عشق کے کوچے سے


محبت کیا ہے؟ خود سے سوال کرتا ہوں تو دنیا کی بھیڑ بھاڑ سے الگ ایک نئی دنیا کے دروازے میرے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ غیب سے ایک آواز گونجتی ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو عشق کرنا جانتے ہیں۔ میرا بے خوف عشق مجھ سے اور میری روح سے وابستہ ہے۔ اس کی محبت میری ہی محبت کا پرتو ہے۔ اس کی لبیک مجھے انتہا کے دروازے تک لے آتی ہے اور محبت کا نغمہ مجھے مسحور و دیوانہ کر دیتا ہے۔

تبسم سوال کرتی ہیں۔ کیا تم محبت سے دور رہ سکتے ہو؟
’شاید نہیں۔‘
ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے۔ ’تم نے اس زندگی میں کتنی محبت کی ہے، سچ بتانا؟‘

میری آنکھیں آسمان کی گہرائیوں میں گم ہیں۔ نالہ مومن ہمی داریم دوست۔ خدا کی محبت سے بندہ کبھی آزاد ہوا ہے کیا؟ محبت نصیب بن جائے تو عاشق کی شان بڑھ جاتی ہے۔ کیا عمر تھی میری اس وقت؟ ننھے ننھے پاؤں کے گھنگھرو جاگے تو ایک خزاں رسیدہ حویلی کی سوغات سامنے تھی۔ مکتب میں بٹھایا گیا تو عشق کے طلسم نے بچپن سے ہی دل کو رازدار بنالیا۔

اے سوختہ جاں پھونک دیا کیا مرے دل میں
ہے شعلہ زن اک آگ کا دریا مرے دل میں

ننھی منی عمر کی پازیب بجی تو ایک پری وادی حیرت سے نکل کر سامنے آ گئی۔ مجھ سے عمر میں چار سال چھوٹی۔ رشتہ دار۔ خستہ حال حویلی میں جینے کو نغمہ مل گیا۔ اسے نہ دیکھتا تو جیسے جی کو چین نہ آتا۔ نیما۔ کہاں ہو تم۔ کہاں کھو جاتی ہو نیما۔

’میں تو یہیں ہوں۔ تمہارے پاس۔‘

لیکن وہ میرے پاس کہا تھی۔ چھوٹا سا شہر آرہ۔ اور عشق کی پہلی آواز نے جس شہر سے رشتہ جوڑا، وہ کلکتہ تھا۔ میرے لیے ایک طلسم ہوشربا۔ جہاں نیما نام کی ایک ساحرہ رہتی ہے۔ جو سال میں صرف 41 دنوں کے لیے چھٹی کے موقع پر مجھے مل جاتی تھی۔ گرمیوں کی چھٹی کے چھ سات دن اور سردیوں میں آگ کے شعلوں کے درمیان مجھ میں دبکی ہوئی۔ آنسو بہاتی ہوئی۔ یہ وقت کتنی جلد گزر جاتا ہے۔ میں جا رہی ہوں۔ مشرف۔ آنے کے ساتھ ہی جانے کی باتیں کس قدر اذیت دیتی ہیں۔

کالج میں پہنچے تک نیما میری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی تھی۔ نیما اردو نہیں جانتی تھی۔ اردو سے عشق نہیں کرتی تھی۔ اور آہستہ آہستہ شہر کلکتہ کا طلسم میری نگاہوں میں کم ہوتا گیا۔ تب تک کہانیاں لکھنے کی شروعات ہو چکی تھی۔ سترہ سال کی عمر میں، میں ایک ناول عقاب کی آنکھیں لکھ چکا تھا۔ نیما گم تھی اور عشق کے پردے سے ایک معصوم چہرے نے سر اٹھایا تھا۔ صحرا کے سناٹے میں عشق روشن تھا۔ اور محبت کے راز سے میرے سوا کوئی واقف نہ تھا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اس چہرے کو چپکے سے سلام کیا۔

میں سانیال اور تبسم، ترانہ
یہ وہ دور تھا جب تبسم میرے لیے ترانہ تھی اور میں سانیال۔
تب یہ دنیا شاید اس قدر نہیں پھیلی تھی۔
تب یہ دنیا شاید اس قدر نہیں سکڑی تھی۔

آسمان پر چاند روشن تھا۔ تارے ٹمٹما رہے تھے۔ نیلے آسمان پر دو ایک بادلوں کے ٹکڑے نظر آئے۔ مگر رم جھم چمکتے تاروں کے قافلوں نے جھومتے ہوئے بادلوں کی اس چادر کو اوڑھ لیا۔ پھر اس چادر کو وہیں چھوڑ، جھومتے کارواں کے ساتھ یہ تارے آگے بڑھ گئے۔

تب کمپیوٹر نہیں تھا۔

انٹرنیٹ نہیں تھا۔ اپسرائیں نہیں تھیں۔ عمر کی اپنی حدیں مقرر تھیں۔ اور ان حدوں سے تجاوز کرنا بغاوت سمجھا جاتا تھا۔ تب جادو کا گھوڑا نہیں تھا۔ مگر تب بھی تھی محبت۔ شاید موجودہ وقت سے زیادہ آزاد اور پلوٹونک۔ جسم کی جگہ سیدھے روح میں اتر جانے والی محبت۔ تب چاندنی راتیں تھیں۔ سولہ برس پیچھے لوٹوں تو ہندستان کے اچھے خاصے چھوٹے شہر کسی گاؤں یا قصبے جیسے لگتے ہیں۔ فون نہیں، ٹیلیفون نہیں۔ موبائل تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

چھوٹے شہروں میں اپنی تمام تر دقتوں اور پریشانیوں کے باوجود بھی زندگی حسین اور پیاری لگتی تھی۔ تب محبت کی اپنی الگ شکل تھی۔ اپنی ترنگ اور اپنی لہر تھی۔ بارش اور خوشبو جیسے تصورات میں محبت کی گنگناتی موجوں کی طرح۔ اور آسمان پر دور چمکتے کسی ننھے چمکتے تارے کی طرح۔ مگر اس تارے کو دیکھ یا چھو لینا سب کے بس کی بات نہیں تھی۔

لیکن شاید عمر کی نازک پائیدان پر ادب سے دوستی ہوتے ہی میرے لیے محبت کے معنیٰ بھی بدل گئے تھے۔ ایک سنسناتی ہوا۔ جو آپ کے تمام جسم کو اپنی روانی میں بہا لے جائے۔ بہتے یا اڑتے ہوئے آپ یہ بالکل بھی نہیں سوچیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ بلکہ آپ اس لمحہ کی آنچ میں اپنے تمام وجود کو ڈال دیں اور ایک ایک لمحہ کی زندگی اور فنتاسی کو محسوس کریں۔

اور اچانک کی شکل میں چھوٹے شہر میں جیسے خود کو خوش قسمت سمجھنے کا موقع مل گیا تھا۔ ہرنی سی۔ اپنے وجود کی خوشبو کے ساتھ جیسے بس اسی کے لیے بنائی یا لکھی گئی ہو۔ چھوٹی چھوٹی دو چند ملاقاتوں کے بعد ہی ہوا میں اڑنے کا احساس۔ تب چھوٹے شہر کے لوگ شاید اتنے مہذب نہیں ہوئے تھے۔

یا اتنے زیادہ کمر شیل۔
باتیں اڑنے لگی تھی۔ پھیلنے لگی تھیں۔ کالج سے گھر تک قصے کہانیوں کا بازار گرم ہونے لگا تھا۔
ترانہ۔ سانیال۔

لیکن شاید ہم دونوں میں ہی بغاوت بھری تھی۔ یا ہم دونوں کے گھر والے اس بغاوت سے واقف تھے۔ اس دن ترانہ ملی، تو جیسے آہستہ آہستہ اپنی روانی میں بڑھتا پیار ایک نئی خوبصورت سی کہانی لکھنے کی تیاری کر رہا تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی تنگ ندی تھی۔ جہاں ہم کھڑے تھے۔ دور ایک ریہڑی والا پیاز اور آلو فروخت کر رہا تھا۔ دو چھوٹے گندے بچے ہماری طرف دیکھتے ہوئے ہنس رہے تھے۔

ترانہ نے میرے ہاتھوں کو چھوا۔ ’تم گھر کیوں نہیں آئے۔ کیوں ڈرتے ہو۔‘
’ نہیں۔ ڈرتا نہیں۔‘

’ جھوٹ مت بولو۔ ڈر گئے ہو تم۔ کیونکہ شاید ہمارے قصے پھیلنے لگے ہیں۔ معلوم۔ اس نے میرے ہاتھوں پر اپنی گرفت سخت کر لی۔ میں ساری ساری راتیں جاگتی ہوں۔ گھر کھڑکی، دروازے سب غائب ہو جاتے ہیں۔ جیسے کوئی ہوا محل ہو۔ میرا پورا چہرہ صرف ایک مسکراہٹ میں بدل جاتا ہے۔ اور تم ایک خوبصورت رات کے تصور میں ڈھل جاتے ہو۔ میں تمہارا ہاتھ تھامتی ہوں۔ بوسہ لیتی ہوں، اڑتی ہوں۔ اور۔ ہوش کہاں رہتا ہے مجھے۔ گھر کے آنگن میں برسوں پرانا ایک کنواں ہے۔ اس کنویں پر خاموش سی آ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ سب سوئے رہتے ہیں۔ اور میں آسمان کے چاند کو دیکھتی رہتی ہوں۔ چاند چھپ جاتا ہے۔ اور تم۔ آ جاتے ہو۔ یہ کیا ہے۔ سانیال۔ کیا ہے۔ یہ؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments