ازل اک تیرگی ہے


کشتی چٹانوں کے درمیان بھول بھلیوں جیسی گزرگاہوں سے گزر رہی تھی۔ سوائے موٹر چلنے کی آواز کے اور کوئی بھی آواز کانوں میں نہ آتی تھی۔ یکا یک ایسا لگا جیسے ہمارے قریب سے ہی کہیں سے ایک چیخ کی آواز سنائی دی ہے۔ جیسے دھیرے دھیرے کوئی کراہ رہا ہو۔ پانی میں ایک دم ارتعاش پیدا ہوا اور پھر سب کچھ ویسے کا ویسا ہو گیا۔ ہم لوگ ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے۔

بلیک فٹ نے یکا یک آنکھیں بند کر لیں، اس کے چہرے سے اک عجب سا ناقابل بیان کرب عیاں تھا۔ ہوا چل نہیں رہی تھی مگر سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ بلیک فٹ گائیڈ کسی استغراق میں گم تھا۔

 ”یہ کیسی آواز تھی؟ لی چنگ نے اچانک کانوں سے ہیڈ فونز اتار کر پوچھا۔ اس نے بھی شاید کچھ سن لیا تھا۔

 ”اس پانی میں کچھ بھید بھرے ہیں۔ تم نے غار میں داخل ہونے سے پہلے بورڈ پر کہانی تو پڑھی ہوگی“ ۔ گائیڈ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

نہیں تو۔ ہم جلدی میں تھے سو پڑھ نہ سکے۔ واپسی پر ضرور پڑھیں گے۔ میگی نے جواب دیا

 ”بتائیں نا۔ کون سی کہانی ہے؟ گیتا نے بھی زبان کھولی۔“ مجھے تو ویسے ہی کہانیاں سننا بہت اچھا لگتا ہے۔ پلیز سنائیں نا کہانی ”۔

یہغار، یہ وادی یہ کہانی سب اسی کی تو ہے۔ گائیڈ پھر پہیلیاں بجھوانے کے انداز میں بولا۔ لگا، جیسے وہ بھی ہمیں کچھ بتانے کو بے قرار ہو۔

 ”کیسی کہانی، کس کی کہانی؟ آیانہ نے پوچھا اور ہاتھ پانی میں ڈال کر شوخی سے چھینٹے اڑانے لگی۔

 ”ارے ارے مس کیا کرتی ہو؟ گائیڈ بے چین ہو کر بولا“ احتیاط کرو ”

میں؟ میں محبت کرتی ہوں اور کیا؟ کہہ کر آیانہ نے شوخی سے بلند آواز میں دو چار قہقہے لگائے اور پھر پانی سے کھیلنے لگی۔

ہاں تو بتاؤ نا۔ یہ کیسی آواز تھی؟ آیانہ نے ضد کے سے انداز میں پوچھا۔ گائیڈ چند لمحوں کے لئے خاموش ہو گیا پھر بولا۔

 ”یہ کہانی ہے نیتا۔ نی کی۔ جسے یہ آواز صدیوں سے ایسے ہی پکارتی ہے۔ نیتانی۔ نیتانی۔

 ”نیتا۔ نی؟ اچھا چلیں پلیز سنائیں نا۔ اب کے جیکسن نے بھی اصرار کیا۔ جیکسن بلیک تھا مگر پانی کے سیاہ رنگ کی نسبت اس کے چہرے کی رنگت پھر بھی ہلکی دکھائی دیتی تھی۔

 ” یہ ہماری ایک پرانی انڈین کہانی ہے اور اسے سنانا بھی ہماری اس بوٹ رائیڈ کا حصہ ہے۔ تو آپ لوگ بھی سنیے۔

 ”ہم اپنے باپ دادا سے یہ کہانی سن کر ہی بڑے ہوئے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ کہانی آگے بھی یونہی سنائی جاتی رہے گی۔ 1892 ءمیں سب سے پہلے یہ کہانی ایک سینیکا قبیلے کے فرد اور پھر ایک گورے شخص Isaac Steeleنے سنائی تھی۔ اس وقت تک ہمارے ملک امریکہ میں سامراج کا تشدد اور قبضہ گیری شروع ہو چکی تھی۔ ہم لوگوں کے تقریباً ایک سو چوالیس مختلف ناموں کے قبیلے تھے۔ ہماری سرزمین پر رنگارنگ ثقافتیں اور خوبصورتیاں بہار دکھاتی تھی۔ پھر یورپ کے مختلف ممالک سے بحری جہازوں کے ذریعے گوری اقوام نے یہاں آنا اور تجارت کرنا شروع کر دیا۔ وہ ہمارے قبائل سے جانوروں کی کھالیں لیتے اور بدلے میں ہمیں مختلف چیزیں، زیادہ تر اسلحہ دے دیتے۔ یوں لین دین کے ذریعے روابط بڑھنے لگے۔

 ” ایک خوبصورت نوجوان جس کا نام ملاچی تھا، فرانس سے آیا اور کھالوں کی تجارت کے سلسلے میں اسی علاقے میں ٹھہر گیا۔ اس نے مقامی انڈین لوگوں سے دوستی کر لی اور یوں اس کا وقت سکون سے گزرنے لگا۔ وہ امن پسند تھا لہٰذا ان لوگوں نے بھی اس پر کچھ بھروسا کرنا شروع کر دیا تھا۔

 ” پھر کیا ہوا؟ آیانہ نے ایک بچی کی سی شوخی کے ساتھ جلدی جلدی پوچھا اور بہتے پانی میں ہاتھ ڈال کر پھر سے چھینٹے اڑانے لگی۔

 ” ارے تم بڑی شرارتی لڑکی ہو“ ۔ بلیک فٹ نے اسے پیار سے گھورا۔ ”باز نہیں آؤ گی“ ۔

 ” آپ فکر نہ کریں پانی میرا دوست ہے۔ پانی مجھ سے محبت کرتا ہے۔ یہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہ پانی، یہ چٹانیں، یہغار، یہ میرے کلاس فیلوز سب میرے دوست ہیں۔ پوری دنیا میری ہے۔ اور مجھے ان سب سے محبت ہے“ ۔

وہ بے تکان بولے جا رہی تھی۔ بلیک فٹ نے دوبارہ سے کہانی سنانا شروع کردی شاید سوچا ہو گا، یہ دیوانی لڑکی تو سنجیدہ ہونے والی نہیں کیوں نہ اپنا کام پورا کر لوں۔

 ” ایک روز ملاچی دریا پر کھڑا اپنی پانی کی چھاگل بھر رہا تھا۔ پاس ہی کھڑا اس کا صحتمند گھوڑا پانی پی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک خوبصورت، جوان، انڈین لڑکی پر پڑی جو ہرنوں کے ایک جوڑے کے ساتھ ساتھ خود بھی قلانچیں بھرتی ادھر سے ادھر بھاگ رہی تھی۔ اس کے سر پر دو رنگین تتلیاں یوں منڈلا رہی تھیں جیسے اس کی سہیلیاں ہوں اور وہ سب ایک مزے کا کھیل کھیل رہے ہوں۔ قدرت کی گود میں پلی بڑھی یہ لڑکی بنانے والے کی صناعی کا ایک شاہکار نظر آتی تھی۔ ملاچی اس سادہ اور معصوم حسن پر بری طرح فریفتہ ہو گیا۔ آگے بڑھا اور اسے جنگلی پھولوں کا ایک گلدستہ دیا جو اس نے کچھ دیر پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے توڑ کر بنایا تھا۔ لڑکی ہنستی ہوئی وہاں سے بھاگ گئی اور یوں ملاچی اور نیتانی کی پہلی ملاقات ہوئی۔

 ”ہاؤ سویٹ۔“ جیکسن نے آنکھیں مٹکا کر کہا تو میں نے بھی تائید نے سر ہلا دیا۔

 ” نیتانی قبیلے کے سردار کی اکلوتی بیٹی تھی مگر اس کی حفاظت کے لیے اس کے سات کڑیل جوان بھائی اکثر اس کے آس پاس منڈلاتے تو رہتے تھے، مگر دونوں کی پریم کتھا شروع ہو چکی تھی۔ ملاچی اور نیتانی جنگلوں میں چھپ کر ملنے لگے۔ تتلیاں ان کے لئے پیغام رسانی کا کام کرتی اور یوں وہ قریب سے قریب آتے چلے گئے۔

 ”تتلیاں؟ گیتا نے مشکوک لہجے میں پوچھا۔“ وہ کیسے؟ ان میں کون سے ٹرانسمیٹرز لگے ہوتے ہیں۔ وہ ہنس کے بولی۔

 ”مس شاید آپ کے علم میں نہیں ہے، ہم انڈین لوگ جانوروں، پرندوں اور دیگر جانداروں سے کمیونی کیٹ کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ آپ لوگوں کو شاید یہ بات سمجھ نہیں آئے گی لیکن ایسا تب بھی ممکن تھا اور آج بھی ہے۔ گائیڈ بلیک فٹ نے اتنے وثوق اور یقین سے کہا کہ ہم سب کو یہ بات بغیر مانے چارہ نہ رہا۔ دل میں رہ رہ کے خیال ضرور آتا رہا کہ کیا واقعی؟ ایسا ہو سکتا ہے کیا؟“

 ” آپ کو کیا پتہ کتنی طاقتیں ہوتی تھیں انڈین لوگوں میں۔ اس غار کے پانی کو ہی دیکھ لیں کئی اسرار، حیرتیں، حسرتیں چھپی ہیں اس کے بھنوروں میں۔ اس پانی میں کوئی پودا نہیں اگتا۔ پیار کا پودا بھی نہیں، اسی لیے نیتانی اور ملاچی کے پیار کو بھی“

گائیڈ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ سب خاموش ہو کر اس کی بات سننے لگے۔ غار میں صرف موٹر کے چلنے کی آواز تھی، پورا غار ساکن تھا۔

 ” پھر کیا ہوا؟ میں نے گائیڈ سے پوچھا

 ”ہونا کیا تھا، آپ جانتے ہیں عشق کا پاگل پن چاہنے والوں کو ایک اپنی الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ سو محبت کی آنچ نے دونوں کے بدن میں بھی شعلے سلگا دیے۔ ایک روز دونوں کے پیاسے بدن خنجر بیچ میں رکھ کر بہم ہوئے اور پھر اپنی ہی حیرت سے پگھل کر پارس بن گئے۔ اس کے بعد ملا چی نے نیتانی کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگ لیا۔ قبیلہ میں گویا ایک طوفان آ گیا۔ چاروں طرف ڈھول بجنے لگے۔ قبیلے کے سردار کی جانب سے اسے پیغام ملا کہ فوراً اسی لمحے ان کا علاقہ چھوڑ دے ورنہ نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہو گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments