ازل اک تیرگی ہے


 ”ہمیں پتہ ہے کہ تم ہماری عورتوں کا کیا حشر کرتے ہو مگر ہم تمہیں ہرگز یہ کرنے نہیں دیں گے۔“ سردار نے چیخ کر کہا تو ملاچی خوفزدہ ہو گیا۔ اسے ڈھول بجا بجا کے خبردار کر دیا گیا، مگر ملاچی اور نیتانی ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کر چکے تھے، لہٰذا ملا چی کے لیے اب اسے چھوڑ کے بھاگ جانا ممکن نہ تھا۔ وہ اس معصوم حسن کے سحر میں مکمل طور پر گرفتار ہو چکا تھا۔

ملاچی اور نیتانی نے وہاں سے دور بھاگ جانے کا پروگرام بنا لیا تھا، سو اگلی رات کے آخری پہر گھوڑوں پر سوار ہو کر وہاں سے نکل بھاگے، مگر سردار کے بیٹے سوئے نہیں بلکہ جاگتے تھے۔ انہوں نے دونوں کو کچھ ہی دیر میں جا لیا اور ملا چی کو رسیوں سے باندھ کر کروگ ویم میں لے آئے۔ غصے اور جلال سے سردار اور بیٹے زور زور سے گرجنے لگے۔

 ”یہ تو بالکل انڈین فلم کی سٹوری ہے“ گیتا نے میرے کان میں سرگوشی کی تو میں مسکرا دیا۔

 ” سردار نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ ملا چی کو اٹھا کر لے جائیں اور اسے غار کے پانیوں میں پھینک دیں تاکہ اس کہانی کا انت ہو جائے۔ بلیک فٹ نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا

 ”اوہ مائی گاڈ۔ واقعی؟ یہ تو بہت افسوس ناک بات ہے“ ۔ میگی کہ منہ سے اچانک نکلا تو ہم سب بھی بے اختیار ہو کر اردگرد کے سیاہ پانی کو بغور دیکھنے لگے۔ یہیں تو ڈوبا تھا ملاچی۔

 ”ملاچی کے جسم میں عشق کی طاقت بھری ہوئی تھی سو وہ کوشش کر کے پانی کی قبر سے کسی طرح باہر نکل آیا اور کنارے کی ایک چٹان میں چھپ کر نیتانی کا انتظار کرنے لگا۔ اسے پتہ تھا وہ سے ڈھونڈنے ضرور آئے گی۔ اسے نیتانی پر مکمل یقین تھا۔ نیتانی بھی بہت بے چین تھی۔ وہ اسے کھوجتی، تلاش کرتی ٹھیک اسی جگہ پر آ گئی جہاں سے ہم لوگ اس وقت گزر رہے ہیں۔ وہ ملاچی کو حوصلہ دیتی اور اس کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کرتی رہی۔“

 ” جب سردار کو علم ہوا کہ ملاچی ڈوبا نہیں بلکہ زندہ ہے تو اس نے اپنے ساتوں بیٹوں کو پھر سے حکم دیا کہ وہ جائیں اور ملاچی کے ناپاک وجود کو پھر سے پانی میں اتار دیں۔ سات دن تک ساتوں بھائی باری باری آتے اور ملاچی کو پانی میں دھکے دے کر چلے جاتے۔ وہ پھر تیرتا ہوا آتا اور بچ جاتا۔ نیتانی کو پکارتا تو وہ تڑپ اٹھتی۔ گائیڈ نے لمحہ بھر توقف کیا اور پھر سے کہانی کا سرا پکڑ لیا۔

آٹھویں دن انھوں نے سوچا اس کا کوئی پکا ہی بندوبست کرنا ہو گا سوانہوں نے اس کے جسم کو ایک پتھروں سے بھرے جال میں ڈالا اور عین سامنے جو جگہ ہے وہاں بے رحمی سے غرق کر دیا۔

 ”اف۔“ میگی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ آیانہ کی آنکھوں میں بھی موتی جھلملانے لگے تھے۔ کشتی کی موٹر تیز تیز آواز میں گھر گھر کرنے لگی۔ تبھی سے ایسا ہے کہ کشتی جب اس جگہ پر پہنچتی ہے تو جیسے اسے کوئی نیچے سے پکڑ لیتا ہے۔ پانی میں بھنور پڑنے لگتے ہیں۔ بہت مشکل سے ہی اس سپاٹ سے آگے کو جانا ممکن ہوتا ہے۔ بلیک فٹ بولتا چلا گیا۔

 ” مگر ملاچی کی پکار کبھی ڈوب نہ سکی، انہی چٹانوں سے چپک کر رہ گئی۔ کبھی کبھار یہاں پراسرار سی سرگوشیاں بھی سنائی دیتی ہیں۔ کئی پیرا نارمل سٹڈی کے ماہرین یہاں آتے ہیں اور یہ رپورٹ لکھ کر گھر لے جاتے ہیں کہ اس ماحول میں میں کچھ غیر معمولی، غیر فطری علامتیں اور ایسی وجودیت پائی جاتی ہے جس کی بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

 ”اور نیتانی اس کا کیا ہوا؟ لی چنگ نے پوچھا۔

 ”اس کے بارے میں بھی مختلف کہانیاں مشہور ہیں، سنتے یہی ہیں کہ وہ ملاچی کے بعد خود بھی لاپتہ ہو گئی۔ کوئی کہتا اس نے کسی پہاڑ سے چھلانگ لگا دی تھی۔ پھر کسی نے کہا انہوں نے اسے ہرنوں کے جوڑے کے ساتھ جنگل میں قلانچیں بھرتے دیکھا ہے، جہاں اس کی شکل و ہی البتہ دھڑ ہرن جیسا تھا۔ کسی کو وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کسی گپھا کی طرف جاتی دکھائی دیتی تھی۔ کچھ خبر نہیں کہ نیتانی کہاں گئی۔“

اسی لمحے ایک سرد ہوا کا جھونکا آیا اور سب کو کپکپا کر رکھ دیا۔ آیانہ نے زور زور سے گانا شروع کر دیا۔

 ”لہو کی لہر بھی شامل ہے کالے پانی میں، دلوں کا دھواں بھی اٹھتا ہے غار کی گہرائیوں سے۔“

سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔

 ” لیکن اب تو اس کہانی کو صدیاں بیت گئیں ہیں۔ اس پریکٹیکل دنیا میں تو مجھے یہ سب ایک رومانوی داستان سے زیادہ کچھ نہیں لگتا۔ میگی نے پراعتماد لہجے میں کہا اور اپنے بالوں کو ادھرادھر جھٹکنے لگی۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی کو غور سے دیکھا جیسے وقت کا اندازہ لگا رہی ہو۔

 ” مجھے امریکن ادیب مارک ٹوین کی لکھی ہوئی بات یاد آ گئی اس نے ایک جگہ کہا تھا۔

 ” ہو سکتا ہے کہ یوں ہوا ہو، ہو سکتا ہے یوں نہ بھی ہوا ہو، مگر ایسا ہونا ممکن تو آخر ہو سکتا ہے“

گائیڈ نے پھر بات شروع کر دی ”اس غار کی عجیب نفسیات ہے۔ اسے ملا چی کو سمیٹنا کبھی قبول نہیں ہوا۔ وہ باہر کا آدمی تھا اور یہ غار صرف انڈین لوگوں کی ہے سو اس نے ملاچی کو کبھی چین سے نہیں رہنے دیا۔ وہ نیتانی کو پکارتا رہتا ہے اور غار اسے چین سے مرنے بھی نہیں دیتی۔ نہ اسے مکتی ملے گی نہ اس غار میں سکون ہو گا۔ یہ غار ناراض رہتی ہے اسی لیے یہاں کشتی بھی آرام سے نہیں چل سکتی ہے بھنور اس کے پاؤں میں لپٹ جاتے ہیں۔“

سب خاموش تھے۔ غار کے سکوت کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ یہاں اندر کوئی جانور، پرندہ حتٰی کہ کیڑا مکوڑا بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اپنی حیرت کا اظہار میں نے گائیڈ سے کیا تو وہ ہنس کر بولا:

 ”چٹانوں کی ہیئت، شکل، صورت کو غور سے دیکھیں، آپ کو پرندے، جانور، کیڑے، انسان حتی کہ اپنی پسند کی عمارتیں بھی دکھائی دیں گی۔ یہ تو آپ کا اپنا حسن نظر ہے اور کچھ نہیں۔ سب کچھ یہیں پر ہے۔“

جیکسن جو نیویارک سے تھا ایک دم بچوں کی طرح خوش ہو کر بولا:

 ” واقعی یہ دائیں ہاتھ والی بلڈنگ تو بالکل ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ لگ رہی ہے“

 ”اور مجھے وہ کونے والی عمارت تاج محل جیسے محسوس ہو رہی ہے۔“ گیتا بھی مسکرا کر بولی۔

 ” اگر میں سچ کہوں تو یہ نیچے کو بنی ہوئی بلڈنگ کسی کیتھڈرل جیسی دیکھتی ہے اور اس کی بالکل برابر میں ایفل ٹاور کھڑا نظر آتا ہے“ ژاں پال بھی بولے بغیر نہ رہ سکا۔

 ” ارے میرے ہینڈسم فرینڈ تم یقیناً پیرس (Paris) کے ہو گے۔ گائیڈ نے اس کا کندھا تھپتھپا کر کہا۔

 ” ہاں جی صحیح پہچانا، پچھلے ہی برس امریکہ آیا ہوں ہوں اور پین یونیورسٹی میں انٹرنیشنل لاء کا اسٹوڈنٹ ہوں۔ اس نے احترام سے اپنی ٹوپی نیچے کھسکاتے ہوئے کہا۔

 ” بہت اچھا لگا، آج تو ہماری کشتی میں بڑے انٹرنیشنل لوگ سوار ہیں۔ آپ لوگوں کے ساتھ سچ کہوں تو میرا یہ ٹور بہت دلچسپ رہا اور مجھے ہمیشہ یاد رہے گا“ ۔

گائیڈ نے دانت نکالتے ہوئے کہا ہم بھی جواباً مسکرا دیے۔ کشتی چل تو رہی تھی مگر لگتا جیسے اٹک رہی ہے، کبھی لگتا بڑا سا ایک بھنور اسے نگلنا چاہتا ہے۔ بار بار عجیب سے انداز میں گھومنے لگ جاتی تھی۔ ہم سب سسپنس میں ہی تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی زلزلہ آ گیا ہو۔ کشتی زور زور سے ہلنے لگی۔ ہم سب نے گھبرا کر کشتی کے کناروں کو مضبوطی سے تھام لیا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ اچانک ایک گڑگڑاہٹ سی سنائی دی۔ ہماری کشتی کے عین اوپر لٹکتا ہوا ایک بڑا سا سفید برف کا ٹکڑا تیزی سے سے نیچے کی طرف آیا اور کونے میں خاموش بیٹھے ژاں پال کے سر پر زور سے لگا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments