ملتان کا بازار حسن: ایک گم شدہ منظر


اپنی محافل اور کلبوں میں وہ مغربی طرز کے مخلوط رقص ہی کا اہتمام کرتے تھے مگر اس سامراجی ٹولے کو مشرقی جسم کی ضرورت بہرحال تھی۔ چنانچہ قحبہ خانے (ریڈ لائٹ ایریا) ہر چھاؤنی میں قائم کیے گئے۔ جس علاقے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا ’یہاں انگریز نے چار بڑے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ قائم کیے تھے‘ ملتان ان چار میں سے ایک تھا۔

ابھی تک آپ نے جو منظر دیکھا، وہ تھا بالاخانوں میں تھرکنے والی طوائفوں کا مگر ملتان کے بازار حسن کا ایک طبقہ اور بھی تھا۔ یہی ریڈ لائٹ ایریا والا جو کسی نہ کسی صورت اب بھی موجود ہے۔ گل روڈ سے دائیں بائیں جتنی بھی گلیاں پھوٹتی ہیں، تنگ، پیچ دار اور نسبتاً تاریک ہیں۔ یہاں جو عورتیں رہتی تھیں وہ جسم فروشی کے کسب سے وابستہ تھیں اور ”کرسی والیاں“ کہلاتیں۔ ان کا یہ نام یوں پڑا کہ گلی میں کھلنے والے مکان کے دروازے میں یہ کرسی ڈالے بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والوں کو دعوت دیتیں۔

وہیں کھڑے کھڑے پسند اور سودے بازی کے مراحل طے ہوتے اور گاہک کو اندر داخل کر لیا جاتا۔ یہ کاروبار دن بھر چلتا رہتا۔ رات کو بھی ایسی کچھ ممانعت نہ تھی مگر کرسی ڈال کے بیٹھنے کا کام دن میں ہوتا۔ ملتان کا بازار حسن گویا شب میں طوائفوں اور دن میں جسم فروش عورتوں کے دم قدم سے آباد رہتا۔ دونوں طبقوں میں بے حد فرق تھا، وہی فرق جو ایک فن کار اور گوشت فروش میں ہوتا ہے۔ طوائفوں اور بالاخانوں کی وجہ سے برصغیر میں موسیقی اور نرت کاری کے فن کو عروج حاصل ہوا۔ برصغیر میں جس قدر گانے والیاں مشہور ہوئیں ’سب کا تعلق انہی بازاروں سے تھا۔ آج بھی اگر آپ کو کوئی سریلی آواز سنائی دیتی ہے تو اس کی ذرا سی کھوج کر کے دیکھ لیں‘ اس کا تعلق بھی پیچھے جا کر بازار سے ہی جڑے گا۔

ویسے تو بازار حسن تھوڑے بہت مقامی رسم و رواج کے فرق سے، ایک جیسے ہوا کرتے تھے تاہم ملتان کا بازار حسن ایک حوالے سے باقیوں سے مختلف تھا۔ ملتان اور اس کا گردو نواح بنیادی طور پر زمیں داروں اور جاگیرداروں کا علاقہ ہے۔ یہ بڑے لوگ کوٹھے پر جا کر عام لوگوں کی طرح گانا سننا، اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے۔ سو ان کے منشی ٹائپ چیلے چانٹے کوٹھوں سے رابطہ میں رہتے اور خبر رکھتے کہ کہاں مال اچھا ہے۔ یہ لوگ طوائفوں کو اپنی حویلی یا ڈیرے پر بلا کر رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوتے۔

کوئی پسند آجاتی تو اسے اپنے لئے مخصوص بھی کرلیتے۔ اس کو خرچہ پانی ماہانہ بنیادوں پر دیا جاتا۔ بعض تو اپنی اس رکھیل کو کوٹھے پر بازار کے اوقات میں کام کرنے کی اجازت دے دیتے مگر زیادہ تر یہ اجازت بھی نہ دیتے۔ ایسی رکھیلوں کے ساتھ جسمانی تعلق بھی استوار ہوتا تھا اور اس میں سے اولادیں بھی ہوجاتیں۔ یہ اولادیں، جاگیردار صاحب کے انتقال کے بعد پس ماندگان کے لئے مقدمہ بازی اور جھگڑوں کا باعث بنتیں۔ ملتان کی عدالتیں ایسے بے شمار مقدمات کی گواہ ہیں۔

اوپر جو ذکر گزرا کہ بازار کے آس پاس کے محلوں میں امراء نے مکانات بنا رکھے تھے تو بازار کے پڑوس میں ان عالی شان مکانات کی وجہ بھی سن لیجیے۔ گردو نواح کے خوانین و سردار، ملک و مہر صاحبان اور نوابین جو اس تفریح کے کچھ زیادہ ہی رسیا تھے، انہوں نے یہ مکان یہاں شہر میں بنا چھوڑے تھے۔ ان میں ملازمین موجود رہتے۔ دو صورتیں تھیں، منظور نظر طوائفیں یا تو ان مکانات میں رہائش رکھتیں، ظاہر ہے ان کا سارا خرچ بذمہ خان صاحب، نواب صاحب ہوتا۔

مہینے میں ایک دو بار تشریف لاتے اور دل پشوری فرما کر پھر سے یہ شرفا، اپنی شرافت گاہوں کو لوٹ جاتے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ منظور نظر اپنے کوٹھے پر ہی رہتی اور ناچ گانا کرتی رہتی مگر جب صاحب نے آنا ہوتا تو ملازم خبر کر دیتے کہ فلاں دن سردار صاحب آرہے ہیں۔ پھر جتنے دن سردار صاحب شہر میں رہتے، منظور نظر اپنی ماں کے ساتھ وہیں اس مکان میں سکونت اختیار کرتی۔ اگر گانے کا موڈ ہوتا تو سازندے بھی وہیں بلوالئے جاتے۔ ان مقاصد کے لئے یہ عالی شان مکانات بازار کے قریب بنائے گئے تھے۔

اس فیچر کی تیاری کے سلسلہ میں جب بازار کو جاننے والے پرانے لوگوں کے انٹرویوز کیے تو شہر کے بڑے گھرانوں کی۔ بہت سی کہانیاں سننے کو نہیں ملیں مگر یہ کوئی اس نوع کا تحقیقی مضمون نہیں ہے کہ کون کون خاندان سے کون کون طوائف وابستہ رہی۔ ہمارا مقصد صرف سرائیکی علاقہ کے صدرمقام، ملتان کے اس قدیمی اور معروف بازار حسن کی ایک جھلک اور کچھ مناظر دکھانا ہے جو اب وقت کے غبار میں کھو چکے ہیں۔ اچھا سمجھیں یا برا مگر حقیقت یہی ہے کہ ایک زمانے تک یہ بازار ہماری روزمرہ معاشرت کا حصہ رہے ہیں۔ ان کو بند کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ اب جگہ جگہ بغیر بورڈ والی دکانیں کھل گئی ہیں۔

ادب اپنے زمانے کی معاشرت کا پتہ دیتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے مشہور افسانہ ”کنجری“ کا مرکزی کردار ”تاجی“ جس کا اصل نام زرتاج ہے، ملتان کے بازار حسن کی معروف طوائف ہے جو ایک کھاتے پیتے شخص سہراب خان سے شادی کرلیتی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر عذرا شوذب نے اپنے تحقیقی مقالہ ”ملتان میں اردو نثر کا ارتقا“ میں ملتان کے ایک ہندو ناول نگار لالہ مول چند کے ناول ”چلتا پرزہ المعروف بگلا بھگت“ کا ذکر کیا ہے۔ یہ ناول 1900 ء میں چھپا۔ اس کی کہانی ایک ہندو تاجر کندن لعل اور بازار حسن کی طوائف مہرالنساءکے گرد گھومتی ہے۔ اس ناول میں ملتانی معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے۔ آئیے سوا سو سال پہلے کے ملتان کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔

کندن لعل ایک دکان دار ہے، وہ ایک لمبے چوڑے کاروباری دورے کے بعد ملتان لوٹتا ہے تو خاصا سرمایہ اس کے پاس ہے۔ وہ اپنی دکان کو جنرل شاپ میں بدل دیتاہے اور سود پر رقم دینے لگتا ہے۔ شادی بھی کرتا ہے مگر بیگم سے اس کی نہیں بن پاتی۔ دلہن روٹھ کر میکے جا بیٹھی ہے۔ کندن لعل کی دکان پر ایک روز مہر النساء ریشمی مخمل خریدنے آتی ہے اور کندن لعل دل ہار بیٹھتا ہے۔ وہ اپنے دوست پریم چند کے ساتھ شہر کی معروف سیر گاہ، عام خاص باغ پہنچتا ہے۔

یہاں روز شام کے وقت گلزار پور بستی کی طوائفیں جلوس کی شکل میں سیر کرنے کے لئے آتی ہیں۔ اس وقت سڑک پر ’جو دہلی دروازے سے عام خاص باغ کو آتی ہے، بے شمار دل پھینک عاشق بھی طوائفوں کے اس جلوس کی سیر دیکھنے کو جمع ہوا کرتے ہیں۔ یہاں کند ن لعل پھر سے مہر النسا کو دیکھتا ہے اور اس کاجنون عشق فزوں تر ہوجاتا ہے۔ مٹھائی، پھول اور تحائف سے لدا پھندا مہر النساءکے ڈیرے پر جا پہنچتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments