مرے ہوئے کتے کا کاروبار اور ہمارے دشمن


ہندوستان تو ہمارا توام دشمن اور پیدائشی شریکہ ہے۔ توام بچے ماں کے دودھ توجہ اور محبت پر لڑتے ہیں۔ جب ہم نہیں تھے ہندوستان تب بھی ہمارا دشمن تھا۔ ہمیں ڈرایا جا رہا تھا کہ خدانخواستہ انگریز چلا گیا تو ہندوستان ہندو اکیلا پاکر ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے، اور پاکستان بن جانے کے بعد میں سمجھایا گیا کہ ہندو سے نفرت کافی ہو گئی اب ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اس نے ہمیں دل سے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہ سو ستاون میں جب انگریز نے ہماری مدد سے جب جنگ آزادی کچل ڈالی تو اس سے پہلے حکومت مسلمانوں کے پاس تھی۔ اس کے بعد ہم دونوں یعنی مسلمان اور ہندو انگریز کے غلام بنے۔

انیس سو سینتالیس میں ہم ہندوستان سے ایک دن پہلے انگریز سے آزاد ہوئے اور ہندوستان ایک دن بعد۔ جب ہندوؤں نے ایک دن بھی ہم کبھی حکومت نہیں کی تو پھر انہوں نے ہم پر ظلم کب کیے؟ اس کا جواب ہو یا نہ ہو لیکن ہندوستان ہمارا دشمن ہے۔ ہم نے ان کے خلاف اڑتالیس سے لے کر کارگل تک کئی لڑائیاں لڑیں ہیں اور لڑائیاں نہ ہوں تو باقی وقت حالت جنگ میں رہے ہیں۔ ساری دنیا سے ہماری دوستی اور دشمنی کا معیار بھی ہندوستان بنا۔ جو ملک بھی ہمارا دوست ہو ہندوستان کا دشمن ہوگا جو اس کا دوست ہے ہمارا دشمن ہوگا۔ چند مہینے پہلے ہمارے وزیر خارجہ نے سعودی عرب کو یہی سمجھایا تھا لیکن ان کو سمجھ نہیں آئی تھی۔

چونکہ ہم ایک نظریاتی ملک ہیں، اس لئے ہندوستان کے بعد ہماری دشمنی کا حق دار ملحد روس ٹھہرا تھا۔ روس نے بیشک ہمیں سٹیل ملز دی اور تاشقند میں ہمارے قید بھائیوں کو چھڑوانے اور مقبوضہ علاقوں کی بازیابی میں مدد بھی دی لیکن روس ہمارا ’اللہ کے واسطے‘ دشمن تھا۔ اس دشمن کے خلاف ہم نے سیٹو سینٹو کلب جائین کیے ، اور اس وقت تک روس کی دشمنی میں مگن رہے جب تک پولٹ بیورو کے سیکٹری جنرل نے پشاور کے گرد لال لکیر نہیں کھینچی۔

ان خدمات کا صلہ گوہر ایوب اور اب اس کا بیٹا عمر ایوب کی شکل میں آج تک موجود ہے۔ روس نے کس کس طریقے سے اس دشمنی کو دوستی میں بدلنے کے جتن نہیں کیے ہوں گے لیکن ہم نے سمرقند و بخارا کی عظمت کو بحال کرنے اور افغانستان میں دو رکعت نماز شکرانہ کی منت مانی تھی اس لئے پیچھے نہیں ہٹے۔ افغانستان میں روس کو پسپا کر کے ہم نے ثابت کیا کہ دشمنی ہو یا نہ ہو جب ہم ٹھان لیتے ہیں پھر دشمنی ہوتی ہے۔ افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد ، عراق شام لبنان فلسطین لیبیا مشرقی تیمور اور بوسنیا تک میں مسلمانوں کی بلیاں چڑھائی گئیں۔ ان خدمات کے صلے میں اختر عبدالرحمان کے خانوادے کے علاوہ حق برادران اور گل برادران و خواہران کے تحائف ملے۔

روس دشمنی سے ہم فارغ ہوئے تو دنیا جہاں کے راندہ درگاہ، فراموش کردہ افغانستان میں اکٹھے کیے گئے تاکہ ہماری اہمیت اور افادیت واحد سپر پاور پر عیاں ہو جائے۔ نائن الیون کے بعد ستر ہزار جانوں کی قربانی دے کر ہم نے کس کس کے ساتھ دشمنی نہیں پالی سب تاریخ کا خون آلود حصہ ہے۔ جی ایچ کیو ہو، ریس کورس گراؤنڈ راولپنڈی ہو مناوا ٹریننگ سکول ہو حمزہ کیمپ ہو اے پی ایس کے معصوم بچے ہوں، فوجیوں کے سروں کے ساتھ کھیلا جانے والا فٹ بال ہو یا گرین چوک مینگورہ اور قبائلی علاقوں میں پڑی ہوئی سربریدہ لاشیں یا گلی گلی محلے محلے زخمی زخمی پشاور، بلور فیملی ہو یا میاں افتخار کا اکلوتا بیٹا، بے نظیر بھٹو ہوں یا بلوچستان کچہری اور ہسپتال میں قتل ہونے والے سینکڑوں وکیل یا بار بار کربلا سے گزرنے والے ہزارہ ہوں، کون کون سی قیمت اس دشمنی کی ہم نے ادا نہیں کی۔ یہ ہماری امریکہ دوستی تھی یا دشمنی آج تک کنفیوژن ہے۔ ہم اپنے نقصانات اور وہ اپنے اخراجات شمار کرتے ہوئے جتلاتے ہیں۔

اس کے بعد ہمارا دماغ ایسے گھوم گیا کہ اب ہم فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کس سے دشمنی کریں؟ اسرائیل ہے لیکن بہت دور ہے، اور اس میں کوئی خاص منافع بھی نہیں، ورنہ ارطغرل کی لشکر میں شامل ہو کر ہم صف بصف تیار کھڑے ہیں۔

اب دنیا ہمیں کہتی ہے آپ کو دشمن چاہیے تو ہم آپ کو دشمن دے دیتے ہیں اور وہ آپ کا ہمسایہ چین ہے جو ہمالیہ پار آپ کا منتظر ہے۔ جہاں لاکھوں مسلمان ڈرائی کلین کیے جا رہے ہیں۔ پھر خوابوں اور سپنوں کے شاعر کا دعویٰ بھی تابہ خاک کاشغر کا ہے۔ لیکن ہم اس لڑائی میں شامل ہونے کو فی الحال تیار نہیں۔ کیونکہ~

اگرچہ بت ہیں ’جماعت‘ کے آستینوں میں۔

پھر بھی کسی جلوس میں کوئی خوابیدہ ہڑبڑا کر اٹھے اور اچانک پورے زور سے سبیلنا سبیلنا پکارے تو جواب میں ایک خوف طاری کرنے والا سناٹا سنائی دیتا ہے۔ کیونکہ چینی کمیونسٹ روس کی طرح ملحد تو ہیں لیکن اپنے ہم مسلک ہیں، اس لئے ترچھی ٹوپی اور زرد پگڑی ان کے ایمانوں کو روحانیت کے نور سے منور کرنے کے لئے، نحمدہ و نصلی سے اپنے خطبات کی ابتدا کر کے سحر طاری کرتے ہیں۔ کہتے ہیں سحر، جادو حرام ہے، لیکن شاہی دربار کب سامریوں سے خالی ہوئے ہیں موسیٰ کو ڈس کریڈٹ کرنے اور بنی اسرائیل کو غلام رکھنے کے لئے کسی بھی وقت تماشے کی ضرورت ہو سکتی ہے، اس لئے سامری بھی ہونے چاہیے۔

ہم لاکھ شور مچائیں کہ ہمارے پاس اور آپشنز بھی ہیں، لیکن بقول مرحوم طارق عزیز، ہمارے پاس، بل چانس نشتہ۔ کیونکہ ہمارے دشمن پہلے بھی کوئی اور چنتے رہے ہیں اور اب بھی دشمن انہوں نے چننا ہے۔ جنہوں نے فون کر کے ہمیں ماضی میں بھی دو آپشنز دیے تھے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف۔ اس وقت بھی ہمارے پاس ایک ہی آپشن تھا دوسرا ہم چن ہی نہیں سکتے تھے۔ ہم انہی کے ساتھ تھے۔ اور اب بھی کوئی اور آپشن نہیں۔ جن کے پاس آپشن ہوتے ہیں وہ اسے استعمال کر کے دکھلاتے ہیں، جتلاتے نہیں۔

