سندھ کے نقاش اور 4 مارچ واقعے کے اہم کردار قاضی خضر حیات کا تعزیت نامہ


سندھ، کچھ افراد کو ان کی انفرادی کارکردگی کی بنا پر پہچانتی ہے، تو کچھ علمی و ادبی خانوادوں کو ان خاندانوں کے متعدد افراد کی ہمہ جہت غیر معمولی خدمات کی وجہ سے عزت دیتی ہے۔ قاضی خضر حیات، جنہیں سندھ، ایک نامور اور باصلاحیت مصور، خطاط، کاشی کار، سول انجنیئر اور 4 مارچ کی سندھی سٹوڈنٹ جدوجہد کے حوالے سے یادگار بنے ہوئے قومی دن کے اہم کردار کے طور پر پہچانتی ہے، بھی ایسے ہی علمی اور ادبی خانوادے کے ایک قابل فخر فرد تھے، جنہوں نے سرزمین سندھ کی مانگ سنوارنے میں اپنا اہم انفرادی کردار ادا کیا ہے۔ جن کی حال ہی میں وفات نے، سندھ کے علمی، ادبی اور ثقافتی حلقوں کو سوگوار کر دیا ہے۔

قاضی خضر حیات، ضلع لاڑکانے کے تاریخی شہر، رتو دیرو کے معروف علمی و ادبی خانوادے میں سندھ کے قادر الکلام شاعر، تعلیم دان، صحافی، سماجی کارکن اور مصور، قاضی عبدالحی ’قائل‘ سرشاری کے گھر، ان کے پہلوٹھی بیٹے کی حیثیت میں 12 اپریل 1945 ء کو پیدا ہوئے۔ قدرت کی طرف سے مسلسل اولاد عطا کر کے، جلد ہی واپس لینے کی وجہ سے، اس بچے کی پیدائش پر اس نونہال کا نام دعا کے طور پر ’خضر حیات‘ رکھا گیا، تاکہ وہ خضری عمر پا سکے۔

یہ ”حیات“ کا لفظ ان کے نام کے ساتھ ایسا جچا، کہ ان کے بعد پیدا ہونے والے ان کے تینوں بھائیوں کے ناموں کے ساتھ بھی یہی نسبت شامل کی گئی اور ”حیات“ جیسے ان کا خاندانی نام بن گیا۔ البتہ خضر صاحب کو ان کے بچپن میں پیار سے، گھر میں ’رانجھن‘ کے نام سے بھی پکارا گیا۔ ان کی والدہ ان کو تا دم آخر اسی نام سے پکارتی رہیں۔ قاضی خضر کے دادا، قاضی عبدالحق ’عبد‘ ، اپنے دور کے نہ صرف بڑے عالم تھے، بلکہ عربی اور فارسی کے شاعر بھی تھے۔ قاضی خضر کے پر دادا، مولوی قاضی خوش محمد، اعلیٰ پائے کے عالم تھے اور اپنے دور میں ’قاضی القضات‘ کے عہدے پر فائز رہے تھے، جن کے پاس تعلقہ رتو دیرو کے تاریخی گاؤں خیرو دیرو میں ایک بڑا کتب خانہ تھا۔

قاضی خضر حیات نے، میٹرک تک کی تعلیم رتو دیرو میں حاصل کی۔ جس کے بعد ، انہوں نے لاڑکانے سے انٹر سائنس کرنے کے بعد ، سندھ یونیورسٹی انجنیئرنگ کالج جامشورو سے 1968 ء میں سول انجنیئرنگ میں ”بی۔ ای۔“ (بیچلر آف انجنیئرنگ) کی ڈگری حاصل کی۔ جس کے بعد ”ایم۔ آئی۔ ای“ (ممبر آف انسٹیٹیوٹ آف انجنیئرز) کی سند بھی حاصل کی۔ ساتھ ساتھ مصوری کے فن کے ساتھ اپنی دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے فائن آرٹس میں ڈپلوما بھی کیا۔ بعد میں قاضی صاحب نے، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور سے کاشی کے ہنر (سرامکس) میں مصوری کا سرٹیفکٹ بھی حاصل کیا۔

قاضی خضر حیات نے، ملازمت اور روزگار کے سلسلے میں اپنے کیریئر کا آغاز، شعبۂ آبپاشی سندھ میں ’سب انجنیئر‘ کی حیثیت سے کیا۔ جلد ہی وہ اپنی مادر علمی، سندھ یونیورسٹی انجنیئرنگ کالج جامشورو میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں وہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے، این۔ ای۔ ڈی۔ انجنیئرنگ کالج کراچی میں لیکچرر مقرر ہوئے، جہاں تین سال تک ملازمت کر کے وہ طالب علوں کو تعمیرات کی انجنیئرنگ پڑھانے کے بعد ، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے اصرار پر پہلے، ”پی۔

آء۔ ڈی۔ سی“ (پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن) کی جانب سے نؤں دیرو میں تعمیر ہونے والی، لاڑکانہ شوگر مل میں، ’اسسٹنٹ انجنیئر‘ مقرر ہوئے اور چینی انجنیئرس کی معاونت سے، چینی کے اس نئے زیر تعمیر کارخانے کی تعمیرات کی نگرانی کی۔ جس کے بعد انہوں نے اسٹیل مل کراچی میں ’انجنیئر‘ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ میرپور ماتھیلو میں قائم ”پاک سعودی فرٹیلائیزرز کمپنی“ میں چھ برس تک ’پراجیکٹ انجنیئر‘ کے طور پر اپنی پیشاورانہ خدمات انجام دیتے رہے۔

بعد ازاں وہ مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی جامشورو کے نوابشاہ میں قائم کالج (کیمپس) میں ’ایگزیکٹو انجنیئر‘ مقرر ہوئے۔ جس کے بعد وہ نوابشاہ ہی کے ہو کر رہ گئے اور نوابشاہ ہی کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ جب یہ کالج (مہران یونیورسٹی انجنیئرنگ کالج، نوابشاہ) 1996 ء میں کالج سے ترقی پا کر یونیورسٹی بن کر، ’قائد عوام یونیورسٹی آف انجنیئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی‘ (کوئیسٹ) میں تبدیل ہوا، تو قاضی خضر حیات اس کے پہلے ’پراجیکٹ ڈائریکٹر‘ مقرر ہوئے، جہاں سے انہوں نے 2005 ء میں رٹائر کیا۔

اپنی مستقل ملازمت کے دوران انہیں اپنی اعلیٰ پیشاورانہ لیاقتوں کی وجہ سے، مختلف محکموں اور اداروں کی جانب سے ان کے لئے کام کرنے کے لئے پیشکشیں ہوتی رہیں۔ جس وجہ سے وہ مختلف عرصوں کے دوران، ڈیپوٹیشن پر ’پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشنز لمیٹڈ‘ (پاسکو) اور پیپلز پروگرام ضلع نوابشاہ کے ’پراجیکٹ ڈائریکٹر‘ کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔

قاضی خضر حیات صاحب بعد از رٹائرمنٹ بھی خاموش نہیں بیٹھے اور مختلف اداروں کو بطور سول انجنیئر اپنی پیشاورانہ خدمات دیتے رہے۔ رٹائرمنٹ کے بعد وہ تین برس تک ”ای۔ سی۔ ای“ (ایسوسی ایٹ کنسلٹنٹ انجنیئرز) نامی ایک نجی فرم میں ’پراجیکٹ انجنیئر‘ رہے، جس کے تحت انہوں نے اسلام آباد میں ’حضرت بری امام‘ کی درگاہ کی از سرنؤ تعمیر کے ایک بڑے پراجیکٹ کے سربراہ کے طور پر کام کروایا۔ آج وفاقی دارالحکومت میں بری امام کا وہ نؤ تعمیر شدہ مزار، قاضی صاحب کی انجنیئرنگ کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ کچھ برس، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور اور کچھ عرصہ سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے ’پراجیکٹ ڈائریکٹر‘ بھی رہے۔ وفات سے کچھ برس پہلے تک، انہوں نے نوابشاہ میں نئی قائم شدہ ”شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی“ میں ’کنسلٹنٹ‘ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

قاضی خضر حیات کے سول انجنیئرنگ ڈیزائننگ کی بابت 1973 ء سے 1978 ء تک، کئی ایک مضامین شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ یہ مقامی سطح پر سندھی خواہ اردو میں انجنیئرنگ کے شعبے سے متعلق لکھی ہوئی اولین تحریریں کہی جا سکتی ہیں، جن سے انجنیئرنگ کے مقامی طالب علموں کی خاصی رہنمائی ہوئی۔ قاضی خضر نے شاعری بھی کی اور کالم اور اسٹیج ڈرامے بھی تحریر کیے ۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں کئی ڈراماٹک سوسائٹیز کی سرپرستی کرتے ہوئے، کئی تھیٹرز ڈائریکٹ کیے اور ان میں سے کچھ میں خود اداکاری بھی کی۔

ایک اسٹیج ڈرامے میں ان کے ادا کیے ہوئے ”پنہوں“ کے کردار نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔ زمانۂ طالب العلمی سے وہ ایک شعلہ بیان مقرر بھی رہے اور کالج خواہ یونیورسٹی سطح پر اپنے اداروں کی ڈبیٹنگ سوسائٹیز میں اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے، صوبائی اور قومی سطح پر اپنے تعلیمی اداروں کی نمائندگی کرتے ہوئے، کئی انعامات اور اعزازات بھی حاصل کرتے رہے۔ وہ 1965 ء تا 1967 ء، سندھ یونیورسٹی کی شاگرد یونین کے ’ڈبیٹنگ سیکریٹری‘ رہے۔

قاضی خضر حیات نے، آرٹ، کرافٹ اور کاشیگری کے میدان میں عالمی معیار کا کام کیا ہے۔ وہ پیدائشی مصور تھے۔ انہیں مصوری کا فن موروثی طور پر ملا۔ انہوں نے آرٹ کے بنیادی سبق اپنے والد، قاضی ’قائل‘ سے سیکھے، جبکہ آگے چل کر، اس فن میں سندھ کے نامور مصوروں، ظفر کاظمی اور ع۔ ق۔ شیخ سے بھی رہنمائی حاصل کی۔ کاشی کا فن سکھانے میں ہالا سندھ کے مشہور کمہار، بارادی ارباب ان کے استاد تھے، جنہوں نے اپنی خاندانی روایات کی توڑ کر، اپنے خاندان سے باہر کسی کو کاشیگری کا فن سکھایا۔

قاضی صاحب نے، کاشی کے ظروف اور پلیٹوں پر روایتی پھول بوٹوں اور نقوش و نگار سے ہٹ کر، ان میں مصوری کی مختلف اصناف، مثلاً: پورٹریٹ، لینڈ اسکیپ، اسٹل لائف اور خطاطی (کیلیگرافی) کو متعارف کرایا۔ انہوں نے ہالا کی کاشیگری میں جدت کے رنگ بھر کر، اس کو اس کے پہلے سے قدیمی دور سے مروج دو رنگوں (گہرے اور ہلکے نیلے ) کی قید سے آزاد کرتے ہوئے، ملتان اور گجرات کی کاشی میں استعمال ہونے والی مٹی اور وہاں کے رنگوں کے ساتھ ہالا کی کاشی پر کامیاب تجربات کرتے ہوئے، مقامی کاشی کو ہر حوالے سے متنوع کر کے پیش کیا۔

نہ صرف یہ، بلکہ انہوں نے جاپان، چین اور تھائی لینڈ میں مروج کاشی سے ملتے جلتے ”سرامکس“ کے کام پر بھی تجربات کیے اور وہاں کی صراحیوں اور پلیٹوں کو یہاں لا کر، ان پر نقش و نگار بنا کر، ان کو مقامی بھٹیوں میں پکوا کر دلپذیر نتائج حاصل کر کے، سندھ کی کاشی کو مالامال کیا۔ انہیں ”سندھ کی کاشی کو معراج بخشنے والا کاشیگر“ کہا جائے، تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے ہالا اور نصرپور کی کاشی کو روایتی ڈھنگ سے نکال کر، اس عالمی سطح پر لا کھڑا کیا، جہاں سندھ کی کاشی آج کھڑی ہے۔

اسلام آباد میں ثقافت کے فروغ کے لئے برسوں سے قائم شدہ مشہور ادارے، ”لوک ورثا“ کی جانب سے ہر سال منعقد ہونے والے دس روزہ لوک ورثا میلے میں سجنے والے سندھ کے گوٹھ (پویلین) میں شروع شروع میں وہ قاضی خضر حیات ہی تھے، جنہوں نے مشقتیں کر کے، سفر کی زحمتیں اٹھا کر ہر سال اپنے کاشی سے بنے ظروف اور دیگر سامان اور فن پارے وہاں لے جا کر، اس میلے میں اسٹال لگا کر، سندھ کی کاشی کو متعارف کرایا۔ آج اس کا نتیجہ سندھ کے ہنرمندوں کی اس سرپرستی کی صورت نکلا ہے، کہ ہر سال لگنے والے اسی میلے میں اسی ”سندھ پویلین“ میں ہالا اور نصرپور کی کاشی کے کم و بیش 10 سے 15 اسٹالز لگتے ہیں، جن میں کاشی سے بنے ہوئے ہر قسم کے برتن، شو پیس اور فن پارے فروخت ہوتے ہیں اور ہنرمندوں کا خاصہ روزگار ہوتا ہے۔ قاضی صاحب کے فن پاروں کی کراچی، اسلام آباد، لاہور، حیدرآباد اور ملک کے دیگر شہروں سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں انفرادی اور اجتماعی (سولو اور گروپ) نمائشیں منعقد ہوئیں، جن میں ان کے کام کو قومی خواہ عالمی سطح پر پسند کیا گیا اور ان کو بھرپور پذیرائی ملی۔

قاضی صاحب نے 1980۔ 81 ء کی شروعات میں مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی کالج نوابشاہ میں ملازمت کے دوران کاشیگری کے اپنے تخلیق شدہ کام اور شاہکاروں کو یکجا کر کے، ترتیب دے کر، افسر ز ہاؤسنگ سوسائٹی نوابشاہ میں اپنے بیٹے کے نام منسوب، ’سکندر آرٹ گیلری‘ قائم کی، جس کے وہ خود ہی تاحیات سرپرست اور خدمتگار رہے۔ قاضی صاحب نے اپنی تمام زندگی کی کمائی اور محنت کو اپنی اس آرٹ گیلری میں خرچ کیا۔ قاضی خضر حیات کی اپنے اکلوتے بیٹے، سکندر آفتاب کے ساتھ پیار کی یہ معراج تھی، کہ انہوں نے اپنے پورے فن اور ہر فن پارے کو اپنے بیٹے کے نام منسوب کر دیا۔

دنیا کا شاید ہی کوئی مصور ایسا ہو، جس نے اپنے فن پاروں پر اپنے نام کے بجائے کسی اور کا نام لکھا ہو، جیسے خضر صاحب نے اپنے ہر فن پارے پر اپنے بیٹے کا نام ”سکندر آرٹ“ لکھا۔ ایک تخلیقی مصور کے طور پر انہوں نے سکندر آرٹ گیلری اور اس سے ملحقہ اپنی رہائشگاہ کے در و دیوار کو بھی فن پارے کی حیثیت سے تخلیق کیا۔ جس کو گھومتے ہوئے آپ کو کہیں کسی کھڑکی یا روشن دان کے سریوں اور گرل میں کسی خاتون کی تصویر کا عکس نظر آئے گا، تو کہیں کسی لسی بناتی ہوئی دیہاتی عورت کا، جس کی چٹیا کرتے ہوئے اس کے پیچھے ایک اور عورت بھی نظر آئے گی۔

کہیں کسی فرش پر ماربل کے ٹکڑوں کی زیب و زینت سے ”خوش آمدید“ اور ”ویلکم“ کی خطاطی نظر آئے گی، تو کہیں شیر کی شبیہ نظر آئے گی، تو کہیں کسی کمرے کی چاروں دیواروں پر لگی ہوئی، ہالا کی کاشی ٹائلز کے نقوش و نگار سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ان کے درمیان لگا سفید دروازہ بھی اسی ڈیزائن سے آئل پینٹ کے ساتھ سجا ہوا نظر آئے گا۔ اور پہلی نظر میں آپ کو گمان ہوگا کہ کہیں یہ دروازہ ہے؟ یا انہی کاشی کے ٹائلز کا تسلسل!

ان کے ایسے ہی فن پاروں میں سے، آرٹ گیلری کے کار پورچ کے سامنے والے داخلی نیم گول دروازے کی اندر والی دیوار پر نصب شدہ، لگ بھگ 12 فٹ کا طویل القامت، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ’موزئیق‘ سے بنا ہوا عمودی، سائیڈ پوز پورٹریٹ بھی ایک ہے، جس کے مختلف رنگوں خواہ سائز کا ایک ایک ٹکڑا، ذرہ ذرہ کر کے، ماربل کے کاریگروں کے ساتھ خود قاضی صاحب نے اپنی نگرانی میں لگوایا اور اس فن پارے کی تکمیل کے بعد اس کا نقاب کشائی کی صورت میں افتتاح، 1989 ء میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ، سید قائم علی شاہ سے کروایا۔ ان کی آرٹ گیلری کو، محترمہ بینظیر بھٹو سمیت عالمی خواہ قومی سطح کے لاتعداد سیاستدانوں، ثقافتی و سماجی شخصیات، مصوروں اور عام لوگوں نے دیکھا اور پسند کیا ہے اور سکندر آرٹ گیلری، نوابشاہ کے ایک اہم ثقافتی مرکز اور دیکھنے کے مقام کے طور پر گزشتہ کئی برس سے اپنی شناخت بنا چکی ہے۔

قاضی صاحب، ’قاضی عبدالحی ”قائل“ اکیڈمی‘ کے سرپرست اعلیٰ، ’مقصود گل اکیڈمی، سندھ‘ کے صدر، ’مہران ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی نوابشاہ‘ اور ’کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی نوابشاہ‘ کے رکن اور وقتاً فوقتاً صدر بھی رہے۔ وہ کافی عرصہ ’سچل اسپیشل ایجوکیشن سینٹر‘ نوابشاہ کی ’پیرینٹس ٹیچرز ایسوسیئیشن‘ (والدین اور اساتذہ کی مشاورتی تنظیم) کے سربراہ بھی رہے۔ قاضی صاحب کے فن کی مقامی خواہ عالمی سطح پر بے حد پذیرائی اور ستائش ہوئی۔

انہیں 1980 ء میں ’امریکن بایوگرافیکل انسٹیٹیوٹ‘ (اے۔ بی۔ آئی۔ ) کی جانب سے ایوارڈ، 1984 ء میں ’سندھ گریجوئیٹس ایسوسیئیشن‘ (سگا) کی جانب سے طلائی تمغہ اور 1987 ء میں لطیف ادبی اکیڈمی سندھ کی جانب سے گولڈ میڈل دیا گیا۔ جبکہ انہیں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے دو مرتبہ نقد انعامات بھی دیے گئے۔ ان کا تعارفی خاکہ، عالمی سطح کے تخلیق کاروں اور مصوروں میں شامل کیا گیا ہے۔ 1988 ء میں امریکا سے شائع ہونے والے ”ہو از ہو ان دی ورلڈ“ میں اور 1989 ء میں لندن سے شائع ہونے والے ”انٹرنیشنل لیڈرز اینڈ اچیومینٹس“ کے دوسرے ایڈیشن میں ان کا تعارف خاص اہمیت کے ساتھ شایع ہوا ہے۔

انہیں سندھ کے عظیم صوفی شاعر، حضرت سچل سرمست کی شاعری کی مصورانہ عکاسی کرنے کی ستائش کے طور پر سال 2000 ء میں، حضرت سچل سرمست کے سالانہ عرس مبارک کے موقع پر، ”سچل ایوارڈ“ بھی دیا گیا۔ اتفاق سے اسی برس ان کے چھوٹے بھائی، اور معروف سندھی شاعر، مقصود گل کو بھی ”بہترین شاعر“ کے طور پر ”سچل ایوارڈ“ دیا گیا تھا۔ جب سندھ کے اس وقت کے گورنر، محمد میان سومرو، دونوں بھائیوں کو سچل ایوارڈ دے رہے تھے، تو انہوں نے کہا کہ: ”یہ میری خوش قسمتی ہے، کہ ایک ہی گھر کے سچل سرمست کے دو خدمت گزاروں کو ایوارڈ میرے ہاتھوں سے مل رہا ہے۔“

قاضی خضر حیات نے، اپنی یونیورسٹی کے زمانۂ طالب العلمی میں سٹوڈنٹ سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا اور انجنیئرنگ کے آخری سال میں پڑھنے کے دوران، ون یونٹ کے سیاہ دور میں پیش آنے والے بدقسمت، 4 مارچ 1967 ء کے شاگرد سیاست کے اہم واقعے میں مزاحمت کا کردار ادا کرتے ہوئے، اس وقت کے مشہور سٹوڈنٹ لیڈرز، یوسف لغاری، عبدالرحیم سموں، مسعود نورانی، یوسف ٹالپر، مجیب پیرزادہ، مسعود پیرزادہ، اشفاق میمن، اعجاز قریشی، لیاقت جتوئی، منور میمن، مظفر حسین شیخ، آغا زاہد، رفیق صفی، شریف میمن، آفتاب اسران اور جام ساقی کے ساتھ قیدی بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا اور سندھ نے، قاضی خضر حیات کو ”چار مارچ کے ہیرو“ کے طور پر بھی دیکھا اور یاد کیا۔

اپنے مثالی والد اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ، دو شخصیات قاضی خضر حیات کی ’رول ماڈل‘ رہیں۔ جن میں سے ایک ان کے استاد اور سندھ یونیورسٹی انجنیئرنگ کالج جامشورو کے سابق پرنسپل، ڈاکٹر عبدالقدیر خان افغان (المعروف: ڈاکٹر اے۔ کیو۔ کے۔ افغان) اور دوسرے، ادارہ ساز نامور ماہر تعلیم، تعلیمی منتظم اور ”سندھ کے سرسید احمد خان“ کہلانے والے۔ ایچ۔ ایم۔ خوجہ تھے۔ قاضی خضر حیات، چھوٹے بڑے کئی رسائل اور مخازن کے مرتب و مدیر ہونے کے ساتھ ساتھ، دو کتب کے مصنف بھی تھے۔

جن میں سے ایک کتاب، سندھ کے عظیم تعلیم دان، ڈاکٹر اے۔ کیو۔ کے۔ افغان کی حیات و تعلیمی خدمات پر مرتب شدہ ہے، جو 2013 ء میں شائع ہوئی۔ جبکہ دوسری کتاب، ان کی سندھی میں لکھی ہوئی خود نوشت، بعنوان: ”جھاگیو موں جہان“ (میں نے دنیا بھر میں جدوجہد کا سفر کیا) ہے، جو حال ہی میں 2020 ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے، اور پذیرائی پا چکی ہے، جس میں انہوں نے اپنے فنی اور پیشاورانہ زندگی کے تجربات قلمبند کیے ہیں۔ یہ کتاب ایک مشقت کرنے والے انسان کے سفر حیات کا بیان ہے، جس نے متوسط گھرانے میں پیدا ہو کر ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کیں اور اپنے شعبوں سے وابستہ ہر فرد کے لئے مثال بنے۔

سندھی ثقافت کے اس باصلاحیت اور اعلیٰ پائے کے خدمتگار، سندھ کے نقاش نے، چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑ کر، 76 برس کی عمر پا کر، مختصر علالت کے بعد ، بروز جمعہ، 16 جولائی 2021 ء کو، نوابشاہ میں اپنی آخری سانسیں لیں۔ انہیں سینیچر، 17 جولائی کو قاضی احمد روڈ، نوابشاہ پر واقع شہر خموشاں میں سپرد خاک کیا گیا۔

اس عظیم انسان نے، اپنی پیشاورانہ خواہ فنی خدمات کے میدان میں وہ مخلصانہ اور معیاری خدمات انجام دیں، جن کی وجہ سے انہیں سندھ ہی نہیں، پاکستان کا فنی اور ثقافتی منظرنامہ آسانی سے فراموش نہیں کر سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments