عمران خان اور 22 کروڑ مصیبتیں


یہ ایک معمول کا اخبار تھا، خبروں اور اشتہارات سے اٹا ہوا، کاغذوں کا ایک پلندا جس کا سب سے زیادہ بروقت، مؤثر اور منفعت بخش استعمال پاکستان کے تمام پکوڑہ فروش کرتے ہیں۔ ڈھیر ساری خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ ٹرمپ کے مواخذے کی راہ ہموار ہو چکی۔

ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم انکشاف فرما رہے تھے کہ پاناما، براڈشیٹ نے حکمران اشرافیہ کی کرپشن اور منی لانڈرنگ بے نقاب کر دی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان عدالت عظمیٰ میں سینیٹ اوپن بیلٹ کیس میں دلائل دے رہے تھے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینا بے ایمانی اور سیاسی معاملات حل کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، مولانا فضل الرحمٰن لورالائی کے جلسے میں عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے تھے کہ پرانے چوروں کو واپس لاؤ تاکہ غریبوں کو روٹی تو ملے۔

مسلح افواج کے بہادر سپہ سالار قمر جاوید باجوہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے غم زدہ متاثرین کو تسلی دیتے ہوئے انصاف کی فراہمی کا یقین دلارہے تھے۔ براڈ شیٹ کے مشہور زمانہ اور 007 سے بھی زیادہ شہرت پانے والے کردار مسٹر موسوی رطب اللسان تھے کہ رشوت مانگنے والے پاکستانی عہدیدار کے ساتھ شہزاد اکبر نہیں تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی سکروٹنی کمیٹی فارن فنڈنگ کیس میں بنک اکاؤنٹس کی تفصیلات دینے سے معذرت کر رہی تھی۔

آئی سی سی کے پول میں عمران خان ویرات کوہلی کو نواز شریف کی طرح عین آخری لمحات میں پچھاڑ کر فاتح قرار دیے جا چکے تھے اور تمام بھارتی حیرانی و پریشانی کے عالم میں ماتم کناں تھے لیکن کابینہ کی خوبصورت ترین خاتون وزیر زرتاج گل اپنے سمارٹ وزیراعظم کا ویرات کوہلی سے مقابلہ غیر منصفانہ قرار دے رہی تھیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ترجمان ندیم افضل چن اپنے استعفے کا چن چڑھا کر کابینہ سے گھر تک کا فاصلہ طے کر رہے تھے۔ غدار وطن الطاف حسین کو نیلسن منڈیلا قرار دینے والے زیرک اور ذہین ترین وزیر قانون فروغ نسیم جنرل مشرف کے خلاف فیصلے پر تنقید کرنے پر عدالت عظمیٰ میں معافی مانگ رہے تھے۔ وفاقی حکومت آئمہ کرام اور خطیبوں کو ماہانہ اعزازیہ دینے اور مدارس کے طلبا کو PDM احتجاج میں شرکت سے روکنے کا فیصلہ کر رہی تھی۔

کورونا سے مزید 55 اموات کے ساتھ 2123 نئے مریضوں کا اضافہ اور فعال کیسز کی تعداد 33102 ہو گئی تھی۔ میرعلی میں شدت پسندوں کی فائرنگ اور دستی بم حملے میں 2 سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ جواں سال، جواں ہمت، پرعزم، پرجوش اور ہروقت جوالہ مکھی بنے مراد سعید مولانا فضل الرحمٰن کی بیرون ملک جائیدادیں اور فرنٹ مین سامنے آنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ پاکستان اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہا تھا کہ پرتشدد قوم پرستوں کو بھی خلاف قانون قرار دے۔

ائیر کوالٹی انڈیکس چیخ چیخ کر بتارہا تھا کہ فضائی آلودگی میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ نیب، سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف ریفرنس دائر کر رہا تھا۔ کرک سمادھی واقعہ پر پولیس افسران سمیت 12 اہلکار ملازمت سے برخاست کیے جا چکے تھے۔ آٹا مہنگا ہونے پر آزاد کشمیر بھر میں عوام مظاہرے کرتے ہوئے پولیس سے تصادم کر رہے تھے۔

اسی دوران لاہور کے قدیم اور گنجان آباد علاقہ راج گڑھ کے ٹوکے والے چوک میں دوہرے قتل کی لرزہ خیز واردات کی معمولی اور چھوٹی سی واردات ہو رہی تھی جس میں سنگدل باپ نے دو معذور بیٹیوں کو ذبح کرنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ پولیس نے نعشیں پوسٹ مارٹم کے لیے مردہ خانے منتقل کر کے معاملے کی تحقیقات شروع کردی تھیں اور اس کے مطابق قتل ہونے والوں میں 34 سالہ سعدیہ اور 30 سالہ اقصیٰ شامل تھیں۔ ملزم ضیا بٹ نے اپنی ہی معذور بیٹیوں کو چھریوں کے پے در پے وار کرنے کے بعد خود کو بھی چھریوں کے وار سے زخمی کر لیا تھا، اسے طبی امداد کے لیے میو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکا۔ ملزم ضیا بٹ کی اہلیہ بھی گھر پر موجود تھی جسے شامل تفتیش کر لیا گیا تھا۔

پاکستان میں روزانہ ٹریفک حادثات، خود کشیوں، خود سوزیوں، گھریلو تنازعات، پرتشدد واقعات، جنسی ہراسانی، کم سن بچے بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کے قتل، ڈکیتیوں، چوریوں، اغواء برائے تاوان جیسی وارداتوں کی اتنی فراوانی اور ارزانی ہو چکی کہ اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور ہمارے دلوں سمیت ہر جگہ یہ اپنی اہمیت کھو چکیں۔ چنانچہ کوئی ایسی خبروں کو پڑھتا ہے اور نہ ہی ان کی ریٹنگ آتی ہے۔ اب ایسی غیر اہم خبروں کو فرنٹ پیچ کی سٹوری بنانا یا ان پر کوئی پروگرام کرنا سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ نہیں۔

ایک وقت تھا کہ اسلام پورہ لاہور ہی میں ایک خاندان کے چودہ افراد کے قتل پر پورا شہر ہی نہیں، پورا ملک سہم کر رہ گیا تھا محض اس لیے کہ اس وقت ایسی وارداتوں کی شرح آج کے مقابلے میں کہیں کم تھی اور ایسی خبریں نہ صرف شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوتیں بلکہ ریاستی رٹ کو چیلنج بھی کرتی تھیں۔ حکام بالا کو اپنا راج سنگھاسن ڈولتا دکھائی دیتا تھا۔ دنوں، ہفتوں نہیں مہینوں ایک ہی واردات کے چرچے رہتے، مائیں اپنے بچوں کو اس کا حوالہ دے دے کر ڈراتیں اور بڑھے بوڑھے، مرد و زن کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر اللہ توبہ کرتے، رد بلا کے لئے صدقے اتارتے اور منتیں مانتے۔

شاید اس وقت تک وطن عزیز ایٹمی قوت نہیں بنا تھا، اس لئے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے باوجود ہمارا ازلی و ابدی دشمن ایسی گھٹیا سازشیں کرنے سے باز ہی رہتا تھا، سو حکمران بھی تقریباً فارغ ہی رہتے اور اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے خود سوزی، خود کشی اور قتل و غارت گری جیسی چھوٹی چھوٹی وارداتوں کا تدارک کر کے اپنی کارکردگی دکھانے کو کوششیں کرتے۔ اس وقت ملک کی آبادی بھی بائیس کروڑ نہیں تھی، اسی لئے ملک کے وزیر اعظم کو عوام مصیبت اور ریاست تماشا نہیں لگتی تھی۔

اب جبکہ ہر طرف سے سازشوں کی یلغار ہے، ہمارے دشمن ایک سے بڑھ کر جانے کتنے ہو گئے حتیٰ کہ وہ سرزمین بھی کہ جس کی خاک کو ہم اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے اور ہر مرض کی شفا گردانتے ہیں۔ اب جبکہ ایف اے ٹی ایف سے لے کر ورلڈ بنک تک باوجود ہزار کوشش کے ہماری معیشت کو سنبھالا دینے میں ناکام ہیں۔ کہیں سے کوئی خیر کی خبر نہیں، کوالالمپور میں پی آئی اے کا ایک طیارہ لیز کی عدم ادائیگی کی پاداش میں ایک عدالتی حکم پر ضبظ ہو گیا۔

براڈ شیٹ پانامہ سے زیادہ بڑا سکینڈل بن چکا۔ آسٹریلیا کی ٹھیتھیان کمپنی کی جانب سے ریکوڈک کان کنی کیس میں چھ ارب ڈالر ہرجانے کی رقم پاکستان کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے۔ ڈالروں کی برسات ہونے کے بجائے الٹا اربوں ڈالر کنگلے پاکستانیوں کی جیبوں اور خالی پڑے خزانے سے ایسے نکلے جا رہے ہیں جیسے چھلنی سے پانی اور ہاتھوں سے ریت۔

پٹرولیم مصنوعات کی مصنوعی قلت کا سبب بننے والی بارہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی منافع خوری اور ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ان کمپنیوں کے ملوث ہونے کے شواہد پر مبنی ایف آئی اے کی رپورٹ، شوگر مافیا کی بازی گری، بجلی کمپنیوں کو عدم ادائیگی کے سبب گردشی قرضے کابڑھتا تئیس ارب روپے کا حجم، گیس، تیل، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا وہ کوڑا جو ہر پندرہواڑے کو عوام کے پچھواڑے پر لگا تار برس رہا ہے۔

اب ایسے میں ضیاء بٹ جیسے سفاک باپ کی اپنی ہی معذور بیٹیوں کو قتل کرنے کے بعد خود بھی خود کشی کرنے جیسی چھوٹی موٹی وارداتوں پر کون دھیان دے کہ ابھی تو ہماری ماں جیسی ریاست اسامہ ستی کے بہیمانہ قتل اور ہزارہ برادری کے مقتولین کے لواحقین کو طلب کر کے انصاف مع بھاری رقم مہیا کر کے فارغ ہوئی ہے۔ بائیس کروڑ مصیبتیں اور بے چارہ اکیلا وزیراعظم۔

اللہ جانے اپنے وقت کا ایک آمر ضیا الحق غنڈہ تھا یا امیرالمومنین لیکن راج گڑھ ٹوکے والے چوک کا ضیا بٹ یقینا بے رحم، سفاک، سنگدل، قاتل اور غنڈہ ضرور قرار دیا گیا، یہ الگ بات کہ بقول شخصے وہ اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتا تھا اور ان کا ہر وہ نخرہ اٹھاتا جو ایک باپ اپنی بیٹی کا اٹھاتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ دو بیٹیوں کی پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت دی گئی۔ لیکن یہ غنڈہ یکایک خود کشی جیسے حرام فعل کا ارتکاب کر کے جہنمی بن گیا۔ سنا ہے کہ وہ بڑھتی مہنگائی اور معذور بچیوں کے مستقبل سے پریشان تھا حالانکہ اس کا بلکہ ہم سب کا کپتان تو ابھی تک بائیس کروڑ مصیبتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے اور بار بار کہہ رہا ہے کہ گھبرانا نہیں۔

اب کہاں ایک طرف ریاست مدینہ اور دوسری طرف اس کے 22 کروڑ جہنمی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).