سعودیہ میں ہمارے ایک بیروزگار ہم وطن نے مردہ کتے ٹھکانے لگانے کا منافع بخش بزنس شروع کیا تھا۔ آزاد ویزے پر جا کر اسے لگا کہ سب خواب تھا جو دکھایا گیا تھا۔ ایک دن برش اور رنگوں سمیت کسی پوش ایریا میں مزدوری کی تلاش میں مایوس بیٹھا تھا کہ قریبی بنگلے سے ایک شیخ گاڑی میں نکلا، قریب آ کر اسے بتایا کہ گھر کے سامنے پڑے ہوئے مردہ کتے کو سامنے میونسپلٹی کے ڈسٹ بن میں ڈال دو۔ تیس ریال تھما کر وہ تو چلا گیا لیکن کتا ڈسٹ بن کی طرف کھینچتے ہوئے اسے گیان حاصل ہوا کہ یہی بزنس ہے۔

اس کے بعد وہ سڑک کے کنارے مردہ کتے ڈھونڈتا اور پوش علاقوں میں شیخوں کے گھروں کے سامنے ڈالتا اور اس کے نکلنے کا انتظار کرتا۔ پیسے لے کر کتا وہاں سے اٹھاتا لیکن ڈسٹ بن میں پھینکنے کی بجائے اسے کسی اور علاقے میں کسی اور شیخ کے گھر کے سامنے ڈالتا اور اپنا محنتانہ وصول کرتا۔ بزنس کو بڑھانے اور آسان بنانے کی خاطر اس نے میونسپل کمیٹی میں موجود دوسرے ہم وطنوں کے ذریعے مرے ہوئے کتے ملنے پر اطلاع دینے کے لئے اپنا فون نمبر بھی پھیلا دیا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مرا ہوا کتا نہ ملتا تو عربوں کے نازوں کے پلے ہوئے خوبصورت اور قیمتی کتے دوسروں کے گھروں کے سامنے سے مرے ہوئے ملنے شروع ہو گئے۔

ایک دن ایک بڑے بنگلے کے سامنے مرا ہوا کتا ڈال کر صاحب خانہ کے نکلنے کا منتظر تھا کہ ایک لمبی کار آئی ایک بندہ اس کار سے نکلا اور اس شخص کو درشت لہجے میں اس کی اپنی زبان میں مرے ہوئے کتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹھاؤ اس اپنے ابے کو، آئندہ میں نے تجھے یہاں دیکھا تو اچھا نہیں ہوگا۔ میں عرب شیخ نہیں تمہارا ہم وطن ہوں۔ کچھ دنوں بعد مرے ہوئے کتوں سے روزی کمانے والا پالتو کتوں کو مارنے کے جرم میں ڈیپورٹ کر دیا گیا۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی اپنا مرا ہوا کتا بوری میں ڈال کر نکل جائیں یا نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہمارا مرا ہوا کتا ہماری آئینی حکومت یعنی جمہوریت ہے۔ جس کو امریکہ کے کہنے پر روس کے گھر کے سامنے ڈال کر ہم منافع بخش کاروبار کرتے رہیں، پھر افغانستان میں پھینک کر با روزگار بنے اور اب مجبوراً چین کے سامنے ڈالنے کی کشمکش میں ہیں۔ پہلے ہم امریکہ کے کہنے پر جمہوریت کا بیوپار کرتے رہیں اب چین کے کہنے پر اس کی لاش مرے ہوئے کتے کی طرح ڈسٹ بن میں ڈالنے پر تیار ہیں۔ ہم پاکستانیوں کا کوئی دوست نہیں کیونکہ امریکہ ہو یا چین ہر کوئی ہماری جمہوریت کا دشمن ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments