صحافت کا پیشہ: خدمت، قومی ذمہ داری یا وسیلہ روزگار!


حکومت کی جانب سے ناپسندیدہ صحافیوں اور میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی پالیسیوں کے باعث بعض باضمیر اور فرض شناس صحافیوں نے اخباری اداروں اور نیوز ٹی وی چینلز کی ملازمتوں کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے ذاتی یوٹیوب نیوز چینلز تشکیل دیے ہیں۔ یوٹیوب کے ذریعہ صحافت انجام دینے والے صحافیوں کو یوٹیوبر صحافی (Youtuber Journalist) کہا جاتا ہے۔ یہ صحافی جدید ترین ذریعہ ابلاغ کے ذریعہ آزادانہ اور خودمختاری سے اپنے ناظرین کو تازہ ترین خبروں، تجزیوں، تبصروں اور حقائق سے آگاہ کرنے کا قومی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

نیوز اینکر پرسن:

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ملک میں بھی دو دہائی قبل سیٹیلائٹ نیوز ٹی وی چینلز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جو اخبارات اور جرائد کے مقابلے میں عوام الناس میں تیزی سے مقبول ہوئے۔ ان نیوز ٹی وی چینلز پر خبروں، تجزیوں، بحث و مباحثوں اور پینل گفتگو کے مختلف پروگراموں کا آغاز کیا گیا تھا۔ بہت سے سینئر صحافی اینکر پرسن (News Anchorperson) کی حیثیت سے ان مقبول عام پروگراموں اور شوز کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اضلاعی نامہ نگار/ نمائندہ صحافی: قومی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کی جانب سے مقامی صحافیوں کو مختلف اضلاع اور قصبات میں نامہ نگاروں اور نمائندوں (District Correspondent) کی حیثیت سے مقرر کیا جاتا ہے۔ جو اپنے اپنے علاقوں اور اضلاع میں وقوع پذیر ہونے والے روز مرہ کے اہم واقعات، شہریوں کو درپیش مسائل، سیاسی سرگرمیوں اور حادثات کی تازہ خبریں اپنے اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کو ارسال کرتے ہیں۔

سائبر، آن لائن اور ڈیجیٹل صحافت:

صحافت کی یہ قم سائبر صحافت، آن لائن صحافت یا ڈیجیٹل صحافت کہلاتی ہے۔ یہ صحافت کا سب سے جدید ترین اور موثر انداز ہے۔ جیسا کہ اس صحافت کے نام سے ظاہر ہے کہ اس طریقہ صحافت میں مختلف انٹر نیٹ پلیٹ فارموں کے ذریعہ عوام الناس کے لئے سمعی اور بصری ذرائع سے تازہ ترین اطلاعات، خبریں اور رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں۔ دنیا میں ورلڈ وائیڈ ویب (www) متعارف ہونے اور انٹر نیٹ کی سہولیات کی بدولت دنیا اب ایک خیالی عالمی گاؤں (Virtual Global Village) میں تبدیل ہو گئی ہے۔

انٹر نیٹ اور آسان رسائی کے پلیٹ فارموں کی بدولت سائبر اور ڈیجیٹل صحافت کو عوام الناس میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف قومی اخبارات و جرائد نے بھی اپنے اخبارات اور جرائد کے الیکٹرانک پیپرز بھی متعارف کرائے ہیں اور نیوز ٹی وی چینلز نے بھی اپنی صحافت کو یو ٹیوب چینلز کے لئے وقف کر دیا ہے۔ یہاں تک کے مختلف نیوز ٹی وی چینلز اور پرنٹ میڈیا ہاؤسز نے بلاگرز، ویب سائٹس اور یوٹیوب کی سہولت استعمال کرتے ہوئے ڈیجیٹل دنیا میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

براڈ کاسٹنگ اور ٹی وی کی صحافت:

صحافت کے اس شعبہ کے ذریعہ سامعین اور ناظرین کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ تازہ ترین خبریں فراہم کی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں ابلاغ کی منفرد خصوصیات کے حامل یہ دونوں طریقے بڑے پیمانے پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کے مقابلہ میں عوام الناس میں ٹیلیویژن صحافت زیادہ مقبول ہے۔ کیونکہ یہ ذرائع ابلاغ سمعی اور بصری انداز کے ساتھ تازہ ترین خبریں نشر کرتے ہیں۔ موثر سمعی اور بصری انداز سے پیش کردہ خبروں کے باعث ناظرین ٹیلیویژن سیٹ سے جڑے رہتے ہیں۔

صحافت کی اس قسم میں بے پناہ لاگت اور مہنگے وسائل درکار ہوتے ہیں۔ ملک میں سرکاری نشریاتی ادارہ ریڈیو پاکستان، ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے علاوہ درجنوں نجی نیوز ٹی وی چینلز اپنے سامعین اور ناظرین کے لئے 24 گھنٹے تازہ خبریں اور رپورٹیں نشر کرنے میں مصروف ہیں۔ جہاں صحافی ڈائریکٹر نیوز، اینکر پرسنز، بیورو چیف، ڈپٹی بیورو چیف، نیوز پروڈیوسرز، نیوز کاسٹرز، رپورٹر اور کیمرہ مین کی حیثیت سے اپنے سامعین اور ناظرین کو تازہ ترین خبروں، رپورٹنگ، براہ راست رپورٹنگ، تبصروں اور انٹرویوز کے ذریعہ باخبر رکھتے ہیں۔

خبر رساں اداروں کی صحافت:

ملک میں سرکاری سطح پر قائم خبر رساں ادارہ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (APP) کے علاوہ متعدد نجی خبر رساں ادارے بھی قائم ہیں۔ جو قومی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز کے لئے تازہ ترین خبریں اور رپورٹوں کی ترسیل اور تقسیم کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ ان خبر رساں اداروں میں بھی بے شمار صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

جرائد کی صحافت:

ملک میں بعض صحافی ہفت روزہ، ماہنامہ جرائد، پیشہ ورانہ جرائد اور ماہنامہ ڈائجسٹوں کے شعبہ سے بھی وابستہ ہیں۔ جہاں وہ مضمون نگاری، ترجمہ نگاری، افسانہ نگاری اور ادارت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

شعبہ اشتہارات کی صحافت:

صحافت اور اشتہارات کا چولی دان کا ساتھ ہے۔ اخباری صنعت کے وجود کو برقرار رکھنے اور پروان چڑھانے کے لئے اشتہارات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک جانب اشتہارات کے ذریعہ ہونے والی آمدنی (Revenue) اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے اپنی مالیاتی بنیادیں مضبوط اور مستحکم کرنے کا اہم ذریعہ ہیں تو دوسری جانب اشتہارات پر انحصار آزادی صحافت کی خود مختاری کے لئے سخت خطرہ کا باعث بھی ہوتا ہے۔ بعض صحافی اخبارات اور نیوز ٹی وی چینلز میں شعبہ اشتہارات، مارکیٹنگ اور اسپیشل سپلیمنٹ میں اشتہاری اداروں میں کری ایٹیو ڈائریکٹر، ڈائریکٹر مارکیٹنگ، سوشل میڈیا سپورٹ اسپیشلسٹ، کاپی رائٹر، تخلیقی کاپی رائٹر، کونٹینٹ رائٹر، گرافک ڈیزائنر اور ڈائریکٹر پروڈکشن اور فوٹوگرافر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔

فری لانس صحافت:

فری لانس صحافی اور فوٹو گرافرز اگرچہ مروجہ صحافت کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی مخصوص افتاد طبع کے باعث کسی اشاعتی یا نشریاتی اداروں میں باقاعدہ ملازم ہونے کے بجائے آزاد اور خود مختار ازخود ملازم (Self Employed) ہوتے ہیں اور لگی بندھی نوکری کے بجائے اپنی مرضی سے کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ فری لانس صحافی ملک کے مختلف اشاعتی، نشریاتی اداروں اور سوشل میڈیا کو صحافت کے مختلف شعبوں کہانی نویسی، تحقیق، تحریر، مضمون نگاری، فوٹو گرافی کرنے اور کارٹون تیار کرنے کا فی گھنٹہ کی شرح سے معاوضہ وصول کرتے ہیں یا فی کام کے حساب سے اپنی تخلیقات فروخت کرتے ہیں۔

شہری صحافت:

دنیا میں سماجی رابطے (Social Media) کے جدید انقلاب کے بعد معاشرہ کے عام افراد میں درپیش مسائل، شکایات اور گرد و پیش کے اہم واقعات کو اجاگر کرنے کا شعور پروان چڑھا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اسمارٹ فون کے استعمال کے ذریعہ عوامی مقامات پر رونما ہونے والے غیر معمولی اور اہم واقعات اور حادثات وغیرہ کی رپورٹنگ اور فلم بندی اور انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے شہری صحافت (Citizen Journalist) کو بڑے پیمانے پر فروغ حاصل ہوا ہے۔

معاشرہ میں تیزی سے فروغ پاتے اس نئے رجحان کے نتیجہ میں اب شہری اپنے اسمارٹ فون کے ذریعہ کسی بھی اہم اور غیر معمولی واقعہ یا کارروائیوں کی فلم بندی کر کے اسے سوشل میڈیا پر فوراً اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ جو اپنے غیر معمولی موضوع کے باعث سوشل میڈیا پر نہایت تیزی سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل (Viral) جاتی ہے۔ بعض اوقات سرکاری حکام اور ادارے ایسی سوشل میڈیا رپورٹیں منظر عام پر آنے کے بعد پر فوری طور پر کارروائی بھی کرتے ہیں۔ جس سے شہری صحافت کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرہ کے ایسے باشعور شہریوں کو صحافت کی اصطلاح میں شہری صحافی (Citizen Journalist) کہا جاتا ہے۔

زرد صحافت:

زرد صحافت (Yellow Journalism) صحافت کی پست ترین شکل ہے۔ جس میں کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دینے کے لئے اصل خبر کی شکل کو اس قدر مسخ کر دیا جاتا ہے کہ اس خبر کا اہم پہلو قاری یا ناظر کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ یہ اصطلاح انیسویں صدی میں وضع ہوئی تھی۔ نیویارک کے دو اخبارات کے پبلشرز، ولیم رینڈولف ہرسٹ سینئر ( 1863۔ 1951 ) کاروباری، سیاستدان اور پبلشر اخبار نیو یارک جرنل اور اس کے کاروباری حریف ہنگری نژاد امریکی سیاستداں اور پبلشر اخبار نیویارک ورلڈ جوزف پلٹزر ( 1847۔ 1911 ) کو شعبہ صحافت میں زرد صحافت کا تخلیق کار مانا جاتا ہے۔ جب نیویارک کے ان دونوں اخبارات کے پبلشرز اور رپورٹرز اپنے اپنے اخبارات کی اشاعت میں سبقت لے جانے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر وحشت ناک اور ہیجان انگیز خبروں کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ یہ اشاعتی جنگ (Circulation War) اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ جب ان دونوں اخبارات نے کیوبا میں تعینات ہسپانوی فوجیوں کے مظالم کی داستانیں اس قدر نمک مرچ لگا کر شائع کیں اور امریکی رائے عامہ کو اس کے خلاف اس قدر برانگیختہ کر دیا کہ امریکہ اور اسپین کی جنگ تقریباً ناگزیر ہو گئی تھی۔

زرد صحافت کی اصطلاح دراصل جوزف پلٹزر کے اخبار نیویارک ورلڈ میں 1895 ء تا 1898 ء کے دوران شائع ہونے والی ایک سنسنی خیز مزاحیہ سیریز Yellow kidسے ماخوذ ہے۔

ماضی میں زرد صحافت نے دنیا کو کئی بار سنگین مسائل اور بحرانوں سے دور چار کیا ہے۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود ہمارے ملک میں آج بھی بعض غیر ذمہ دار صحافی اور میڈیا ہاؤسز محض اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے تمام صحافتی اقدار اور اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی زرد صحافت کے ذریعہ معاشرہ میں مذہبی اور نسلی منافرت، انتشار، ریشہ دوانیوں اور جنگی جنون پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

سرکاری انفارمیشن افسر:

صحافت کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے حامل صحافیوں کی حکومت پاکستان کے تحت سول سروس (CSS) کے امتحان کے ذریعہ کامیابی کی صورت میں ان کی ابتدائی طور پر پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (PID) میں انفارمیشن افسر (Information Officer) کے عہدہ پر تقرری عمل میں آتی ہے۔ سرکاری انفارمیشن افسر کے فرائض میں حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات اور مفاد عامہ کے منصوبوں کو قومی ذرائع ابلاغ میں اجاگر کرنا ہے۔ جبکہ سرکاری سینئر اور تجربہ کار انفارمیشن افسران کو وزیر اعظم اور صدر پاکستان کے پریس سیکریٹری اور وفاقی وزراء کے ساتھ بطور افسر تعلقات عامہ بھی تعینات کیا جاتا ہے۔

اسی طرح سینیئر انفارمیشن افسران کو بیرون ملک قائم سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں پریس قونصلر کی حیثیت سے بھی تعینات کیا جاتا ہے۔ جبکہ وفاق کی طرز پر ملک کے چاروں صوبوں میں بھی صوبائی سطح پر محکمہ اطلاعات (Information Department) قائم ہیں۔ جہاں صوبائی امتحانی مقابلوں میں کامیابی کے بعد ان صحافیوں کو مختلف وزراء کے ساتھ بطور افسر تعلقات عامہ اور مختلف محکموں اور اداروں میں علاقائی انفارمیشن افسر کی حیثیت سے تعینات کیا جاتا ہے۔ ان انفارمیشن افسران کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور ان کے متعلقہ محکموں کی خدمات، کارکردگی اور حکومت کی پالیسیوں اور مفاد عامہ کے منصوبوں کو ذرائع ابلاغ میں اجاگر کرنا ہے۔

صحافی /افسر تعلقات عامہ (PRO) :

وفاقی، صوبائی اور خود مختار اور دیگر اداروں میں صحافت کی مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے حامل صحافیوں کے لئے افسر تعلقات عامہ (PRO) کے اہم اور ذمہ دار عہدوں کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ ان سرکاری خود مختار اور نجی اداروں کے افسر تعلقات عامہ (PRO) کی ذمہ داریوں میں اپنے اداروں کے مقاصد، خدمات اور کارکردگی کو میڈیا کے ذریعہ پیش کرنا اور عوام الناس کے درمیان اپنے اداروں کی اچھی ساکھ اور شہرت کو برقرار رکھنے کے لئے ادارے کی کامیابیوں کو ذرائع ابلاغ میں اجاگر کرنا ہے اور کسی منفی خبر کی اشاعت یا نشر ہونے کی صورت میں اس منفی اور گمراہ کن خبر کی فوری طور پر تردید جاری کرنا ہے۔

خبروں کی بعض اقسام:
خبر کی معروف تعریف:
معروف امریکی صحافی اور مصنف چارلس اینڈرسن ڈانا ( 1819۔ 1897 ) کا مشہور قول ہے کہ:
” اگر کتا انسان کو کاٹ لے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے“ ۔
فرضی خبر (Disinformation) :

فرضی خبر بھی ایک قسم کی زرد صحافت ہے۔ جس میں بعض قوتوں کی جانب سے اپنے پس پردہ مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی گمراہ کن اور من گھڑت خبر کی تشہیر اور اسے جان بوجھ کر عوام الناس میں تلبیس اطلاع (Disinformation) کی صورت میں پھیلایا جاتا ہے۔ جس کو روایتی اشاعتی اور نشریاتی اداروں، خبر رساں ذرائع کے ساتھ ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی کثرت سے عوام الناس تک پہنچایا جاتا ہے۔

جعلی خبر (Fake News) :

جعلی خبر بھی ایک جھوٹی اور گمراہ کن خبر ہوتی ہے لیکن جسے خبر کی صورت میں طرح کیا جاتا ہے۔ جعلی خبر کا مقصد کسی فرد، شخصیت یا ادارے کو نقصان پہنچانا یا اس کے اشتہارات کی آمدنی کے ذریعہ پیسہ کمانا ہے۔ اگرچہ پوری انسانی تاریخ میں جعلی خبریں پھیلائی جاتی رہی ہیں لیکن جعلی خبر کی اصطلاح پہلی مرتبہ 1890 ء میں استعمال کی گئی تھی جب یورپ میں سنسنی خیز خبروں کے اخبارات کا رواج عام تھا۔

پروپیگنڈا:

پروپیگنڈا (Propaganda) انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ عام بول چال میں اس کے معنی دروغ گوئی، ترغیب و تحریص یا افواہ کا پھیلانا ہے۔ اکثر اوقات بعض حکومتیں سیاسی جماعتیں یا گروہ غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے اپنے مفادات کے پیش نظر غلط روایات اور من گھڑت واقعات کا چرچا کر کے اپنی مطلب براری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ٹیبلائڈ (Tabloid) صحافت:

ٹیبلائیڈ صحافت سے مراد بڑے پیمانے پر مقبول انداز میں ڈرامائی اور غیر مصدقہ سنسنی خیز خبریں شائع کرنا ہے۔ ایسے اخبارات کو (Tabloid Newspaper format) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اخبارات عام اخبارات کے صفحات کے سائز کے مقابلہ میں نصف سائز کے ہوتے ہیں۔ انہیں ایک دور میں زرد صحافت یا اسکینڈل شیٹ بھی کہا جاتا تھا۔ اس غیر ذمہ دارانہ اور سنسنی خیز صحافت کا آغاز 1770 ء میں لندن سے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 1840 ء کے اوائل میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں بھی ٹیبلائیڈ صحافت کا آغاز ہو گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments