سندھ دیس کی دھرتی پر


”مگر اپنا وطن اپنا وطن نہیں تھا۔ یہ فوجیوں کا وطن تھا۔ یہ ان بڑے لوگوں کا وطن تھا جو حرف لوٹتے ہیں، ان وڈیروں اور جاگیرداروں کا وطن تھا جن کے سینے میں دل نہیں ہے، سونے کا ایک ٹکڑا ہے۔ خون بیچ کر خریدا ہوا ہیرا ہے جو سانپ کی کنڈلی کی طرح ہر ایک کو ڈس رہا ہے۔ صرف امید تھی بھٹو کی بیٹی سے کہ وہ ایک دن آئے گی اور وہ روٹی کپڑا مکان کا وعدہ پورا کرے گی۔ اپنے اپ کے اس خواب کو ہر اس آدمی تک پہنچائی گی جس کے لیے اس شہید نے جان دے دی۔ جس نے سر نہیں جھکایا۔ ضیاء الحق سے معافی نہیں مانگی۔ اس ملک کے غریب مزدور ہاری کسان کے لیے اپنی جان دے دی۔ مگر اس دفعہ بھی خواب جھوٹا نکلا تھا۔ وہ آئی ضرور تھی مگر مصلحتوں کی بہت بڑی بوری لے کر۔ اپنے شہید باپ کے خون کا سودا کرنے کے لیے۔ اپنی بولی لگا کر، اپنا پیٹ بھرنے کے لیے۔“

وہ رک گیا تھا پھر بولا، ”جانے دو یار، ان سب باتوں میں کیا رکھا ہے؟ تم خوش ہو، میں خوش ہوں، امریکا میں ہم لوگ اور مزے سے ہیں۔ اس وقت تو یہی ضروری بات ہے اور غم کیا ہے پیارے۔ دنیا تو چلتی رہے گی۔“

مزید بات نہیں ہوئی اس موضوع پر اور ہم لوگ دوسری باتوں میں الجھ گئے تھے۔

افضل سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ اندر سے بہت خوبصورت آدمی تھا۔ دو سرو کا مددگار، ہمیشہ اپنے آپ میں مست رہنے والا آدمی۔ ہم دونو کافی ملتے جلتے رہے تھے ایک دوسرے سے اور وہ میرے کام بھی آتا رہا تھا، جب بھی ممکن ہوا اس کے لیے۔ ہماری جان پہچان گہری دوستی میں بدلتی جا رہی تھی۔

اس دن اس نے مجھے اپنے گھر بلایا تھا۔ بڑے سے خوبصورت کنڈومونیم میں آسائش کی ہر چیز تھی اور اس خوبصورت کمرے میں یہ چار تصویریں لگی ہوئی تھیں۔

کھانے پینے کے ساتھ شراب کا بھی دور چلتا رہا تھا۔ اور نہ جانے کیا بات ہوئی تھی کہ میں پوچھ بیٹھا کہ ”قائد عوام کی تصویر تو ٹھیک ہے مگر یہ محمد بن قاسم اور ساتھ میں ہندوستانی فلموں کی یہ دو لڑکیوں کی تصویروں کا کیا مطلب ہے؟ ساتھ میں قائد عوام کی بیٹی کی تصویر کیوں نہیں لگائی آپ نے؟“

وہ ہنسا تھا، بڑی ترش سی ہنسی تھی، بڑی زہر بھری ہوئی۔ ”ارے، یہ تو شہید سندھ ہیں، سندھ کے شہید تم نہیں جانتے انہیں۔ یہ محمد بن قاسم ہے جس نے سندھ کی دھرتی پر آ کر غلاموں کو آزادی دلائی تھی اور ہندو بنیوں کو بتایا کہ انصاف کیا ہوتا ہے۔ اسلام کی راہ دکھائی تھی انہیں۔ وہ لوگ اس کی پوجا کرنے لگے تھے۔ کہتے ہیں اس کی شکل کے بت بنا کر رکھ لیے تھے سندھ والوں نے۔ بھگوان کی مورت بنا دیا تھا اسے۔ وہ سندھ میں انصاف لے کر آیا تھا مگراس کو قتل کر دیا گیا۔ اسے بھی شہید کر دیا گیا۔ یہی طور ہے، یہی طریقہ ہے کہ جو انصاف کی بات کرتا ہے، قتل ہوجاتا ہے۔ یہی تاریخ کے صفحوں پر جلی حروف سے لکھا ہوا ہے۔ تمہیں پتا ہے ناں کہ اس غازی کا قتل کیسے ہوا تھا؟“ اس نے مجھ سے سوال کیا تھا۔

”نہیں، مجھے نہیں پتا ہے۔“ میں نے جواب دیا، کیوں کہ مجھے تو نہیں پتا تھا کہ غازی محمد بن قاسم کو شہید کیا گیا تھا۔ مجھے تو اسکول میں جو تاریخ پڑھائی گئی تھی اس میں تو یہی بتایا گیا تھا کہ سندھ کے فاتح نے سندھ میں امن و انصاف کا بول بالا کر دیا تھا۔ کیا حجاج بن یوسف کے سترہ سالہ داماد نے ہند کے سندھ میں جہاں تاریکی تھی وہاں روشنی پھیلا دی تھی، اسے قتل کیا گیا تھا؟ میرے لیے تو یہ خبر ہے۔ میں نے شدید حیرت کا اظہار کیا۔

”میں تمہیں بتاتا ہوں، تھوڑی بہت تاریخ میں نے بھی پڑھی ہے۔ یہ جو دو تصویریں ہیں دو لڑکیوں کی، یہ ہندوستانی فلموں کی ہیروئنیں نہیں ہیں۔ یہ میں نے ایک دوست سے بنوائی ہے۔ یہ راجا داہر کی بیٹیوں کی تصویریں ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوا تھا۔

میرا ذہن جو شراب کے سرور میں تھا یکایک سخت قسم کی متضاد کیفیتوں کا شکار ہو کر رہ گیا۔ کہاں اس کے قائد عوام کی تصویر، کہاں محمد بن قاسم کی شہادت اور پھر راجا داہر کی بیٹیوں کی تصویریں؟ میں بڑے غور سے اس کی بات سننے کو تیار ہو گیا تھا۔

اس نے بڈوائزر کا ایک بڑا گھونٹ لیا اور بڑے ہی دھیمے لہجے میں انگلی اٹھا کر کہنا شروع کیا، ”یونو (You know) جب راجا داہر مارا گیا تو اس کی یہ دونوں بیٹیاں محمد بن قاسم کے قبضے میں آ گئی تھیں اور محمد بن قاسم نے مال غنیمت اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ ان دونوں کو بھی دمشق میں خلیفہ کے دربار میں بھیج دیا تھا۔ دمشق کے خلیفے کے دربار میں ان دونوں لڑکیوں نے، راجا داہر کی بیٹیوں نے ٹھٹھول کیا اور خلیفہ سے ہنس کر کہا کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ مسلمان فوجی اپنے خلیفہ سے پہلے اپنا حصہ لے لیتے ہیں۔ ہم دونوں کو تمہارے سپاہی محمد بن قاسم نے لوٹ کر بھیجا ہے۔ یہ کہہ کر دونوں ہی رو دی تھیں۔

یہ کوئی معمولی جرم نہیں تھا۔ خلیفہ کی امانت میں خیانت کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں تھی۔ یہ بڑا جرم تھا، بہت بڑا جرم۔ اس کی سزا کے طور پر خلیفہ کے حکم سے محمد بن قاسم کی گردن اڑا دی گئی اور خلیفہ نے راجا داہر کی بیٹیوں کے سامنے لاش رکھ کر کہا تھا کہ ”مال غنیمت اور خلیفہ کی امانت میں کوئی بھی خیانت کرے اس کی جان لے لی جاتی ہے، چاہے وہ محمد بن قاسم ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ہے خلیفۂ بغداد کا انصاف۔“

یہ کہہ افضل نے ایک اور بڑا گھونٹ بھرا پھر مسکرا کر کہا، ”پھر دونوں لڑکیوں نے خلیفہ سے کہا تھا کہ ہم نے اپنے باپ کا بدلہ لے لیا ہے اور بے قصور محمد بن قاسم کو سزائے موت دلا دی۔ ہم نے تو بدلہ لینے کے لیے جھوٹ کہا تھا۔ اپنے باپ کا بدلہ، سندھ کے حکمران راجا داہر کا بدلہ جس کا تختہ اس نے الٹا تھا جس کی حکومت کو تاراج کیا تھا۔ کہتے ہیں یہ کہہ کر وہ لڑکیاں دل بھر کے ہنسی تھیں۔“

”خلیفہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ راجا داہر کی ان دونوں بیٹیوں کی بھی جان لے لے۔ اسی وقت دونوں کے سر تن سے جدا کر دیے گئے تھے۔“

”ان دونوں بیٹیوں کی تصویر لگائی ہے میں نے قائد عوام کے ساتھ۔ شہید سندھ ہیں یہ لوگ۔ وہ بھی جس نے سندھ کے عوام کو فتح کیا۔ وہ دونوں بھی جنہوں نے سندھ کے حکمران، اپنے باپ کے لیے جان دے دی۔ سمجھوتا نہیں کیا، جرنیلوں سے۔ اور وہ بھی جو عوام کے لیے پھانسی پر لٹک گیا اور اس شہید عوام کے نیچے اس کی تصویر تو نہیں لگ سکتی ہے ناں جس نے باپ کے خون کا، پورے ملک کے عوام کا، میرا اور تمہارا سودا کیا ہے، انہیں جرنیلوں سے جو خلیفۂ بغداد کا تسلسل ہیں۔ تم ہی بتاؤ کہ کون ہے شہید سندھ؟“

اس کی آنکھوں کی نفرت اور لبوں کی ترشی ایک شریر مسکراہٹ میں بدل کر اس کے چہرے پر رقص کر رہی تھی۔ ہوش مندی میں دیوانگی کا رقص۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments