لیو ٹالسٹائی کے نظریاتی، سماجی اور ازدواجی تضادات کی کہانی


لیو ٹالسٹائی انیسویں صدی کے امن کے ایک ایسے پرچارک تھے جن کے پرستاروں میں موہنداس گاندھی ’دالائے لاما اور مارٹن لوتھر کنگ جونیر جیسے مذہبی اور سماجی رہنما شامل تھے جنہیں بیسویں صدی کے امن کے نوبل انعام ملے۔

ان کی زندگی کا ایک المیہ یہ تھا کہ ساری دنیا کے امن پسند ان سے جتنی شدت سے محبت کرتے تھے ان کی بیوی سونیا ان سے اتنی ہی شدت سے نفرت کرتی تھیں۔ زندگی کے آخری دنوں میں ان کی ازدواجی زندگی اتنی تکلیف دہ اور اذیت ناک ہو گئی تھی کہ انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ میری شادی ایک ایسا جہنم بن چکی ہے جس سے مجھے فرار کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔

لیو ٹالسٹائی 1828 میں روس میں اپنے آبائی گھر
YASNAYA POLYANA

میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ آبائی گھر تھا جو دو ہزار ایکڑ زمین کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس زمین پر وسیع و عریض جنگلات بھی تھے کاشتکاری کے لیے کھیت بھی تھے اور ایک دو منزلہ مکان بھی تھا۔ لیو ٹالسٹائی کو وہ جنگل ’زمین‘ کھیت اور گھر اس وقت وراثت میں مل گئے جب ان کی عمر صرف انیس برس تھی۔

لیو ٹالسٹائی نے جس خاندان میں پرورش پائی وہ ایک محبت کرنے والا خاندان تھا۔ ان کے چار بھائی اور ایک بہن تھی۔ وہ بچوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ بدقسمتی سے جب لیو ٹالسٹائی دو برس کے تھے تو ان کی مہربان ماں فوت ہو گئیں اور جب نو برس کے تھے تو باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور لیو ٹالسٹائی بچپن میں ہی یتیم و یثیر ہو گئے۔ لیو اپنی بہن ماریا کو بہت چاہتے تھے اور یہ چاہت ساری عمر قائم رہی۔ وہ جہاں بھی رہائش پذیر ہوتے اپنی بہن کو پیار بھرے خط لکھتے رہتے۔

جب لیو ٹالسٹائی اور ان کے بہن بھائیوں کے سر پر دونوں والدین کا سایہ سلامت نہ رہا تو لیو ٹالسٹائی کی خالہ ٹوئینیٹا نے ان سب بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر پالا پوسا اور ان کی نگہداشت کی۔ خالہ ٹوئینیٹا نہایت شفیق اور مہربان عورت تھیں اور لیو ٹالسٹائی کے دل میں ان کے لیے ماں جیسی محبت اور عزت تھی۔

لیو ٹالسٹائی کی بچپن کی یادوں میں ایک دلچسپ یاد ایک ایسے نابینا شخص کی ہے جو قصہ گو تھا۔ وہ ان کے گھر باقاعدگی سے آتا تھا اور بچوں کو کہانیاں سناتا تھا۔ لیو ٹالسٹائی اس قصہ گو سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے دل نے سرگوشی کی کہ ایک دن میں بھی قصے کہانیاں لکھوں اور سناؤں گا اور مشہور ہو جاؤں گا۔

لیو ٹالسٹائی جب چودہ برس کے ہوئے تو انہوں نے روسی ادب پڑھنا شروع کیا پشکن ان کے پسندیدہ ادیب تھے اور وہ ان کی تخلیقات کو زبانی یاد کر لیتے تھے۔

لیو ٹالسٹائی نے نوجوانی میں ہی روایتی مذہب کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنی سوچ اور فکر سے اپنا سچ تلاش کریں اور اسے اپنی تخلیقات میں پیش کریں۔

نوجوانی میں ان کے تین خواب تھے
دولت
شہرت
اور
عورت

انہوں نے سوچا کہ اگر وہ ایک مقبول عام ادیب بن جائیں تو اس شہرت سے انہیں دولت بھی مل جائے گی اور عورت بھی۔ اور ان کے خواب شرمندہ تعبیر بو جائیں گے۔

لیو ٹالسٹائی نے جوانی میں ہی شراب پینی ’جوا کھیلنا اور جپسی عورتوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دیا تھا۔ 1853 میں جب روس کی ترکی سے جنگ ہوئی تو لیو ٹالسٹائی اپنے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار فوج میں شامل ہو گئے اور تین سال تک اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔

فوج کی خدمت کرنے کے دوران انہوں نے جنگ کے بارے میں مضامین لکھنے اور اخباروں مین چھپوانے شروع کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ اس طرح ان کی تخلیقی زندگی کا آغاز ہوا۔ دھیرے دھیرے لیو ٹالسٹائی بطور ایک جنگی جرنلسٹ اتنے مشہور ہوئے کہ اصحاب بست و کشاد تک ان کی تحریریں پہنچنے لگیں اور زار روس ان کا کالم بڑے شوق سے پڑھتا۔

1855 میں پہلی دفعہ لیو ٹالسٹائی نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ مجھے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنی چاہیے ایسا مذہب جو عیسائیت کی طرح مہربان ہو لیکن دقیانوسی خیالات و اعتقادات سے پاک ہو۔ ایسا مذہب جو اگلی دنیا میں جنت کے وعدے کرنے کی بجائے اسی دنیا کو جنت بنانے کی کوشش کرے۔

لیو ٹالسٹائی جب ایک مقبول عام جرنلسٹ بن گئے اور لوگ ان کی تحریریں ذوق و شوق سے پڑھنے لگے تو انہوں نے حکومت پر اعتراض کرنے شروع کیے۔ حکومت کو ان کی تنقید بالکل پسند نہ آئی اور زار روس نے انہیں خاموش کرانے کے دو حربے استعمال کیے

پہلا حربہ یہ کہ انہیں سارے ملک میں بدنام کرنے کے لیے انارکسٹ مشہور کر دیا۔

دوسرا حربہ یہ کہ ان کے گھر پولیس بھیج دی۔ پولیس دو دن تک تلاشی لیتی رہی لیکن انہیں کوئی قابل اعتراض لٹریچر نہ ملا اور وہ مایوس و ناکام لوٹی۔

لیوٹالسٹائی چونتیس برس کی عمر میں ایک اٹھارہ برس پری چہرہ سونیا کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور اس سے شادی کر لی۔ شادی کے ایک سال بعد ان کی بیگم حاملہ ہو گئیں۔ اس دوران لیو ٹالسٹائی نے اپنی پیاری بہن ماریا کو خط میں لکھا

’میں اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں۔

میری ایک محبت کرنے والی بیوی ہے اور ان دنوں وہ حاملہ ہے۔ میں باپ بننے والا ہوں۔ میری بیوی سونیا مجھ سے اتنی شدت سے محبت کرتی ہے کہ میں اس محبت کی شدت سے خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔

میں آج کل ایک ناول لکھ رہا ہوں اور میں تخلیقی وفور کا شکار ہوں۔ ’
لیو ٹالسٹائی نے جس ناول کا اپنے خط میں ذکر کیا وہ 1865 میں وار اینڈ پیس کے نام سے قسط وار چھپنا شروع ہوا۔ وہ ایک غیر معمولی ہی نہیں ایک غیر روایتی ناول بھی تھا جس نے روایتی ناول کی تمام حدود کو پار کر دیا تھا۔

شروع شروع میں جہاں لیوٹالسٹائی کے مداحین تھے وہیں ان کے لکھاری ٹرجینیو جیسے ناقدین بھی تھے جنہوں نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا

’ جب لیو ٹالسٹائی جیسا کم علم انسان اپنے ناول میں فلسفہ جھاڑنا شروع کر دے تو اس سے اور بڑی غلطی کیا ہو سکتی ہے‘

لیکن جب وہ ناول 1869 میں اپنے پایہ تکمیل تک پہنچا تو ٹرجینیو جیسے نقاد نے بھی گھٹنے ٹیک دیے اور اقرار کر لیا کہ وہ ایک شہکار ناول تھا۔

وہ ناول جو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے اس میں لیو ٹالسٹائی نے سینکڑوں کردار اور ہزاروں واقعات پیش کیے ہیں۔ اس ناول میں انسانیت کی بے مثال تاریخ رقم ہے۔ ناول میں لیو ٹالسٹائی نے روسی عوام کی 1805 کی جنگ کی تباہی و بربادی سے 1812 کی کامیابی تک کی داستان لکھی ہے۔ اس ناول میں عوام کو ہیرو بنایا گیا ہے جس سے وہ ناول ایک معرکتہ الآرا ناول بن گیا ہے۔

ناول کی تکمیل اور آخری ابواب چھپنے کے بعد لیوٹالسٹائی بیمار ہو گئے اور انہوں نے اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اپنے وجودی خلا کو جرمن فلاسفر شوپنہار کی کتابوں سے پر کرنے کی کوشش کی۔ ان دنوں لیو ٹالسٹائی نے روایت مذہب اور سچائی کے بارے میں ایک بار پھر شدت سے سوچنا شروع کر دیا۔

وہ اس یاسیت کے دور سے نکلے تو ایک اور ناول لکھنا شروع کیا جس کی تکمیل میں کئی سال لگے۔

1877 میں جب ان کا ناول اینا کرینینا ایک میگزین میں باقاعدگی سے چھپنا شروع ہوا تو اس وقت تک لیو ٹالسٹائی بہت تھک چکے تھے۔

اس ناول کی تکمیل کے بعد لیو ٹالسٹائی ایک نفسیاتی بحران کا شکار ہوئے اور اتنے اداس ہوئے کہ خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔

بظاہر لیو ٹالسٹائی ایک خوشحال اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے
دولت تھی
شہرت تھی
بیوی بچوں کی محبت تھی
وہ چھ زبانیں جانتے تھے
انہوں نے اپنے بڑے سے گھر میں غریب بچوں کے لیے سکول بنا رکھا تھا
کسان ان کی بہت عزت کرتے تھے

دلچسپ بات یہ تھی کہ جب ان کی زندگی اپنے ادبی و سماجی عروج پر پہنچی وہیں سے ان کا نفسیاتی زوال شروع ہوا۔

جب وہ اپنے ماضی کے بارے میں سوچتے تو ان کا ضمیر ملامت کرتا۔ انہیں اپنی زندگی بے معنی و بے مقصد محسوس ہونے لگی۔ انہیں یقین آ گیا کہ وہ نہ صرف خود فریبی کا شکار تھے بلکہ ساری دنیا کو بھی بے وقوف بنا رہے تھے۔

لیو ٹالسٹائی نے اس نفسیاتی بحران میں جانے اور اس سے واپس آنے کی کہانی اپنی کتاب
A CONFESSION
میں تفصیل سے لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جوانی میں میں
حد سے زیادہ شراب پیتا تھا
لوگوں سے لڑتا تھا
جوا کھیلتا تھا
جپسی عورتوں سے جنسی تعلقات قائم کرتا تھا
میں وہ لکھتا تھا جو لوگ پڑھنا چاہتے تھے۔ میں الفاظ سے کھیلنا جانتا تھا۔
میں الفاظ کا جادوگر بن گیا تھا۔ میں وہ سچ لکھتا تھا جس کا مجھے کوئی تجربہ نہ تھا۔ میں ایک فریبی انسان اور لکھاری تھا۔

اس بحران سے نکلنے کے بعد لیو ٹالسٹائی نے مادیت کی دنیا چھوڑ کر روحانیت کی زندگی اختیار کر لی۔ مادی زندگی کو خدا حافظ کہہ کر خدا کو گلے لگا لیا۔

لیو ٹالسٹائی پچاس برس کی عمر میں اس راہ سلوک پر نکل کھڑے ہوئے جو سنتوں صوفیوں اور سادھؤوں کا رستہ ہے۔

اس نفسیاتی انقلاب کے بعد لیو ٹالسٹائی نے
شکار کھیلنا
شراب پینا
گوشت کھانا
جنگ کرنا
سب سے توبہ کر لی۔

اس تبدیلی کے بعد لیو ٹالسٹائی نے ایک نئے مذہب کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس نئے مذہب میں انہوں نے روایتی عیسائیت کو الوداع کہا۔ انہوں نے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے روایتی مذہب اور جارحانہ ریاست دونوں سے بغاوت کر دی۔
انہوں نے کھل کر لکھنا شروع کیا کہ حکومت اور مذہب کے نمائندے مل کر عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔
انہوں نے ناول لکھنے کی بجائے روحانی مقالے لکھنے شروع کر دیے۔

انہوں نے عیسائیوں کو تبلیغ کی کہ ایک اچھا عیسائی امن کا پرچارک ہوتا ہے وہ فوج میں شرکت نہیں کر سکتا۔ لیو ٹالسٹائی امن کے پیغام بر بن گئے اور ساری دنیا کے ان گنت لوگ ان کے نقش قدم پر چلنے لگے۔

ان کے پرستاروں میں سے بہت سے عیسائیوں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا اور ان کا کورٹ مارشل ہوا۔

جب لیوٹالسٹائی نے ادبی دنیا کو خیر باد کہا تو ان کے ادبی دوست اور مداح بہت دلگیر ہوئے۔ ٹرجینیو نے ایک خط چھپوایا جس میں لکھا تھا کہ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نے ادبیات چھوڑ کر روحانیات کو گلے لگا لیا ہے۔

لیو ٹالسٹائی ایک لکھاری سے ایک ریفارمر بن گئے۔

1882 میں لیو ٹالسٹائی نے اپنی تمام جائیداد اپنی بیوی سونیا کے نام کر دی اور اپنے تمام تر خطابات سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جوں جوں وہ خدا کے قریب ہوتے گئے توں توں وہ اپنی بیوی سے دور ہوتے گئے۔ جوں جوں ان کی اپنے خدا سے محبت بڑھتی گئی ان کی اپنی بیوی سے محبت کم ہوتی گئی اور جوں جوں ان کی اپنی بیوی سے محبت کم ہوتی گئی ان کی بیوی کی ان سے نفرت بڑھتی گئی۔ دھیرے دھیرے روحانی کامیابی رومانوی ناکامی میں ڈھلتی گئی۔

زندگی کے آخری چند سال لیو ٹالسٹائی ایک عجیب عذاب کی زندگی گزارتے رہے۔

لیو ٹالسٹائی نے اپنی بیوی سونیا سے کہا کہ وہ ساری زمین جائیداد اور کھیت کسانوں میں تقسیم کر دے لیکن سونیا نہ مانی۔ سونیا کے آسودہ زندگی کے خواب لیو ٹالسٹائی کے آدرشوں سے بہت مختلف تھے۔

آخر ازدواجی حالات و تضادات اتنے ابتر ہو گئے کہ نوجوانی میں دو محبت کرنے والے ایک ہی گھر میں دو اجنبیوں بلکہ دو دشمنوں کی طرح رہنے لگے۔ وہ دریا کے دو کنارے بن گئے۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ کئی سال تک ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے تو بات نہیں کرتے تھے لیکن دونوں ڈائری لکھتے تھے اور ایک دوسرے کی ڈائری پڑھتے بھی تھے۔

لیو ٹالسٹائی چونکہ ایک مایہ ناز ادیب تھے اس لیے ان کے الفاظ میں ایک کاٹ تھی۔ اپنی بیوی سونیا کے بارے میں انہوں نے یہ تکلیف دہ اور اذیت ناک جملہ لکھا

SONYA WILL REMAIN A MILLSTONE AROUND MY NECK UNTIL I DIE
سونیا وہ طوق ہے جو مرتے دم تک میرے گلے میں پڑا رہے گا۔

1890 میں جب روس میں قحط پڑا اور کسان بھوک سے مرنے لگے تو لیو ٹالسٹائی نے ایک دفعہ پھر سونیا سے کہا کہ کھیت کسانوں کو دے دو لیکن وہ نہ مانی۔ لیو ٹالسٹائی اصرار کرتے رہے لیکن سونیا انکار کرتی رہیں۔

سونیا نے کچھ پولیس افسر ملازم رکھے جو کھیتوں کی نگہداری کرتے تھے۔

ایک امن پسند دانشور کے گھر کے چاروں طرف مسلح پولیس افسر دیکھ کر لیو ٹالسٹائی کے مداحوں اور پرستاروں اور ناقدوں نے بہت طنز کی لیکن لیو ٹالسٹائی اپنی بیوی کے ہاتھوں مجبور تھے۔

جب لیو ٹالسٹائی اور سونیا کے تضادات میں شدت پیدا ہوئی تو سونیا نے لیو کو پریشان کرنے کے لیے عجیب و غریب حرکتیں کرنی شروع کر دیں۔ وہ کبھی چیختی کبھی چلاتی کبھی انہیں کوستی اور کبھی محبت کی التجا کرتی۔ کبھی ان سے شدید محبت اور کبھی اتنی ہی شدید نفرت کا اظہار کرتی۔

ایک دفعہ تو سونیا چیختی چلاتی ایک کھائی میں جا کر لیٹ گئی اور نوکروں سے کہا کہ لیو کو بلاؤ کہ وہ مجھے اس کھائی سے نکالے۔

لیو ٹالسٹائی جو ساری دنیا میں امن لانے کی کوشش کر رہے تھے اپنے گھر میں امن نہ لا سکے۔

وہی حسینہ وہی محبوبہ جس کی محبت کی شدت سے وہ نوجوانی میں خوفزدہ رہتے تھے اب بڑھاپے میں اسی بیوی کی نفرت کی شدت سے خوفزدہ رہنے لگے۔

جہاں لیو ٹالسٹائی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی ازدواجی زندگی کے تضادات کا شکار ہوئے وہیں انہیں سماجی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

1901 میں روس کے آرتھوڈاکس چرچ نے یہ کہہ کر لیو ٹالسٹائی کو عاق کر دیا کہ وہ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا اور وہ ایک ’جھوٹا پیغمبر‘ ہے۔

لیو ٹالسٹائی کی عالمی شہرت بڑھتی گئی۔ جو شاعر ادیب اور دانشور انہیں محبت ’عزت اور عقیدت سے خط لکھتے تھے ان میں موہنداس گاندھی‘ جارج برناڈشاہ اور ایچ جی ویلز جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ گاندھی ان سے اتنے متاثر تھے کہ انہوں نے جنوبی افریقہ میں اپنے فارم کا نام ٹالسٹائی فارم رکھا تھا۔

لیو ٹالسٹائی اپنے نفسیاتی مسائل اور ازدواجی تضادات کی وجہ سے بہت پریشان رہتے۔ انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ میری شادی ایک ایسا جہنم بن گئی ہے جس سے مجھے کوئی فرار کا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔

ایک دو دفعہ ایسا بھی ہوا کہ وہ نقاہت اور کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے اور ڈاکٹروں نے کہا کہ شاید انہیں دماغ کے منی سٹروک ہوئے ہیں۔ لیو ٹالسٹائی کی نقاہت کے باوجود سونیا کی نفرت میں کوئی کمی نہ آئی۔

آخر لیو ٹالسٹائی نے اپنی بہن ماریا سے مشورہ کیا جو ایک گرجے میں ایک راہبہ کی زندگی گزار رہی تھیں۔ محبتی بہن کو اپنے دانشور بھائی پر اتنا ترس آیا کہ اس نے کہا کہ بیوی کو چھوڑ کر میرے پاس آ جاؤ۔

چنانچہ سردیوں کی ایک تاریک رات کو لیو ٹالسٹائی نے چند کپڑے اور کتابیں ایک سوٹ کیس میں ڈالیں اور چپکے سے گھر سے اسٹیشن چلے گئے اور ریل گاڑی میں بیٹھ کر اپنی بہن کی طرف سفر کرنے لگے۔

صبح جب لیو ٹالسٹائی گھر پر نہ تھے تو بچوں نے ماما سے پوچھا
ابو کہاں ہیں؟
ماما نے کہا
پتہ کہا
کب لوٹیں گے؟
ماما نے پھر کہا
پتہ نہیں
ادھر گھر میں ایک پراسرار خاموشی پھیل گئی۔

ادھر لیو ٹالسٹائی جو بڑھاپے میں سفر کی صعوبت کے عادی نہ تھے۔ گاڑی کے طویل سفر کے دوران بیمار ہو گئے۔

ایک چھوٹے سے شہر کے ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر جب گاڑی رکی تو سٹیشن ماسٹر نے انہیں پہچان لیا
آپ لیو ٹالسٹائی ہیں؟
جی ہاں۔ لیو ٹالستائی نے جواب دیا۔
میں آپ کا مداح ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔ آپ سخت بیمار ہیں۔

وہ سٹیشن ماسٹر لیو ٹالسٹائی کو اپنے گھر لے گیا۔ اس نے ڈاکٹر بلوائے جو ان کا علاج کرنے لگے۔ اسٹیشن ماسٹر نے میڈیا کر خبر دی اور ساری دنیا سے ان کے مداح ان کی مزاج پرسی کے لیے آنے لگے۔ سونیا کو اگلے دن کے اخبار سے خبر ملی کہ لیو ٹالسٹائی ایک چھوٹے سے سٹیشن میں رکے علاج کروا رہے ہیں۔

سونیا وہاں پہنچی اور لیو ٹالسٹائی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن لیو نے سونیا سے ملنے سے انکار کر دیا۔ لیو ٹالسٹائی اتنے بیمار ہوئے کہ بے ہوش ہو گئے۔ اس بے ہوشی کے عالم میں سونیا ان کے کمرے میں داخل ہوئیں ان کے ماتھے کو بوسہ دے کر کہا
’مجھے معاف کر دو۔ مجھے معاف کر دو‘

لیو ٹالسٹائی بے ہوش تھے انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی بیوی کا آخری بار دیدار کرنے سے پہلے ہی وہ ابدی نیند سو گئے۔

یہ انیس سو دس کی بات ہے جب لیو ٹالسٹائی کی عمر بیاسی برس تھی۔ لیو ٹالسٹائی کی لاش کو ان کے آبائی گھر لے جایا گیا اور انہیں وہیں دفن کیا گیا۔

لیو ٹالستائی کے جنازے میں ساری دنیا سے اتنے زیادہ لوگ شامل ہوئے کہ روس کی تاریخ میں کسی ادیب شاعر دانشور یا سیاستدان کے جنازے میں اتنے مرد و زن شامل نہ ہوئے تھے۔ لیو ٹالسٹائی ایسے ادیبوں مین شامل ہیں جو لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔

لیو ٹالسٹائی نے جب امن اور آشتی اور روحانیت کی راہ اختیار کی تو یہ موقف اپنایا کہ خدا مسجدوں اور گرجوں میں نہیں انسانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ لیو ٹالسٹائی کا دور روسی ادب کا وہ عظیم دور تھا جب آسمان ادب پر پشکن ’ٹرگینیو‘ دوستووسکی اور چیخوب جیسے روشن ستارے جگمگا رہے تھے۔

لیو ٹالستائی نے اپنے ناولوں اور کہانیوں سے روسی اور عالمی ادب میں گرانقدر اضافے کیے۔
ان کے مداحوں میں وہ ادیب بھی شامل ہیں جو جنگ اور امن کو پوری صدی کا بہترین ناول سمجھتے ہیں اور وہ امن پسند مذہبی و سیاسی و سماجی رہنما بھی شامل ہیں جو انہیں بیسویں صدی کا امن کا سب سے بڑا پیغام بر سمجھتے ہیں۔ جب کوئی مورخ پچھلی دو صدیوں کی ادب یا امن کی تاریخ لکھے گا تو وہ تاریخ لیو ٹالسٹائی کی تخلیقات اور خدمات کے بغیر نامکمل ہوگی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments