح الدین کو منتخب کیا ’کیونکہ ان میں شاہانہ صفات کے ساتھ ساتھ فقیر کی عاجزی بھی تھی۔‘ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ فاطمی خلیفہ نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جسے وہ سیاسی طور پر کمزور سمجھتے تھے اور جسے اُن کا خیال تھا وہ اپنے زیر اثر رکھ سکیں گے۔ اگر واقعی انھوں نے ایسا سوچا تھا تو تاریخ نے انھیں غلط ثابت کیا۔

مصر میں صلاح الدین کا دور ان کی آنے والی کامیابیوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ بحیثیت وزیر ان کے دور کی پہچان ان کی سخاوت، خوش قسمتی، قوت ارادی اور دیگر بڑے حکمرانوں کی طرح ایک بڑا منصوبہ تھا۔ برسوں بعد اس دور کے مؤرخ بہاؤالدین نے لکھا کہ وزیر بننے پر انھوں نے شراب اور ’وقت ضائع کرنے والے مشاغل چھوڑ دیے تھے۔‘

صلاح الدین اور سنی اسلام

صلاح الدین کو جلد ہی خزانے پر بھی اختیار مل چکا تھا۔ انھوں نے سنی انتظامیہ کے فروغ کے لیے کافی کام کیا۔ انھوں نے شافعی مدرسے بنوائے۔ جب قاہرہ کے شیعہ قاضی تبدیل ہوئے تو ان کی جگہ بھی ایک سنی قاضی نے لی۔ قاہرہ میں ایک نئی اشرافیہ جگہ بنا رہی تھی۔ صلاح الدین کا حلقہ وسیع ہو رہا تھا۔

تاہم مصر پر فرنگی، آرمینیائی اور نوبیا کے فاطمی مخالفین کے حملے کا خطرہ بدستور موجود تھا۔ صلاح الدین نے قاہرہ کی تقریباً سو سال پرانی دیواروں کی مرمت کروائی۔ ایوبی قاہرہ کا مذہبی اور سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل نہیں کر رہے تھے بلکہ اس کی شکل صورت بھی بدل رہے تھے۔

تاہم اسی زمانے میں خلیفہ بیمار پڑ گئے۔ اس وقت تک ایوبی خاندان نے مصر میں بہت کچھ تبدیل کر دیا تھا، خلیفہ کی عملاً گرفت کمزور ہو چکی تھی لیکن ان کے مذہبی منصب سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس ماحول میں ایران سے مصر آنے والے ایک عالم نے منبر سے تین ستبر سنہ 1171 کو بغداد کے خلیفہ کے لیے دعا کروا دی۔ اس پر کوئی رد عمل نہ دیکھ کر صلاح الدین کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی اور انھوں نے آئندہ جمعے سے قاہرہ اور فسطاط کی تمام مساجد سے ایسا ہی کرنے کا حکم دے دیا۔

صلاح الدین اور ان کے ساتھیوں کی توقعات کے برعکس اس بار پھر کوئی ردعمل نھیں تھا اتنی بڑی تبدیلی پر یہ خاموشی بظاہر حیران کن لگتی ہے۔ لیکن اس زمانے میں فرقہ وارانہ تقسیم اتنی شدید نھیں تھی۔ اس وقت بغداد میں رہنے والے ایک شیعہ عالم ابو تراب نے صلاح الدین کو برا بھلا ضرور کہا تھا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ انھی دنوں میں صلاح الدین کی سوانح لکھنے والے ابن ابی طیب شیعہ تھے اور ان کے مداح تھے۔ اس کے علاوہ اس وقت مصر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ سنی تھا۔ اسکندریہ میں دہائیوں سے سنی مدرسے قائم تھے۔

فسطاط اکثریتی طور پر سنی شہر تھا جہاں یہودی، قبط، مغربی، سوڈانی اور غیرملکی تاجر بھی رہتے تھے۔ قاہرہ میں آرمینیائی، ترک غلام دستے موجود تھے اور فاطمی خود کئی بار شمالی افریقی بربروں کا سہارا لے چکے تھے۔ ان حقیقتوں کی روشنی میں فاطمی اسماعیلی خلیفہ اہلِ تشیع اور اہلِ تسنن کے درمیان حدود کو مبہم کر چکے تھے۔

فاطمی خلیفہ العاضد کی صحت اتنی خراب تھی کہ کسی نے انھیں خطبے کی تبدیلی سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جلد ہی ان کا بغیر یہ جانے انتقال ہو گیا کہ ان کے دارالحکومت میں کسی اور کے نام کا خطبہ پڑھا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فاطمی خلافت ختم ہو گئی۔

مصر میں اب اصل طاقت صلاح الدین تھے۔ وہ خلیفہ العاضد کو اچھا اور سخی انسان سمجھتے تھے۔

مصر کے وزیر صلاح الدین نے خلیفہ کے بیٹے سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ ’خلافت کے معاملے میں آپ کے والد کا ایجنٹ ہوں اور انھوں نے آپ کی وراثت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی‘۔ اس طرح وہ اپنے والد کے بعد خلیفہ نہیں بن سکے۔

مصر میں اب سکوں پر بغداد کے خلیفہ اور نورالدین زنگی کا نام نظر آنے لگا۔ بغداد سے نورالدین اور صلاح الدین ایوبی کے لیے خلعتیں روانہ کی گئیں۔ شعراء نے دونوں کی شان میں قصیدے لکھے۔ یہ صلاح الدین کے لیے نیا میدان تھا۔

جرمنی کے بادشاہ فریڈرک بارباروسا تیسری صلیبی جنگ کے لیے یروشلم روانہ ہونے سے پہلے: یاد رہے جرمن بادشاہ کی یروشلم پہنچنے سے پہلے ہی اچانک موت واقع ہو گئئ تھی

صلاح الدین کا بیٹا اور جرمنی کے بادشاہ کی بیٹی

تاریخ بتاتی ہے کہ صلاح الدین کے بڑھتے ہوئے رتبے کا مغرب میں بھی نوٹس لیا گیا۔ جرمنی کے بادشاہ فریڈرک بارباروسا نے سنہ 1172 میں انھیں قاہرہ میں تحائف بھیجے۔ سلطان صلاح الدین کی طرف سے بھی 1173 کی خزاں میں جرمنی میں شاہی دربار میں تحائف پیش کیے گئے۔ فلپس لکھتے ہیں کہ ان دنوں صلاح الدین کے ایک بیٹے اور فریڈرک کی بیٹی کی شادی کا بھی ذکر ہوا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جرمن بادشاہ نے صلاح الدین سے نورالدین کا ذکر کیے بغیر خود مختار حکمران کے طور پر رابطہ کیا۔

مؤرخ جانتھن فلپس کہتے ہیں کہ صلاح الدین اور بادشاہ فریڈرک کے درمیان رابطے صلیبی جنگوں کے زمانے میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے تصور کی نفی کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا یہ سچ ہے کہ دونوں فریق وسیع تناظر میں ان رابطوں کے ذریعے اپنے لیے بہتر پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود یہ رابطے اہم تھے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ انھی دنوں میں سٹراسبورگ سے ایک جرمن پادری نے بھی مصر اور شام کا دورہ کیا اور مذہبی مقامات پر گئے جن میں سے کئی ایسے تھے جنھیں مسلمانوں اور مسیحی دونوں مقدس سمجھتے تھے۔ انھوں نے مصری قبطیوں، شامی مسیحیوں اور ان کے مسلمان حکمرانوں کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر کیا۔

اس کا نتیجہ جرمنی کے بادشاہ کا صلاح الدین کے ساتھ سمجھوتے کی صورت میں سامنے آیا جو سنہ 1188 تک قائم رہا جب فریڈرک نے تیسری صلیبی جنگ کا عزم کیا۔ فریڈرک نے اس موقع پر تعلقات کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کیا۔

نور الدین کے ساتھ رشتے میں پہلی دراڑ

ان کا سب سے اہم سیاسی رشتہ نورالدین کے ساتھ تھا، جس میں پہلی بڑی دراڑ سنہ 1171 میں اس وقت آئی جب نورالدین نے ایک محاذ پر جاتے ہوئے انھیں بھی ساتھ طلب کیا مگر صلاح الدین اُن کے ساتھ نہیں گئے۔ صلاح الدین نے مصر میں رکنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ممکنہ اسماعیلی بغاوت کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔

نورالدین زنگی اب ایک مخمصے کا شکار تھے۔ ان کا ایک سابق کمانڈر اب ایسے علاقوں پر قابض تھا جو ان کے اپنے علاقوں سے مالدار تھے۔ دوسری طرف صلاح الدین اور ان کے خاندان نے اسماعیلی خلافت کے خاتمے میں اور بغداد کے سنی خلیفہ کے رتبے میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ بھی درست ہے کہ اس پیشرفت میں نورالدین کا بھی کچھ ہاتھ تھا۔

مؤرخ ابن الاثیر لکھتے ہیں کہ ’نورالدین کی رائے صلاح الدین کے بارے میں بدل گئی اور انھوں نے مصر جا کر ان کو بے دخل کرنے کا عہد کر لیا تھا۔‘ ان کے اختلافات منظر عام پر بھی آ گئے۔ لیکن وہ شدید بیمار ہو گئے اور 15 مئی 1174 کو 60 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔

فلپس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ جہاد کے نقطہ نظر سے نورالدین زنگی نے وہ بنیاد فراہم کی جس کے بغیر صلاح الدین کا منظر پر آنا مشکل ہوتا۔ انھوں نے وہ ماحول پیدا کیا جس میں صلاح الدین اور ایوبی خاندان نے پیشرفت کی۔

صلاح الدین ایوبی کے اگلے کچھ سال شام میں اپنا اختیار قائم کرنے میں لگ گئے۔ نورالدین کی موت سے مصر اور شام کے درمیان خانہ جنگی کا خطرہ بھی ٹل گیا تھا لیکن نورالدین زنگی کے اہل خانہ کو صلاح الدین پر اعتماد نہیں تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ نورالدین کی وراثت صلاح الدین کے پاس جائے۔ یہ صورتحال اگلے سال اپریل تک چلی جب نورالدین زنگی کے بیٹے الصالح حلب کے علاوہ شام کے تمام علاقوں پر صلاح الدین کا حق تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔

فلپس بتاتے ہیں کہ اہریل کے آخر میں صلاح الدین نے اہم پیشرفت میں الصالح کے نام کے سکے بند کروا دیے اور اپنے علاقوں میں جمعہ کے خطبوں میں بھی ان کا نام رکوا دیا۔

سنہ 1175 کے موسم گرما میں سلطان نے فرینکس سے بھی وقتی صلح کر لی۔ وہ بظاہر جنگی مہمات کے طویل سلسلے کے بعد کچھ دیر کے لیے رکنا چاہ رہے تھے۔ اس کے علاوہ خطے میں قحط نے بھی صورتحال مشکل کر دی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کے بٹن پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp