ملتان کا بازار حسن: ایک گم شدہ منظر


اس ناول کی کہانی مختصر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برس کو حذف کر کے دیکھیں تو یہ طوائفیں، ان کی بستیاں، کوٹھے، ڈیرے ملتان کی معاشرت کا ایک ناگزیر حصہ تھے۔ یہ روزمرہ کا ایسا ہی حصہ تھیں جیسے دیگر عام شہری۔ عام خاص باغ جو کبھی ملتان کے آخری گورنر دیوان ساون مل کی حویلی تھی اور اب مدت سے عوامی سیرگاہ ہے ’یہاں کبھی شہر کی طوائفیں شام کو ہوا کھانے آیا کرتی تھیں۔ یہ طبقات اب بھی موجود ہوں گے مگر حالات کے جبر نے انہیں چھپ چھپا کر دھندا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اب ان کی کوئی مخصوص بستی، محلہ نہیں رہا۔ لالہ مول چند کے اس ناول میں بستی گلزار پور کا ذکر ہوا۔ معلوم نہیں یہ نام اصلی ہے یا فرضی۔ گلزار پور نام کی ایک بستی شہر سے دور دنیا پور روڈ پر ہے مگر اس کا کوئی تعلق ایسے کسی کسب سے نہیں۔ دلی دروازے کا ذکر ہوا کہ طوائفوں کا جلوس ادھر سے عام خاص باغ کو آنے والی سڑک پر آیا کرتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں ملتان کا بازار حسن دہلی گیٹ کے باہر واقع تھا۔

شاہ رسال روڈ ’ایک بزرگ کے نام سے منسوب ہے۔ اسی سڑک پر ان کا مزار بھی ہے۔ اگر آپ مزار شاہ رسال کے احاطے میں داخل ہوں تو پھاٹک سے گزر کر بائیں طرف مسجد ہے اور اس کے آگے مزار جبکہ دائیں جانب ایک مختصر سبزہ زار ہے، جس میں ایک قبر بھی بنی ہے۔ یہ دربار کے کسی خدمت گار کی قبر ہے۔ اس سبزہ زار کے بعد اکھاڑہ ہے۔ اسے ”اکھاڑہ مستو پہلوان“ کہا جاتا ہے۔ سویرے اکھاڑے کے وقت تو اب غلام مصطفی عرف مستو پہلوان شاذ ہی وہاں ہوتے ہیں۔

اکھاڑے اور مزار کے درمیان کے صحن کے پار سامنے والی دیوار کے ساتھ بیری کا جسیم درخت کھڑا ہے۔ اس کے نیچے ایک چبوترہ بنا ہے جس پر ایک دری بچھی رہتی ہے۔ اگر آپ شام کے وقت جائیں تو دری پر آلتی پالتی مارے ایک بھاری تن و توش کے صاحب بیٹھے ہوتے ہیں۔ سوجے ہوئے ٹخنے، مضبوط کلائیاں اور گول بھاری چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی۔ یہی مستو پہلوان ہیں۔ ساری عمر اس بازار میں گزر گئی۔ ان کے منہ پر تو لوگ مستو پہلوان کہتے ہیں مگر عدم موجودگی میں مستو کنجر۔

وہ کہتے ہیں ”میں کشمیری ہوں ’میرے نام کے ساتھ جو لاحقہ“ کنجر ”لگا ہوا ہے، یہ آپ کے صحافیوں کا دیا ہوا‘ اعزاز ’ہے“ ۔ بہر حال وہ ایک روایت سناتے ہیں جو میں نے پہلے کبھی پڑھی نہ سنی مگر مستو پہلوان کا کہنا ہے کہ یہ سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے اور مبنی بر حقیقت ہے۔ دروغ بر گردن راوی‘ سنئے وہ کیا بتاتے ہیں۔

صدیاں بیتیں، ایک دفعہ ملتان میں وہ سوکھا پڑا کہ خلق خدا کی جان لبوں پر آ گئی۔ دعائیں، مناجاتیں بے ثمر ہوئیں اور کوئی سبیل بارش کی نظر نہ آئی تو شہر کے نمائندہ لوگ ایک وفد کی صورت میں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی سہروردیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ”یا حضرت! بارگاہ عزوجل میں ہاتھ بلند کیجئے اور دعا فرمائیے کہ اللہ اپنی رحمت کی بارش عطا کرے۔ سوکھا دور ہو اور خلق خدا چین کا سانس لے“ ۔ حضرت زکریا ملتانی ؒ نے فرمایا کہ دہلی گیٹ جو چکلہ ہے، وہاں چلے جاؤ اور فلاں بائی کو جا کر کہو۔ وہ دعا کرے تو اللہ بارش ضرور دے گا۔ اہل شہر حیران تو ہوئے مگر حضرت کا حکم تھا، سو بائی کے ڈیرے پر گئے اور قصہ سنا کر دعا کی درخواست کی۔

خاتون نے پہلے تو لیت و لعل سے کام لیا کہ میں ایک گنہگار، ایک ناپسندیدہ پیشے سے وابستہ، میری دعا سے بھلا کیا ہوگا۔ مگر شہریوں کے اصرار پر اس نے دعا کو ہاتھ اٹھادیے۔ خدا کی قدرت کہ بارش ہوئی اور جل تھل ایک ہو گیا۔ لوگوں نے پوچھا، یہ کیا راز ہے۔ خاتون بولی اور تو مجھے اپنی کوئی نیکی یاد نہیں آتی ’ہاں ایک دفعہ میں رات گئے گلی سے گزر رہی تھی۔ کڑاکے کا جاڑا تھا۔ گلی کے ایک گوشے میں کتے کا چھوٹا سا بچہ سردی سے سکڑا ٹیاؤں ٹیاؤں کرتا تھا۔ میرے دل میں جانے کیا آئی کہ اسے اٹھا کر یہاں ڈیرے پر لے آئی، ملازم سے کہا کہ اسے دودھ میں انڈہ پھینٹ کر پلائے۔ سردی سے نجات ملی اور خوراک پیٹ میں گئی تو وہ جیسے جی اٹھا۔ دس بارہ روز یہیں ڈیرے پر رہا پھر خود ہی کہیں چلاگیا۔

مستو پہلوان کا کہنا تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے، کون کیا ہے۔ ہم لا علم انسان کسی کا ظاہر دیکھ کر فتوے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ اہل اللہ کا اور ان بازاروالوں کا رشتہ بڑا پرانا ہے۔ اہل اللہ چونکہ اندر تک دیکھنے والی نظر رکھتے ہیں سو وہ سامنے والے کے اصل مقام سے واقف ہوتے ہیں۔ سخی شہباز قلندر نے تو اپنا ڈیرہ ہی بازار حسن میں لگایا تھا۔ مستو پہلوان کے مطابق یہاں ملتان کے لودھی محلہ میں ایک طوائف تھی مائی حوطاں۔

خواجہ غلام فرید کبھی کبھار اس کے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اقبال بانو ایک طویل عرصہ اسی بازار میں رہیں۔ وہ سامنے گلی میں اداکارہ انجمن اور گوری کا گھر ہے۔ ناہید اختر کی پھوپھی مسرت گٹکی یہیں رہتی تھیں اور کیا غضب کا گاتی تھیں۔ گٹکی انہیں اس لئے کہا جاتا تھا کہ چھوٹے قد کی تھیں۔ ریما کی والدہ کی آواز سارے بازار میں مشہور تھی۔ سلامت علی خان، نزاکت علی خان، ذاکر علی خان سب یہیں سے نکلے ہیں۔

بھیڈی پوترا قریب ہی ایک تکیہ ہے وہاں کے استاد حسین بخش سارنگی نواز اور طبلہ نواز استاد معشوقے خان نے بڑا نام پایا۔ استاد معشوقے خان کے فرزند شبیر حسین کا پچھلے دنوں انتقال ہوا ’وہ بھی اپنے فن میں یکتا تھے۔ مستو پہلوان نے کہا کہ بازار اجڑ گیا ہے۔ کچھ پرانے گھرانے موجود ہیں، سازندوں کی اولادیں رہتی ہیں مگر اب اس کسب سے وابستہ نہیں ہیں۔ گلیوں میں جسم فروش عورتیں ابھی بھی باقی ہیں مگر خال خال۔ وہ پہلے جیسے کرسی والیوں کا سا عالم نہیں ہے۔

بازارکا تصور اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ای شاپنگ کی طرح یہ بازار بھی اب موبائل اور انٹر نیٹ کے ذریعے چلتا ہے۔ فون پر اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر رابطے استوار ہوتے ہیں اور ڈرائنگ رومز میں محافل آراستہ ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف سٹیج ڈرامے ہیں۔ ڈرامے کا تو بس نام ہے پانچ چھ گانوں کی اجازت سرکارکی طرف سے ہے۔ عملاً یہ مجرا ہی ہوتا ہے۔ سو بازار کے جو تماش بین طبیعت عوام تھے، وہ تھیٹروں کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ کام سب جاری بس شکلیں بدل گئی ہیں۔

بازار حسن آباد تھا تو کچھ روایات موجود تھیں اور کسی حد تک اخلاقیات بھی۔ کچھ اصول بھی تھے۔ ملتان کے زمیں دار حضرات فن موسیقی کی سرپرستی کرتے تھے۔ استاد صغیر احمد بتاتے ہیں کہ ابدالی روڈپر نواب اقبال خان کی بڑی وسیع حویلی تھی۔ وہ خود بھی ستار بجاتے تے۔ استاد کوڑے خاں اپنے زمانے کے بڑے نام ور اور کہنہ مشق طبلہ نواز گزرے ہیں، وہ مستقل نواب صاحب کی ملازمت میں تھے۔ ان کی حویلی پر ہی رہا کرتے تھے۔ قصبہ مڑل کے زمیں دار پیر بخش مڑل بھی موسیقی کے سرپرستوں میں سے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments