سلطان صلاح الدین ایوبی: شیعہ فاطمی خلیفہ کے وزیر سے صلیبی جنگوں کے ہیرو بننے تک


فوجی کیمپوں میں گرم پانی کے ٹب میں لیٹنے کی قیمت ایک درھم

مؤرخ لکھتے ہیں کہ حیران کن طور پر دونوں کیمپوں کے درمیان خوراک کی خرید و فروخت بھی جاری تھی۔ محاصرے کا ایک سال ہورا ہوا تو لوگ اس کی حقیقتوں سے سمجھوتہ کر چکے تھے۔ فلپس لکھتے ہیں کہ جنگ کی تھکان اتارنے کے خواہشمندوں کو صرف مغربی تاجروں کے پاس جانے کی ضرورت تھی جن کے گرم پانی کے ٹب میں لیٹنے کی قیمت ایک درہم تھی۔‘

مسیحی اور مسلمان فوجی کیمپوں میں بیماری

بیماری بھی دونوں کیمپوں کے لیے ایک مسئلہ تھا جس سے کئی اہم رہنما بھی متاثر ہوئے اور کئی جان کی بازی ہار گئے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ’تیروں، تلواروں اور آگ برساتے ہتھیاروں سے کہیں زیادہ جانیں بیماری کے ہاتھوں ضائع ہوئی تھیں اور دونوں طرف کی اعلی قیادت کے بہت سے فیصلے افواج کی صورتحال سے متاثر ہو کر کیے گئے تھے۔‘

صلیبیوں کا بیماری سے خاص طور پر زیادہ نقصان ہوا کیونکہ انھیں خطے کے ماحول، بیماریوں اور موسم کی عادت نھیں تھی۔ ان میں تین اہم لوگ جو ہلاک ہوئے تھے ان میں یروشلم کی سلطنت کی ملکہ سبیلا اور ان کی دو بیٹیاں بھی شامل تھیں۔

سردیوں میں مسلم ذرائع بتاتے ہیں صلیبی فوج میں روزانہ 100 فوجی ہلاک ہو رہے تھے۔ مغربی ذرائع لکھتے ہیں ہر کوئی کھانس رہا تھا، لوگوں کی ٹانگیں اور منہ سوجے ہوئے تھے اور ان کے دانت گر رہے تھے۔ مکئی اور انڈے حد سے مہنگے ہو چکے تھے اور مرا ہوا گھوڑا زندہ گھوڑے سے مہنگا تھا۔ تاہم ان تکالیف کے باوجود صلیبی پر امید تھے۔ انھیں یقین تھا کہ مزید کمک آرہی ہے۔

وسطی ستمبر تک عکا شہر میں خوراک کی شدید قلت بھی پیدا ہو گئی۔ شہر کے منتظمین نے سلطان تک یہ خبر پہنچائی تو انھوں نے مکمل رازداری کا حکم دیا۔ انھیں معلوم تھا کہ مصر سے تین بحری جہاز خوراک کا بڑا ذخیرہ لے کر عکا آ رہے ہیں۔ اتنا وقت نھیں تھا کہ ان جہازوں کو رازداری سے شہر کی طرف لایا جائے اور انھوں نے سیدھا بندرگاہ کا رخ کیا۔ سلطان اس دوران بے چینی ساحل پر انتظار کر رہے تھے۔ ’وہ ایک گھبرائی ہوئی ماں کی طرح خدا سے فتح مانگ رہے تھے۔‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلطان کی فوج میں بہت سے تر تنخواہ دار سپاہی تھے۔ سنہ 1187 اور 1188 کی کامیابیاں سب کے لیے فائدہ مند تھیں لیکن عکا کے طویل ہوتے محاصرے کی کشش کم ہو رہی تھی۔

سلطان کا خلیفہ کی بھیجی ہوئی مدد لینے سے انکار

انتظار کا یہ کھیل یقیناً ’سلطان کے لیے بہت تھکا دینے والا تھا جنھیں معلوم تھا کہ اس وقت مغربی یورپ کے بادشاہ ان خلاف بہت بڑی فوج کھڑی کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ سلطان کے طرف سے ہر طرف مسلم طاقتوں سے رابطہ کیا گیا۔ عماد الدین نے بغداد میں خلیفہ کو بھی مدد کے لیے پیغام بھیجا۔

مارچ 1190 کے آخر تک سلطان کو شام کے شہروں حمص اور حما سے امداد پہنچ چکی تھی۔ ان کے بھائی سیف الدین بھی مصر کے ساتھ فوج سے پہنچ چکے تھے۔

لیکن اس دوران بغداد میں خلیفہ کی خاموشی سلطان کے لیے پریشان کن تھی۔ ان کی طرف سے ’آتش یونانی‘ کچھ مقدار میں، محاصرے کی جنگ کے ماہر کچھ انجنیئر اور 20 ہزار دینار بھیجے گئے جو سلطان نے انتہائی ادب کے ساتھ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ ’مسئلہ امداد کی مقدار سے زیادہ ان کی طرف سے سلطان کی مشرق قریب کو جہاد کے لیے اکٹھا کرنے کی کوششوں کو مکمل اخلاقی حمایت نہ ملنا تھا۔‘

فلپس لکھتے ہیں مسلمان حکمران جنھوں نے ان کا ساتھ نھیں دیا یا ان کی مدد نھیں کر سکے یہ فعل ان میں مذہبی جذبے کی کمی کی بجائے علاقائی مجبوریوں کا عکاس ہے، جیسا کہ بہت سے سلجوق سرداروں کے ساتھ ہوا۔ اس کے علاوہ کچھ حکمران خاندان شاید ایوبی خاندان کو فائدہ بھی نھیں پہنچانا چاہتے تھے۔

عکا کا محاصرہ ختم ہونے کے بعد انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کے ہاتھوں 2600 مسلمان قیدی قتل ہوئے

مسیحیوں کا پانچ منزلہ چلتا ہوا ٹاور اور نوجوان مسلمان تانبہ گر کا جوابی وار

سردیوں کے موسم میں بارش اور کیچڑ نے کیمپوں میں زندگی مشکل کر دی لیکن اس دوران مسیحیوں نے محاصرہ توڑنے کے لیے تین دیو ہیکل ٹاور تعمیر کر لیے۔ ہر ٹاور پانچ منزل اونچا تھا۔ لکڑی کی قیمت بہت زیادہ تھی اور ان کو کسی حملے سے بچانے کے لیے مٹی اور سرکہ لگے چمڑے سے لپیٹا گیا تھا۔ اس کا سب سے اونچا پلیٹ فارم اتنا بڑا تھا کہ اس پر منجنیق رکھی جا سکتی تھی۔

آتش گیر مادہ فائر کر کے ان کو جلانے کی کوشش کی گئی لیکن بے سود۔ صلاح الدین کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے عملے میں ایک تانبہ گر کا بیٹا موجود تھا جو ’آتش یونانی‘ کے ساتھ تجربے کر کے اس کی طاقت بڑھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے سلطان منا لیا کہ اسے کسی بھی طرح شہر کے اندر داخل کروایا جائے۔

اس نوجوان نے اپنے تجربات کی روشنی میں کیمیائی مادہ تیار کیا جسے برتنوں میں بھر کر ایک ٹاور کی طرف داغا گیا لیکن ٹاور کو کوئی فرق نھیں پڑا۔ فلپس لکھتے ہیں کہ وہ لڑکا مایوس نھیں ہوا۔ شہر کی دیوار سے ٹاور تک فاصلے کا اسے اندازہ تو اسے ہو چکا تھا۔ دوسری بار اس نے برتن میں مقدار بڑھا کر فائر کروایا اور اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب ٹاور میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس کے بعد دوسرا اور تیسرا ٹاور بھی اسی طرح تباہ کر دیا گیا۔ اس لڑکے کو اب شہر سے باہر سمگل کر کے صلاح الدین کے سامنے پیش کیا گیا جنھوں نے اسے زمین اور پیسہ انعام میں دیا لیکن اس نے یہ کہتے ہوئے وہ سب لینے سے انکار کر دیا کہ اس نے جو کیا خدا کی رضا کے لیے کیا۔

نومبر میں جنگ کا سیزن ختم ہونے سے پہلے دو بڑے معرکے ہوئے۔ سلطان ایک بار پھر بیماری کی وجہ سے دور سے ہی معرکے کی کارروائی دیکھنے پر مجبور تھے۔

سلطان صلاح الدین نے جب قیدی صلیبی کمانڈر کو اپنا کوٹ دے دیا

23 نومبر کو مسلمانوں نے حملہ کر کے تقریباً 200 صلیبی نائٹس کو سامنے آنے ہر مجبور کر دیا اور ان میں سے بہت سوں کو قیدی بنا لیا۔ ان میں ایک کمانڈر بھی تھا۔ انھیں سلطان کے سامنے پیش کیا گیا جنھوں نے ان میں سے افسران سے باقاعدہ عزت کے ساتھ ملے۔

انھیں سردیوں کے لیے کھالوں سے بنے کوٹ دیے گئے بلکہ کمانڈر کو تو سلطان نے اپنا کوٹ دے دیا۔ انھیں کھانا دیا گیا اور سلطان کے ساتھ والے خیمے میں ٹھہرایا گیا۔ کمانڈر کو کھانے کے لیے سلطان کے ساتھ جگہ ملی۔

فلپس لکھتے ہیں کہ ’بے شک اس کا مقصد صلیبیوں کے منصوبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی تھا لیکن سلطان کے لیے اس طرح کا رویہ نئی بات نھیں تھی۔‘

محاصرے کی مشکلات اور سلطان کی رحم دلی

سردیاں ختم ہوئیں تو صلیبیوں کو فرانس اور انگلینڈ کے بادشاہوں کی آمد قریب نظر آنے لگی۔ دوسری طرف سلطان خلیفہ کی سرد مہری سے پریشان تھے۔ ’اسلام آپ سے مدد مانگ رہا ہے جیسے ڈوبتا ہوا آدمی سہارا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی تمام ذاتی آمدن جہاد پر لگا رہے ہیں اور خلیفہ کو چاہیے کہ وہ ان کی ہر طرح مدد کرے۔

محاصرے کی ان تمام مشکلات میں سلطان کی رحم دلی اور سخاوت کی کہانیاں مسلسل سننے کو ملتی رہیں۔ ایک بار صلیبی کیمپ سے ایک عورت کا نوزائیدہ بچہ کوئی اٹھا کر لے گیا اور پھر اسے بیچ دیا۔ معاملہ سلطان تک پہنچا۔ مؤرخ بہاؤالدین موقع پر موجود تھے۔ سلطان نے بچہ برآمد کروایا اور اس کے خریدار کو قیمت ادا کر کے بچے کو ماں کے حوالے کر دیا۔

انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل یروشلم کے راستے میں ایک معرکے کے دوران

فرانس کے بادشاہ فلپ آگستس اور انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کی آمد

20 اپریل کو فرانس کے بادشاہ فلپ فوجیوں، گھوڑوں اور اسلحے کے ساتھ چھ جہازوں پر پہنچ گئے۔ مئی کے آخر تک انھوں نے سات نئی منجنیقیں تعمیر کروائیں جو شہر کی دیواروں کو شدید نقصان پہنچا رہی تھیں۔ دوسری طرف سلطان مسلسل اہنے بیٹوں اور افسروں کے ذریعے صلیبیوں پر حملے کرواتے رہے لیکن اتنے مہینوں میں ان کی دفاعی پوزیشنیں مضبوط ہو چکی تھیں۔

آٹھ جون 1191 کو انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل بھی عکا پہنچ گئے۔ بہاؤالدین بتاتے ہیں کہ وہ 25 بحری جہازوں میں پہنچے۔ مغربی یورپ میں طویل جنگی مہمات کے تجربے، انتہائی باریکی سے پلاننگ کی مہارت ہونے کے ساتھ وہ زبردست جنگجو تھے۔ ان کے ساتھ 17000 فوجیوں کی آمد نے صلیبی فوج کے حوصلے بہت بلند کر دیے۔ سلطان نے ایک بار پھر مشرق قریب میں پیغام بھیجا کہ ’عکا شہر شدید خطرے میں ہے۔۔۔اگر اب امداد نہ آئی تو کب آئے گی۔‘

رچرڈ کی سلطان سے ملنے کی خواہش اور سلطان کا انکار؟

20 جون کو بادشاہ رچرڈ کا ایلچی سلطان کے سامنے پیش ہوا اور انگریز بادشاہ کی طرف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ سلطان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بادشاہوں میں ملاقات کسی معاہدے کے بعد ہوتی ہے کیونکہ ملاقات اور ایک میز پر کھانا کھانے کے بعد آپس میں جنگ نھیں لڑی جاتی۔ یاد رہے کہ تیسری صلیبی جنگ کا سب سے اہم پہلو سفارتکاری تھا۔

دریں اثنا سنجار، موصل اور موصل سے امداد کیمپ میں پہنچی لیکن بقول بہاؤالدین کہ شہر کے گرد شکنجا کسا جا چکا تھا۔

فرانسیسی اور انگریز صلیبی اتنے زیادہ تھے کہ وہ شفٹوں میں کام کر سکتے تھے اور شہر کا دفاع کرنے والوں کو بالکل آرام نھیں مل رہا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ شہر کے باہر اپنے کیمپوں کے گرد خندقیں بنا چکے تھے جس سے سلطان کا ان پر حملہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔

صلاح الدین ’بےچین ماں کی طرح گھوڑے پر ایک ڈویژن سے دوسری ڈویژن تک جاتےاور لوگوں کو جہاد میں اہنا فرض ادا کرنے کی تلقین کرتے۔‘ ’ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے ان دونوں میں کوئی کھانا نھیں کھایا اور ان پر تھکان اور غم طاری تھا۔‘

شہر سے پیغام آیا کہ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو وہ صلیبیوں سے صلح کا معاہدہ کر لیں گے۔

سلطان سے پوچھے بغیر عکا شہر کا ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ

تاریخ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ شہر میں مایوسی پھیل رہی تھی۔ شہر کا حصار کمزور پڑتا جا رہا تھا اور ان کی طرف سے سخت مزاحمت کے باوجود صلیبوں کی فتح یقینی ہوتی جا رہی تھی۔ 12 جولائی کو شہر سے تیراک نے سلطان کو آکر شہر کی طرف سے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور معاہدے کی خبر دی۔ فلپس بتاتے ہیں کہ انھوں نے قتل عام سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ معاہدے کے تحت انھیں ’اصل صلیب‘ 1500 قیدی چھوڑنے کے علاوہ صلیبیوں کو دو لاکھ دینار بھی دینے تھے۔‘

صلاح الدین نے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا لیکن اس پر دستخط انھیں کے ہونے تھے

معاہدے میں سلطان کے لیے سب سے مشکل سوال دو لاکھ دینار کا تھا۔ اس جنگ میں بہت زیادہ وسائل استعمال ہو چکے تھے اور سلطان کو بار بار مالی مدد کی درخواست کرنی پڑی تھی۔ ان کی دریا دلی بہت سے اتحادیوں کو اکٹھا رکھنے کا اہم ذریعہ ثابت ہوئی تھی اور اب جب ان کے پاس ذاتی وسائل ختم ہو رہے تھے یہ مطالبہ مشکل تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سلطان نے آدھی رقم ادا کر دی اور ان کی طرف سے طے شدہ تعداد سے آدھے قیدی آزاد کرنے کی پیشکش قبول کر لی گئی۔

مسلمان قیدیوں کا قتل عام

تاریخ بتاتی ہے کہ سلطان کا اصرار تھا کہ مسلمان قیدیوں میں اہم عہدیدار بھی شامل ہونے چاہیں اور یہ صرف عام قیدی نہ ہوں۔ اس معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر ہونے لگی۔ رچرڈ نے ان کی تحویل میں مسلمان قیدیوں کو جن کی تعداد 2600 تھی ایک جگہ اکٹھے کر کے ہلاک کر دیا۔ جب تک مسلمانوں کو اس کی خبر پہنچی بہت دیر ہو چکی تھی۔

فلپس لکھتے ہیں کہ ان کا مقصد سلطان صلاح الدین کو بدنام کرنا تھا کہ وہ تو اپنے لوگوں کی حفاظت بھی نھیں کر سکتے۔ بہاؤالدین نے لکھا رچرڈ تیزی سے یروشلم کی طرف بڑھنا چاہتے تھے اور ان قیدیوں کے لیے اپنے کچھ سپاہی پیچھے چھوڑنے پڑنے تھے۔ سلطان نے بھی ماضی میں قیدی ہلاک کیے تھے لیکن انھوں نے ایسا جنگوں کے بعد کیا تھا نہ کہ کبھی کسی معاہدے پر بات چیت شروع ہونے کے بعد۔

عکا شہر سے یروشلم تک

یروشلم کی طرف بڑھتے ہوئے صلیبی فوج کے ایک طرف ساحل تھا جہاں سے انھیں سمندر کے ذریعے امداد ملتی رہی۔ رچرڈ نے اس کا خصوصی بندوبست کیا تھا اور عکا کی لڑائی میں مسلمان بحریہ کو نقصان کی وجہ سے وہ اس کے خلاف کچھ نھیں کر سکتے تھے۔

عکا سے روانہ ہوتے ہی مسلمان تیر اندازوں نے صلیبیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سلطان کے بیٹے الافضل نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دنوں جو صلیبی قیدی بنتا اس کے ساتھ سخت سلوک کیا جاتا اور اس میں عہدے اور رتبے کی کوئی تفریق نھیں کی گئی۔

رچرڈ کی صلیبی فوجیوں کو سلطان کے تیروں سے بچانے کی حکمت عملی

ستمبر کے مہینے میں درجہ 30 سنٹی گریڈ سے زیادہ تھا اور دونوں طرف کی تحریریں بتاتی ہیں گرم کی موسم کی وجہ سے بھی کافی جانی نقصان ہوا۔ صلاح الدین اور رچرڈ اپنے دستوں کا حوصلہ بڑھاتے گھوڑے پر آگے اور پیچھے جاتے دیکھے جا سکتے تھے۔

سلطان کی فوج سے مارچ کے دوران روایتی انداز میں ڈھول اور بگل بجائے جا رہے تھے۔ صلیبی فوج میں دور سے بادشاہ رچرڈ کا پرچم دیکھا جا سکتا تھا جو ایک اونچے پول سے لہرا رہا تھا۔ ان کی انفنٹری تیروں کی بارش سے بچنے کے لیے سر سے پاؤں تک زرہ بکتر میں ملبوس تھی اور گھڑسواروں کے باہر کی طرف مارچ کر رہی تھی تاکہ قیمتی گھوڑوں کو سلطان کی فوج سے برسائے جانے والے تیروں سے محفوظ رکھا جا سکے۔

فلپس لکھتے ہیں کہ کون سے سپاہی ساحل والی طرف مارچ کریں گے اور کون سے باہر کی طرف اس میں بھی باریاں لگی تھیں تاکہ سب کو سلطان کی فوج حملوں سے بچ کے چلنے کا موقع ملے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کے بٹن پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp