ایک دراز قد امریکی حسینہ


الزبتھ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ گوری رنگت، نیلی آنکھیں، سنہرے بال، دراز قد اور چست بدن رکھنے والی الزبتھ کا شمار اپنے سکول کی خوبصورت ترین لڑکیوں میں ہو تا تھا۔ قدرت نے حسن کی دولت کے ساتھ ساتھ اسے ذہانت کی نعمت سے بھی نوازا ہوا تھا۔ اس کی پرورش ایک متوسط، روایتی اور قدامت پسند امریکی خاندان میں ہوئی جہاں اس نے معاشرت کے اعلٰی اسلوب سیکھے۔ زندگی کے تمام مراحل بڑی کامیابی کے ساتھ طے کرتی ہوئی الزبتھ اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ گئی جہاں وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگی۔

دوستوں کے حلقے میں سرو قامتی اس کی پہچان بنی۔ وہ سکول اور کالج میں ایک کامیاب طالب علم رہی، امریکا کے خلائی پروگرام ناسا میں ملازمت کرنے کا موقع ملا، ترقی کرتے کرتے وہ ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ گئی۔ اس کا اپنا گھر تھا، اپنی کاریں، بہت سا بنک بیلنس مگر پھر بھی وہ اپنے مستقبل کے حوالے پریشان رہتی۔ وہ اکتالیس برس کی ہو چکی مگر اب بھی کنواری تھی۔ عمر کے اس حصے میں اسے ایک بات بہت ستا رہی تھی کہ اب اس کی جوانی ڈھل چکی ہے اور وہ آئنے کے سامنے کھڑے ہو کر اکثر اپنے آپ سے یہ سوال پوچھتی ہے کہ اب اس سے شادی کون کرے گا۔

الزبتھ کی زندگی میں ایسے کئی موڑ آئے جہاں وہ اپنی پسند کے شریک حیات کا انتخاب کر سکتی تھی مگر گھر بسانا اس کی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے تھا۔ وہ پہلے تو اپنی تعلیم مکمل کرنے میں لگی رہی۔ اس کے بعد اپنا کیریر بنانے، پھر اس نے زندگی کی تمام نعمتوں کو اپنے گھر میں سجانے کی کوشش کی۔ اپنی گاڑی، اپنا گھر، پھر تھوڑا سا بڑا گھر، بڑی گاڑی، ایک لگژری کار، گھر اتنا بڑا ہو کہ وہاں ایک سوئمنگ پول، ایک چکوزی، مصنوعی بخار لینے کے لیے Sauna اور ایک جم کارنر بھی ہو۔ اس کے گھر میں دنیا کی ہر سہولت میسر لیکن پھر بھی وہاں سر شام تنہائیوں کے سائے ڈھل آتے۔

الزبتھ کے جیون میں جب تنہائی کا احساس بڑھنے لگا تو اس نے اپنی زندگی کی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لیا۔ اب اسے کسی جیون ساتھی کی تلاش تھی۔ وہ ساتھی جس کے ساتھ انسان اپنی خوشی اور غم کی بات کر سکے۔ اس کے دل کی سنے اور اپنانے کی سنائے۔ ایسا مخلص ساتھی جو اس کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھے۔ اب اسے ایک دکھ سکھ کے ساتھی کی تلاش تھی لیکن وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی تھی جہاں اس کو اپنا آئیڈیل لائف پارٹنر ڈھونڈنے میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔

الزبتھ اپنی زندگی کا نیا باب شروع کرنے میں کافی سنجیدہ ہو چکی تھی۔ اس نے کئی آن لائن ڈیٹنگ سائٹس بھی جوائن کر لی تھیں۔ ڈیٹنگ سائٹس پر اس نے اپنی پسند کے مرد کی خصوصیات کچھ یوں بیان کیں کہ اکثر مرد اس کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتے تھے۔ سب سے پہلے اس سے ناتا جوڑنے یا شادی کے خواہش مند حضرات کا اس کا ہم عمر ہونا ضروری تھا۔ وہ خود سفید فام تھی لہذا اس کی پہلی ترجیح بھی کسی سفید فام مرد سے شادی کر نا تھی۔

اسے ایسا مرد چاہیے تھا جو بچے پیدا کرنے کا آرزو مند ہو اور گھر میں پالتو جانور رکھنے کا بالکل شوقین نہ ہو۔ چونکہ الزبتھ کی سالانہ آمدنی سات ہندسوں میں تھی، اس لیے مرد بھی ایسا ہو جس کا اپنا کاروبار ہو یا وہ اس کے برابر ذرائع آمدن رکھتا ہو۔ اس نے اپنی پروفائل میں واضح طور پر لکھا کہ پہلے سے شادی شدہ اور بچے رکھنے والے مرد اس سے رابطہ کرنے کوشش نہ کریں۔ وہ خود کنواری تھی اس لیے اس کی خواہش تھی کہ شادی کے لیے مرد بھی کنوارا ہی ملے۔

الزبتھ کو ڈیٹنگ سائٹس پر شادی کے لیے اشتہار دیے ہوئے چھ ماہ گزر گئے لیکن اسے کوئی اس کے جوڑ کا مرد نہیں ملا۔ کچھ غیر سنجیدہ لوگوں نے اس کی پروفائل کو لائک کیا اور اس سے ملنے کے لیے پیغام بھی بھجوائے لیکن وہ اپنے متعین کردہ معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے پر رضا مند نہ تھی۔ ڈیٹنگ سائٹس کی ماہانہ سبسکرپشن فیس ادا کرتے ہوئے چھ ماہ گزر گئے لیکن اپنی ذات پر کی گئی اس سرمایہ کاری کا الزبتھ کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس کے احساس تنہائی میں اور اضافہ ہونے لگا۔

الزبتھ دن بھر آفس میں کام کرتی اور ہر شام بوجھل دل کے ساتھ گھر واپس لوٹتی۔ اس کا شاندار گھر اب محض رات بسر کرنے کا ایک مسافر خانہ بن چکا تھا جہاں کی ہر شے اسے آسیب زدہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کے گھر کا سکوت زدہ ماحول اور تنہائی اسے بے قرار کر دیتے۔ گھر کا سوئمنگ پول اسے آگ کا ایک دریا دکھائی دینے لگا۔ گھر کا ’سوآنا‘ اسے ایک دہکتی ہوئی بھٹی لگنے لگا۔ اس کے گھر کے چولہے نہ جانے کب سے ٹھنڈے پڑے تھے۔

الزبتھ صبح سویرے کافی کا ایک بڑا سا مگ پی کر گھر سے نکلتی، راستے سے بریک فاسٹ اٹھاتی، آفس میں ورکنگ لنچ کرتی اور شام واپسی پر ڈنر کر کے گھر لوٹتی۔ اس لیے گھر کے چولہے جلانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ ویک اینڈز پر اپنے بوڑھے ماں باپ سے ملنے اولڈ ہوم چلی جاتی جہاں وہ پورا دن گزارتی۔ اپنی سالانہ چھٹیاں گزارنے کے لیے وہ اکثر یورپ کا رخ کرتی تھی مگر اب اکیلے سیاحت پر جانا بھی اس کے لیے کسی کرب ناک سفر سے کم نہ تھا۔

الزبتھ کی تنہائی اب اس کے لیے ایک مسئلہ بن چکا تھی۔ وہ ڈپریشن کی مریضہ لگنے لگی۔ دفتر میں اس کے کام کرنے کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ اب اس کا باس بھی ناخوش نظر آنے لگا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے دل پھینک قسم کے مرد حضرات نے اب اس کے ساتھ فلرٹ کرنا بھی ترک کر دیا تھا۔ اس کے دراز قد، سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں سے حسد کرنے والی عورتیں اب اس کی حالت پر رحم کھانے لگی تھیں۔ الزبتھ کا حسن گہنانے لگا۔ اس کے چہرے پر جھریاں پڑنے لگیں۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے بتا رہے تھے کہ وہ اپنے وقت سے پہلے بوڑھی ہو رہی ہے۔

الزبتھ کی پروفیشنل لائف سٹائل ایسا تھا کہ وہ صبح آٹھ سے شام چار بجے تک چلنے والی ایک مشین بن چکی تھی۔ اس کے سماجی رابطے نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ اکثر اپنی زندگی کے مقصد پر سوال اٹھاتی۔ اب اس نے دفتر آتے جاتے میوزک سننا بھی بند کر دیا اور وہ خود کلامی کی عادی ہو گئی۔ اس کی شامیں اداس اور راتیں پہلو بدلتے بدلتے گزرتیں۔ ایک اداس شام، گھر کے سناٹوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے وہ کسی قریبی نائٹ کلب چلی گئی جہاں اسے کالج کے زمانے کی ایک دوست جینی مل گئی جس نے اسے اس کے لمبے قد کی وجہ سے دور سے پہچان لیا۔

یہ وہ جماعتی تھی جو کبھی الزبتھ کو اپنا آئیڈیل مانتی تھی۔ وہ اس سے دوستی کرنے کی خواہش مند رہی تھی۔ وہ الزبتھ جیسی خوبصورت دکھائی دینا چاہتی تھی اور جماعت میں اول پوزیشن کے لیے اس کے مدمقابل بھی رہی۔ لیکن اس کے دل کی حسرت دل میں ہی رہی کیونکہ الزبتھ کے پاس دوستیوں کے لیے وقت ہی کب تھا۔ وہ ایک پڑھاکو لڑکی تھی جو کچھ بڑا بننے کے خواب دیکھتی رہتی۔

الزبتھ کو کلب کے ایک کونے میں اداس بیٹھے دیکھ کر جینی اس کے پاس چلی آئی۔ دونوں نے کچھ دیر رسمی گفتگو کی پھر وہ دوست الزبتھ کو اپنے بوائے فرینڈ سے ملوانے اپنے ٹیبل پر لے گئی جہاں ایک لمبا تڑنگا افریقی امریکی بیٹھا سکاش پی رہا تھا۔ اپنے بوائے فرینڈ کو متعارف کرواتے ہوئے الزبتھ کی دوست بولی، یہ جیکسن ہے جس سے وہ بہت جلد شادی کرنے والی ہے۔ اپنی ہم جولی کی شادی کی خبر سن کر الزبتھ کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی جسے اس نے اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ چھپا لیا اور دونوں کو زندگی کے سفر میں آگے بڑھنے پر مبارک دی۔ جیکسن نے اس رات خوب پی رکھی تھی اور وہ بڑے ترنگ میں تھا۔ فلور ڈانس پر ناچتے لوگوں کو دیکھ کر وہ اور جوش میں آ گیا اور جینی کا ہاتھ پکڑ کر فلور پر لے گیا۔ وہاں دونوں خوب ناچے مگر جینی جلد واپس آ کر الزبتھ کے ساتھ بیٹھ گئی اور جیکسن نے دوسری خواتین کے ساتھ اپنا کپل ڈانس جاری رکھا۔

الزبتھ حیران تھی کہ جینی جیسی ماڈرن اور گوری چٹی لڑکی اس لمبو کے چکر میں کیسے پھنسی۔ اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی دوست سے یہ سوال پو چھ ڈالا کہ وہ اس کالے کے ساتھ شادی کیوں کر رہی ہے اور ان دونوں کی ملاقات کیسے ہوئی۔ جینی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ یہ match۔ com کا کمال ہے جس نے دو دل جلوں کو آپس میں ملوایا۔ الزبتھ حیران ہو کر بولی میں تو پچھلے کئی مہینوں سے اسی ویب سائیٹ پر اپنے لیے ایک لنگور ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر کوئی ملتا ہی نہیں۔ جینی بھی منہ پھٹ تھی اور اس نے بھی سیدھا سا جواب دیا اور بولی کہیں تم اپنے معیار پر اصرار تو نہیں کر رہیں۔ اس نے الزبتھ کو مشورہ دیا کہ دیکھو اس عمر میں مرد ڈھونڈنا ہے تو اپنے معیار پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

الزبتھ کی دوست بولی، قسمت والوں کو ہم عمر، ہم مرتبہ، ہم نسل اور ہم خیال شریک حیات ملتے ہیں۔ دیکھو اگر شادی کرنا چاہتی ہو تو تمہیں کچھ باتوں پر سمجھوتہ کر نا پڑے گا، اس نے پھر اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ آئیڈیل ملنے کی عمر اب گزر چکی، اس لیے کوئی مناسب جوڑ ڈھونڈ کر شادی کر لو ورنہ کنواری بیٹھی رہ جاؤ گی۔ یا پھر۔ وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئی۔ الزبتھ بے قرار ہو کر بولی پھر کیا بولو ناں، پلیز۔ یا پھر کوئی اپنی جیسی خوبصورت لڑکی ڈھونڈ لو۔

جینی کی یہ بات سن کر الزبتھ نے اونچی آواز میں ”او مائی گاڈ“ کہہ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور بولی جینی تم جانتی ہو میں ایسی لڑکی نہیں ہوں اور یہ کہ میں ماں بننے کی خواہش مند ہوں۔ میں اپنے بچوں کو پالوں گی، انہیں ایک کامیاب انسان بناؤں گی مجھے صرف سیکس پارٹنر نہیں چاہیے۔ جینی نے اپنی دوست کے خیالات کا احترام کیا اور اسے غلط مشورہ دینے پر معذرت کی۔ وہ بولی، دیکھو سویٹ ہارٹ اگر تمہیں ماں ہی بننا ہے تو پھر کوئی بھی اچھا سا مرد ڈھونڈو اور اس سے شادی کر لو۔

الزبتھ نے اپنی دوست کے مشورے پر سنجیدگی سے غور کر نا شروع کر دیا اور ڈیٹنگ سائیٹ پر جا کر اس نے اپنی پروفائل کو ایڈٹ کیا۔ اب کی بار اس نے اپنے ہونے لائف پارٹنر کی خصوصیات کچھ یوں بیان کیں کہ اس سے شادی کے خواہش مندوں کی ایک لمبی قطار لگ گئی۔ الزبتھ نے اپنے خودساختہ معیار پر سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اس نے شادی کے لیے شرائط نرم کر دیں۔ اب کسی بھی عمر یا نسل کا مرد اسے شادی کے لیے قبول تھا۔ چاہے وہ رنڈوا ہو، طلاق یافتہ یا پھر کنوارا مگر بس اس کی آمدن اتنی ہو کہ اپنا بوجھ اٹھا سکے۔

اپنی پسند کا معیار گرانے سے الزبتھ کو ایک مسئلہ در پیش آیا۔ وہ یہ کہ اس سے ناتا جوڑنے والے مردوں اور درخواست گزاروں کی ایک لمبی فہرست تھی۔ سب ہی اسے زندگی میں وفا دار رہنے کا یقین دلا رہے تھے۔ وہ کنفیوز تھی کہ کس کو ملاقات کے لیے بلائے اور کس کو نہیں۔ ہر ایک مرد اس دراز قد حسینہ کے لیے اپنا دید و دل فرش راہ کیے بیٹھا تھا۔

الزبتھ خوش تھی کہ اس سے شادی کے خواہش مند حضرات کی ایک لمبی قطار جو موجود تھی مگر پریشان بھی کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ جاب انٹرویو کی طرح اسے شارٹ لسٹنگ کرنی پڑی اور اپنے معیار کا خیال رکھتے ہوئے اس نے چند بظاہر سنجیدہ نظر آنے والے لوگوں سے اپنی بات آگے بڑھائی اور محبت بھرے پیغامات سے تنگ آ کر اس نے کچھ دنوں کے لیے اپنا ڈیٹنگ سائیٹ والا اکاؤنٹ بند کر دیا کیونکہ اب کچھ آوارہ بھنوروں نے بھی پھول پر منڈلانا شروع کر دیا تھا۔ پہلے پہل الزبتھ نے بیک وقت کئی حضرات کے ساتھ چیٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنے خواہشمندؤں کو engage رکھنے کی کوشش کی۔

الزبتھ کی سوچ میں تبدیلی آنے سے گویا اس کی زندگی کی بہاریں لوٹنے لگیں۔ اب وہ پر امید تھی کہ جلد اس کی تنہائیوں کا سفر ختم ہونے والا ہے۔ اس نے پھر سے بننا سنورنا شروع کر دیا۔ مہنگی خوشبو لگا کر دفتر جاتی اور راستے پر rock and roll سنتی۔ آفس سے گھر آتے ہی وہ فون پر اپنے امیدواروں سے چیٹنگ شروع کر دیتی اور رات دیر گئے تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ذاتی پسند و ناپسند کے سوالات پو چھے جاتے، نئی اور پرانی تصاویر کا تبادلہ ہوتا، زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے قصے بیان کیے جاتے، ماضی کی باتیں ہوتیں، مستقبل کے بارے میں ایک دوسرے کے خیال جانے جاتے اور بعض مرتبہ برقی مواصلات کے ذریعے جاری گفتگو کا یہ سلسلہ پٹڑی سے اترنا شروع ہو جاتا اور اکثر اوقات آدم زادے بہک کر جنسی معاملات سے متعلق سوالات کی بھر مار کر دیتے۔

الزبتھ کو سیکس پر گفتگو کر نا زیادہ پسند نہیں تھا۔ اپنی جوانی کے اوائل عمر میں وہ کوک شاشتر نما میگزین پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کی شوقین رہی مگر نہ جانے کیا ہوا اسے جنسی معاملات پر گفتگو کرنے والے مرد حضرات برے لگنے لگے اور وہ انہیں اپنی ہوس کے پجاری سمجھتی تھی۔ اسی لیے جب بھی کوئی مرد اس کی ذات سے زیادہ اس کے جسمانی اعضاء کا سائز یا اس کی جنسی خواہشات جاننے کی کوشش کر تا تو وہ فوراً اس سے رابطہ منقطع کر لیتی اور ان کا نمبر بلاک کر دیتی۔

اسی طرح اس کی دولت اور جائیداد پر زیادہ سوال کرنے والے بھی نظر انداز کر دیے جاتے۔ آخر کار اکا دکا مرد ہی بچے جن سے الزبتھ نے ویڈیو پر چیٹنگ کرنا شروع کی۔ ان میں سے بھی اکثر کی شکل اسے پسند نہیں آئی۔ بالآخر دو مرد ایسے تھے جن سے الزبتھ نے بل مشافہ ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ان میں سے بھی ایک ڈیٹ کے مقررہ وقت پر نہیں پہنچا جسے الزبتھ نے غیر سنجیدہ حضرات کی فہرست میں شامل کر دیا۔

الزبتھ کو زندگی میں مرد حضرات کو اتنے قریب سے سمجھنے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا لیکن اپنے لیے جیون ساتھی کی تلاش نے اسے مردوں کی خصلت اور فطرت کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اتنے حضرات کے ساتھ خصوصی گفتگو اور چیٹنگ سے الزبتھ کا اپنی ذات پر اعتماد بڑھنے لگا۔ وہ اپنی تعلیم اور پیشہ وارانہ زندگی میں اتنی مگن رہی کہ کبھی اس نے اپنی مخالف جنس کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ زندگی میں مرد حضرات سے اس کا تعلق پیشہ ورانہ حد تک محدود رہا۔

ہاں اس نے زندگی میں ایک انسان سے پیار کیا مگر وہاں بھی اس کا کیرئیر آڑے آیا۔ وہ اسے پسند تو کرتی تھی لیکن وہ اس کے خوابوں کا شہزادہ نہ بن سکا کیونکہ الزبتھ کا خواب تو ایک کامیاب خاتون بننا تھا، اسے آگے بڑھنا تھا اس لیے وہ پیار محبت اور شادی کے جھنجھٹوں سے دور رہی۔ اس نے زندگی میں کبھی مڑ کر بھی اپنے پہلے پیار کی طرف نہیں دیکھا۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس نے الزبتھ کو زندگی کے سفر میں ایک ایسے دو راہے پر لا کھڑا کیا جہاں اسے اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے وجود کی ضرورت تھی۔

الزبتھ نے اپنے لیے شریک حیات کے انتخاب کے معیار پر سمجھو تا تو کیا لیکن پھر بھی اس سے شادی کے آرزو مند کئی حضرات کو کڑے امتحان سے گزرنا پڑا۔ یہاں تک کہ درجنوں میں سے صرف ایک خوش نصیب ایسا تھا جسے الزبتھ نے ڈیٹ کے لیے امریکہ کی خوبصورت ریاست ہوائی پر ملاقات کے لیے بلایا۔ وہ خوش نصیب انگلش لٹریچر کا ایک پروفیسر تھا جس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی۔ وہ ابھی تک کنوارہ تھا، اپنا گھر بسانے میں سنجیدہ، بچے پیدا کرنے کا خواہش مند اور خوش شکل بھی۔

شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے بے تاب دونوں روحیں اپنے اپنے خرچے پر ہوائی کے پنج ستارہ ہوٹل میں ایک ہفتے کے قیام کے لیے پہنچیں۔ وہ دونوں الگ الگ کمروں میں قیام پذیر رہے لیکن باہر زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ ساحل سمندر یا ہوٹل کی بالکونی میں بیٹھ کر گپیں لگاتے ہوئے گزارتے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے اور آنے والی زندگی کے بارے دونوں کے خیالات بہت ملتے جلتے تھے۔ الزبتھ کو پروفیسر کے رومانوی خیالات اور ہشاش بشاش طبیعت پسند تھی جبکہ پروفیسر الزبتھ کو اس لیے پسند کرتا تھا کہ وہ اس کے بچوں کی ماں بننے کے لیے قربانی دینے پر رضامند تھی۔

الزبتھ اپنے من کی آشا پانے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ وقت گویا اس کے لیے تھم سا گیا تھا۔ اس پتہ ہی نہیں چلا کہ کب سات دن گزر گئے۔ پروفیسر بھی بہت خوش تھا کہ اسے عمر کے پچھلے حصے میں کوئی گھر بسانے والی ملنے کو تھی۔ وہ بھی بچوں کا باپ کہلائے گا۔ اسے بھی پیار کرنے والی بیوی ملے گی۔ مگر دونوں کے لیے ابھی عشق کے امتحان باقی تھے۔ ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ شادی کرنے میں جلدی نہیں کریں گے اور یہ کہ انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں کچھ اور وقت درکار ہے۔

انہوں نے آپس میں ملتے اور رابطے میں رہنے کا عہد کیا اور ایک امید کے ساتھ واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کے چکر میں ایک سال اور گزر گیا اور پھر دونوں کی دوسری ملاقات کا وقت آن پہنچا۔ پروفیسر نے اپنی اکاونویں سالگرہ منانے کے لیے الزبتھ کو اپنی ریاست نیو جرسی آنے کی دعوت دی۔ الزبتھ بھی وہاں جانے کے لیے پرجوش تھی لیکن ایک دن خبر آئی کہ پروفیسر کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ زندگی کی بازی ہا ر گیا۔

الزبتھ کو پھر سے اپنے خواب ٹوٹتے دکھائی دینے لگے۔ وہ پروفیسر کی موت پر بہت غم زدہ تھی۔ اس کے ڈپریشن میں پھر سے اضافہ ہونے لگا۔ اپنا غم غلط کرنے کے لیے اس نے الکحل کا استعمال زیادہ کر دیا۔ دفتری امور میں بھی اس کی دلچسپی اور کم ہونے لگی حتی کہ اسے دوسرا شو کاز نوٹس دے دیا گیا۔ ایک ہفتے کی شام وہ نشے میں دھت اپنی لگژری کار چلاتے ہوئے مہ خانے سے واپس اپنے گھر آ رہی کہ راستے میں ایک بڑے ٹینکر کے ساتھ اس کا شدید ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اسے زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ پانچ دن کومے کی حالت میں رہی۔ اس کے سر اور پیٹ کے نچلے حصے میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔

الزبتھ کو ہوش آنے کے بعد طبی عملے نے اسے نئی زندگی ملنے پر مبارک دی لیکن اگلے ہی دن اسے بتا یا گیا کہ اب کبھی بھی ماں نہیں بن سکتی کیونکہ کار حادثے کے نتیجے میں اس کا ری پروڈکٹیو سسٹم مکمل طور پر متاثر ہو چکا تھا۔ یہ خبر بجلی بن کر الزبتھ کے دل و دماغ پر گری اور وہ چیخنے چلانے اور اپنا سر پیٹنے لگی۔ اس نے اونچی آواز میں اپنے رب سے شکوہ کرنا شروع کر دیا کہ آخر میں ہی کیوں۔ اگر وہ ماں نہیں بن سکتی تو اسے دوسری زندگی ہی کیوں دی۔ اب جینے سے کیا حاصل۔ اب مجھ سے کون شادی کرے گا۔

الزبتھ کی چیخیں اور آہ و بکا باہر ہال میں سنائی دینے لگی۔ وہ بستر علالت پر آنکھیں بند کر کے اپنے آپ سے باتیں کیے جا رہی تھی اور ساتھ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو نے لگی۔ اتنے میں اسے ایک مانوس آواز سنائی دی۔ کوئی اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ آواز الزبتھ کی جانی پہچانی تھی۔ یہ آواز اس انسان کی تھی جسے وہ جوانی میں پسند کیا کرتی تھی۔ وہ ایک نیورو سرجن تھا جس نے فرشتہ بن کر اس کی جان بچائی اور اب وہ اس کے سامنے کھڑا اسے تسلی دے رہا تھا۔ الزبتھ اپنے جوانی کے پیار کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئی اور پھر زور سے رونے لگی اور ساتھ یہ صدا بھی کہ ہائے وہ اب کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔ اب وہ کبھی شادی نہیں کرے گی۔

الزبتھ کے ساتھ کھڑے مسیحا سے اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ ڈاکٹر کا دل میں اب بھی الزبتھ کے لیے وہی سچے جذبات تھے جو کالج کے زمانے میں تھے جنہیں الزبتھ نے نظر انداز کر دیا تھا۔ طبیب اپنے مریض کی حالت کو سمجھ چکا تھا۔ وہ جانتا تھا یہ درد جسم کے زخموں کا نہیں، یہ روح کا مرض تھا۔ ڈاکٹر نے الزبتھ کا ہاتھ پکڑا اور پیار سے اس کے پاس آ کر کہا، will you marry me؟ الزبتھ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا وہ بولی، ڈیو تم ابھی تک کنوارے ہو۔ ڈاکٹر نے کہا ہاں میری دراز قد محبوبہ تمھارے بعد کوئی نظروں میں جچا ہی نہیں۔ اپنے مسیحا کے پیار بھرے بول سن کر الزبتھ کے سارے درد گویا رفو چکر ہو گئے۔ امید کے بجھتے چراغ پھر سے جلنے لگے۔ تھوڑی دیر پہلے اپنے خدا سے شکوہ کرتی ہوئی الزبتھ اب دل ہی دل میں اس کا شکر ادا کر رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments