اردو نظم میں عورت کا استحصال


شعر انسان کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کے تجربات کا مرقع ہوتا ہے، ان ہی تجربات اور افکار کی روشنی میں جب کوئی تخلیق وجود میں آتی ہے تو وہ شاعری کا روپ اختیار کرتی ہے۔ ذہنی و فکری اور معاشرتی زندگی کا تنوع زبان و ادب میں تنوع اور رنگا رنگی کی وجہ بھی بنا ہے، بائیں ہمہ شعر کے اندر بھی رفتار زمانہ اور انقلاب احوال کے ساتھ تنوع اور رنگا رنگی نیز جدت طرازی دیکھنے کو ملی، گویا شعر کو بھی ارتقائی ادوار سے گزرنا پڑا ہے۔ اس ارتقائی عمل کے دوران شعر نے اصناف شاعری کی مختلف شکلیں دیکھی ہیں، مثال کے طور پر غزل، نظم، قصیدہ، مثنوی، رباعی وغیرہ۔ ان ہی اصناف میں نظم ایک اہم صنف ہے جس کے بغیر اردو زبان میں شعر و ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔

اردو کی شعری اصناف میں غزل کے بعد جس صنف کو سب سے زیادہ شہرت و داد ملی وہ نظم ہے۔ نظم ایک فصیح و بلیغ صنف سخن ہے جس میں کسی بھی مضمون کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ شاعر اپنے مافی الضمیر کو کسی عنوان کے تحت تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے، اس میں قافیہ و ردیف کی کوئی قید نہیں ہوتی، نظم کا جو تصور ہمارے ذہن میں قصیدہ، مثنوی، واسوخت، ہجو اور دیگر مماثل اصناف کے تعلق سے ہے جدید نظم ان میں ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔

بیانیہ کی کارگردگی افادیت و اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن شعر کی بنیادی ساخت استعارے، علامت، اور پیکر کی مرہون منت ہے، اس لیے جدید نظم طریقہ کار کی سطح پر حاوی انداز میں صرف بیانیہ پر تکیہ نہیں کرتی، جدید نظم نے علامتی طریقہ کار کو باہر سے وارد کیے ہوئے کسی فیشن یا کلٹ کے طور پر نہیں اپنایا، بلکہ علامتی طریقہ کار کو ہی اپنی خصوصیت بنا لیا، کیونکہ علامتی طریقہ کار تخلیقی عمل کے لیے جز لاینفک ہے۔

جدید نظم مضامین، موضوعات اور انسانی تجربات کے نقطہ نظر سے وسیع دائرہ عمل میں داخل ہو گئی، اور اب سیاسی، اخلاقی اور دیگر

مضامین کے اعتبار سے کوئی مضمون یا تاثر اس کے لیے ممنوع نہیں رہا، سمندر کی سی وسعت اپنے اندر سمائے ہوئے جدید نظم اپنی ارتقائی سفر پر گامزن ہے۔

جدید نظم نے مشرقی و مغربی ادبی فکر کا امتزاج رکھتی ہے، جدید نظم گو شعرا نے ایک طرف سریلزم، امپریشنزم، سمبلزم، داد ازم کیوبزم، امیجرازم سے استفادہ اٹھاتے ہیں دوسری جانب وہ مشرقی فلسفہ زندگی، ہندو دیومالائی اور اسلامی تہذیب و تمدن سے مانوس نظر آتے ہیں۔ جدید نظم نے ان تمام تاثرات کو اپنے اندر جذب کیا جو انسانی زندگی میں مختلف تجربات و حوادث کی شکل میں اس کی زندگی میں داخل ہوئے، وہ فلسفہ کی شکل میں ہو یا ادبی تھیوری کی شکل میں نظم نے اسے اپنایا۔

ایجاز و اختصار اجمال جدلیاتی لفظ تہہ داری وہ اوصاف ہیں جو کسی بھی منظوم تحریر کو شعری سطح پر بال و پر بنانے کے لیے ناگزیر طور پر ضروری ہیں، جدید نظم گو شعرا نے دیگر زبانوں کی اصناف سخن میں بہت تجربے کیے ہیں ان میں نظم معریٰ، آزاد نظم، سانیٹ ترائیلے، نثری نظم، ہائیکو، ماہیا، اور دو ہا قابل ذکر ہیں، یہ الگ بحث ہے یہ تجربے کس حد تک کامیاب ہیں اور کس حد تک اردو زبان کے مزاج اور فطری آہنگ کے اعتبار سے ناکام۔ بحر حال نظم معریٰ اور آزاد نظم کے بعد نثری نظم بھی قبولیت سے سرفراز ہو چکی ہیں۔

جدید نظم نے زبان کی شکست و ریخت، رسمی اور غیر رسمی آہنگ اور دیگر زبانوں کے الفاظ سے بھی استفادہ کیا ہے، لیکن اردو زبان کی روایت کو ایسا نظر انداز بھی نہیں کیا کہ زبان کو غیر مانوس، غیر مربوط اور غیر ہموار بنا کے رکھ دیا ہو ہے۔

ترقی پسند تحریک سے منسلک شعرا نے نظم کو تقویت بخشی۔ شعری اصناف میں اشتراکی خیالات کی ترسیل کا بہترین جامہ نظم رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ کہ نظم میں مضامیں بیان کرنے کی وسعت ہے۔ آزادی ہند میں اردو نظم کا اہم کردار رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک جو اشتراکیت، اجتماعیت اور ادب میں مقصدیت کی حامل تھی، اس سے نظم کے موضوعاتی پہلو میں ایک انقلاب آیا اور بھوک و افلاس، سیاست، ٓزادی اور آدمیت جیسے معتبر مضامین کو بالخصوص نظم میں پیش کیا جانے لگا۔ شعرا نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، اس تحریک سے منسلک شعرا میں فیض احمد فیض، علی سردار جعفری مخدوم محی الدین، ساحر لدھیانوی، جوش ملیح آبادی کیفی اعظمی، اختر الایمان، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور حبیب جالب اہمیت کی حامل ہیں۔

اردو نظم ایک لمبے عرصے تک ترقی پسند تحریک کی اثر اندازی رہی اس کے ساتھ ہی حلقہ نے بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں جو عصر حاضر میں بھی اپنی عمدہ تخلیقات سے اردو نظم کی دامن میں تازگی جدت پیدا کر رہی ہیں۔

اردو شاعری میں بالخصوص غزل اور نظم میں جس طریقے سے عورت کی تعریف کی گئی ہے ہمارا آج کا موضوع وہ مخصوص شاعری ہے۔

یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اردو شاعری میں شاعر عورت کی تعریفیں کرتے ہوئے صرف اس کے بدن تک اپنی تخلیق کو کیوں محدود کر دیتا ہے۔

بدن ایک محدود حاشیہ ہے۔ یوں کہیے کہ لباس ہے جو روح نے اوڑھا ہوا ہو۔ بدن فانی ہے، روح لافانی ہے، روح میں احساسات ہیں، جذبات ہیں، سوچ ہے، فکر ہے، تدبر ہے اور تخلیق ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر سوال ہیں۔

شاعر کیا عورت کے سوالوں سے گھبراتا ہے؟ اس لیے روح کی بابت کچھ نہیں کہتا۔ کیا عورت کی سوچ کی پرواز سے خوفزدہ ہے یا اسے ڈر ہے کہ جو مقام اس نے عورت سے چھینا تھا عورت اسے واپس لے لے گی۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر اختر علی سید اپنے ایک کالم میں فرماتے ہیں،

”سماجی نظام کی تبدیلی کا آغاز جس خوف کی بنیاد پر ہوا تھا پدر سری نظام اور مذہب کے اشتراک نے اس کو ایک مقدس صورت دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس اشتراک کا اثر اتنا ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھا کہ سخت گیر مذہبی قوانین تو ایک طرف دنیا سے بے زار اور بے نیاز تصوف بھی عورت کے خوف سے اپنے کو نہ بچا سکا۔ مردوں کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ یہ چڑیل (مدر سری نظام کی Wise women کو پدر سری میں اسی نام سے یاد کیا گیا ہے ) کسی دن اس کا تختہ نہ الٹ دے۔ یہ خوف مرد کی شہوت کے ساتھ مل کر ایک انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔ خوف کی اپنی ضروریات ہیں اور شہوت کی اپنی۔ عورتوں کے بارے میں سارے قوانین اور رویے ان دونوں ضروریات کی تکمیل کے لئے تشکیل دیے گئے ہیں۔“

شاعروں نے عورت کی تعریف و توصیف میں اس کی سوچ کا احاطہ کیوں نہ کیا۔ اس چیز پر سخت اعتراض بنتا ہے کہ ادب کے ساتھ یہ نا انصافی ہوئی ہے۔ کہ عورت کے دل و دماغ کو خارج از بیان کر دیا گیا ہے۔

اگر عصر حاضر کی نظم میں عورت صرف اور صرف حسن و جمال کا پیکر اور ایک قابل قدر ڈیکوریشن پیس ہے تو ترقی پسندی اپنی موت آپ مر جاتی ہے، تو دنیا کی نصف آبادی اپنی سوچ اور احساس، اور قابلیت کو لاکھ منوانے کی کوشش کرے، جب تک نظم میں اس کی خصوصیات کا ذکر تک نہ ہو گا، تب تک کیسے عورت کو اس کے حقوق مل سکیں گے۔

عورت کے انسانی وجود کی، مرد ہی کی طرح روحانی جہات بھی ہیں۔

ایک جاندار کی روح سے مراد اس کی وہ قوت حیات ہوتی ہے جو اس کو بے جان اشیا سے منفرد بناتی ہے اس کے لیے انگریزی میں لفظ Spirit آتا ہے۔

روح اور سوچ کو لامحدودیت حاصل ہے اور ایسے میں اہل قلم اور سب سے موثر ذریعہ اظہار نظم میں عورت کو ایک بے جان شے کی طرح پیش کیا جائے گا تو عورت اپنے جملہ حقوق سے محروم رہے گی۔ پھر اس کے بعد اس کے ساتھ جو مرضی سلوک ہو، عورت اس کو سہنے پر مجبور رہے گی۔ چاہے پھر وہ میٹریل ریپ ہو یا موٹر وے پر کی گئی جنسی زیادتی۔ جائیداد سے بے دخلی، غیرت کے نام پر قتل، علم سے بے بہرہ، آگہی اور شعور میں پس ماندہ، ایک غلام عورت ہو جو محض مرد کی تسکین کے لیے بنائی گئی شے بن کر رہ جاتی ہے۔

مشرقی مرد کی سوچ عصر حاضر میں ویسے ہی عورت کو بستر تک لے جانے کی ہے یا اپنے گھر کی عورت ہے تو وہ چولھا ہانڈی تک محدود رہے۔ تعلیم، شعور، علمی مباحث سے اس کا کوئی ناتا نہیں۔ مشرق میں عورت کی یہ تربیت کی جاتی ہے کہ اس نے کسی مرد کا گھر ہی سنبھالنا ہے۔ جھاڑو پونچا، گھر داری، اور شوہر کی عزت کی حفاظت کرنی ہے۔ مشرق کا مرد جہاں مرضی آئے منہ مارے، عورت کو زیبا نہیں کہ شکوہ کرے، شکایت کرے۔ کیوں کہ وہ گھر کی رانی ہے۔ حسن کی دیوی ہے۔ جس پر مہر تصدیق ثبت کرتی جدید نظم اسے حسینہ، ملکہ حسن و جمال اور دیوی پکارتی ہے اور یوں عورت کو مرد کی خدمت پر معمور کنیزوں جیسی تربیت دی جاتی ہے، تو کنیز کی کیا مجال وہ انکار کرے۔

مشرق کی عورت کو فقط ذاتی استعمال کی چیز سمجھا جائے، اس کو گھٹن زدہ ماحول میں پروان چڑھایا جائے اور کسی کی دھوتی کے پلو سے یہ کہہ کر باندھ دیا جائے کہ ہم نے تمھارے بہتر مستقبل کا خیال رکھتے، تمھاری شادی یہاں طے کر دی ہے۔ اچھے لوگ ہیں۔ بس تم نے ہماری لاج رکھنی ہے۔ گھر سنبھالنا ہے۔ بچے پیدا کرنے ہیں۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو تو گھر آباد رکھنے کے لیے برداشت کرنا ہے۔ اس پر مستزاد سیکس بھی گھریلو کام کاج کی طرح ڈیوٹی بنا دیا جائے، تو سونے پہ سہاگا ہو جاتا ہے۔ لیجیے ”مشرقی عورت“ کا مجسمہ تیار ہو جاتا ہے۔ وہ پتھر کی دیوی ہے، جس کے جذبات نہیں، محسوسات نہیں، خواہشات نہیں۔ جو اس کے قدموں میں ڈال دو، وہ گپ چپ ساکت رہے۔ دان قبول کرے۔

شاعروں سے جو اخلاقی کوتاہی ہوئی، اس اخلاقی کوتاہی کے باعث ہاں اور ناں کا تصور خلط ملط ہو گیا۔

عموماً شعری تخلیقات میں انکار کا مطلب شرم و حیا، ناز و نخرہ، انداز و ادا کو بطور نسوانی رویہ لیا جاتا ہے، جب کہ عورت ان مخصوص جذبات کے علاوہ دوسرے بھی جذبات رکھتی ہے، جیسے کہ ناپسندیدگی کا اظہار، کسی فرد کے بار بار بے تکلفانہ اصرار پر انکار اور غیر رضا مندانہ رویہ اختیار کرنا عورت کا حق ہے۔

اکثر شعراء کرام اور منصف اپنے کلام و تحریر میں عورت کا تذکرہ تلذذ یعنی seduction کے لئے کرتے ہیں۔
جیسے کہ عورت و مرد کے تعلقات کے حوالے سے یا عورت کے جسم کے حوالے سے۔
وہ حسن کا معیار اپنی ذہنی استعداد کے مطابق مقرر کرتے ہیں اور اپنی تخلیقات کے ذریعے
اکساتے آتے ہیں کہ عورت ایک جسم ہے اور اس کی ”ناں“ میں ”ہاں“ پوشیدہ ہے۔

جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جس طرح مرد کے انکار کو انکار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی ناں کا، مطلب بھی انکار ہی ہے۔

شاعر ایک کم عمر حسین و جمیل لڑکی کا خیالی پیکر اپنی تخلیقات میں تراشتے ہیں جب کہ شرعی و قانونی طور پر کم عمر لڑکی یا لڑکے کے بارے میں ایسے خیالات کے اظہار کی مناہی ہے۔ تخلیقات میں صرف نوجوانی و جوانی کے حسن اور جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

بڑی عمر کی محبوبہ یا کم صورت خاتون یا خاتون کے سلیقے، ذہانت و شعور کو بہت کم تخلیق کاروں نے اپنے کلام کی زینت بنایا ہے، خال خال ہی تخلیقات میں پختہ عمر کے جذبات یا محبوبہ کا تصور ملتا ہے، چند ایک مثالیں ہیں جیسے کہ ن م راشد، ساحر لدھیانوی اور اختر الایمان۔ اختر کے کلام میں پختہ عمر کی محبت اور محبوبہ کا تصور ہے۔
تتلیاں ناچتی ہیں
پھول سے پھول پہ یوں جاتی ہیں
جیسے اک بات ہے جو
کان میں کہنی ہے خاموشی سے
اور ہر پھول ہنسا پڑتا ہے سن کر یہ بات
دھوپ میں تیزی نہیں
ایسے آتا ہے ہر اک جھونکا ہوا کا جیسے
دست شفقت ہے بڑی عمر کی محبوبہ کا
اور مرے شانوں کو اس طرح ہلا جاتا ہے
جیسے میں نیند میں ہوں
عورتیں چرخے لیے بیٹھی ہیں
کچھ کپاس اوٹتی ہیں
کچھ سلائی کے کسی کام میں مصروف ہیں یوں
جیسے یہ کام ہے دراصل ہر اک شے کی اساس
ایک سے ایک چہل کرتی ہے
کوئی کہتی ہے مری چوڑیاں کھنکیں تو کھنکھاری مری ساس
کوئی کہتی ہے بھری چاندنی آتی نہیں راس
رات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر
بات کی بات سناتی ہے کوئی ہنس ہنس کر

ن م راشد کی نظم ”رقص“ مزدور عورت کے بارے میں ان کے خیالات اور ان کی عقیدت عورت کے حسن، اس کے شعور اور اس کی مضبوطی کو اجاگر کرتے ہیں جو کہ ایک صحت مند معاشرے کی بنت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
رقص کی یہ گردشیں
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا ہوں میں! جی میں کہتا ہوں کہ ہاں،
رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نا پائے
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی میرے لیے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
عہد پارینہ کا میں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں! اس لیے اب تھام لے
اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!

ساحر کی نظم ملاحظہ ہو۔

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
روح مر جاتی ہے تو جسم ہے چلتی ہوئی لاش
اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں
کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر اک چیخ کو نغمہ سمجھے
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج
جبر سے نسل بڑھے ظلم سے تن میل کریں
یہ عمل ہم میں ہے بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
اک بجھی روح لٹے جسم کے ڈھانچے میں لیے
سوچتی ہوں میں کہاں جا کے مقدر پھوڑوں
میں نہ زندہ ہوں کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈوں
اور نہ مردہ ہوں کہ جینے کے غموں سے چھوٹوں
کون بتلائے گا مجھ کو کسے جا کر پوچھوں
زندگی قہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک
کب تلک آنکھ نہ کھولے گا زمانے کا ضمیر
ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک

اردو شاعری میں جدید عورت کی حسیات اور ان کے جذبات و خیالات کی تصویر کشی خواتین اہل قلم نے بیسویں صدی کے نصف دوم کے پہلے یعنی 1950 سے ہی کرنی شروع کردی تھی، لیکن پدر سری معاشرے کا دباؤ کچھ اس قدر سخت گیر تھا کہ خواتین کو ایک مکمل شاعرہ کی حیثیت سے منظر عام پر آنا ممکن نہیں تھا۔ نسائی تحریک کی بیداری کے طفیل چند تعلیم یافتہ، باشعور اور حساس عورت نے بوسیدہ معاشرے کے حصار سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کے لئے خود بھی جد و جہد کی اور دوسری اہل سخن و اہل ذوق رکھنے والی شاعرات کو بھی میدان جنگ میں آنے کی ترغیب دی۔ ان تمام بندشوں اور قدغنوں کے باوجود 1960 اور خصوصاً 1980 کے بعد متعدد ایسی شاعرات منظر عام پر نظر لانے لگیں جنھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اور فہم و انا کے باوصف نہ صرف اپنے وجود کا احساس دلایا بلکہ اپنے اندر کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرنے لگیں جن کے اظہار پر اب تک پابندیاں عائد تھیں۔ اس ضمن میں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، بلقیس ظفیر الحسن، پروین شاکر، سارا شگفتہ، شائستہ یوسف، رفیعہ شبنم عابدی، شاہدہ حسن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان شاعرات نے اپنے کلام کے حوالے سے جدید عورت کی Feelings اس کی فکر، اس کی خواہشات، اس کے مسائل، دکھ درد، اس کی الجھنیں اور مردانہ بالا دستی کے تئیں اس کا نظریہ وغیرہ جیسے موضوعات کو اجاگر کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

کشور ناہید جدید شاعری کے حوالے سے ہمارے عہد کا ایک بڑا نام ہے۔ انھوں نے خود کو پوری طرح اس معاشرے میں منوایا ہے اور اپنی ذہنی فعالیت سے اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں عورت کے جمہوری حق حکمرانی اور پوری یا نصف گواہی جیسے مسائل پر بحثیں ابھی تک جاری تھیں وہاں کشور ناہید اپنے جیتے جاگتے وجود کا اعلان یوں کرتی ہیں۔

تمہیں خاموش دیکھنے کی چاہت
قبروں سے امڈی آ رہی ہے
مگر تم بولو
کہ یہاں سننا منع ہے
مجھے جن جذبوں نے خوفزدہ کیا تھا
اب میں ان کے اظہار سے
دوسروں کو خوف سے لرزتا ہوا دیکھ رہی ہوں
عورت کے انسانی وجود کی، مرد ہی کی طرح روحانی جہات بھی ہیں۔

ایسے معاشرے میں جہاں مرد کی بالا دستی عورت سے اس کا وجود چھین لیتی ہے کشور کی شخصیت ایک حرف انکار کی مانند ابھرتی ہے۔ انھیں اپنی پسپائی کا احساس ہے۔ مگر وہ اپنی قوت کا شعور بھی رکھتی ہیں۔ اور یہ جانتی ہیں کہ فنا اور ظلمت کی اس وادی میں جینے اور جیتے رہنے کی سزا کیا ہے۔ اور اس کا صلہ کیا ہے۔

جس معاشرے میں خواتین کو خون خرابے اور فساد کی جڑ جیسے القاب سے نوازا جاتا رہا ہو، وہاں اسے ایک انسان کے روپ میں دیکھنے سمجھنے یا اسے بھی ایک ذہن اور سوچ رکھنے والی عورت کے روپ میں تسلیم کرنا ناممکن تھا۔ جس عورت کو ازل سے ایک اثاثہ سمجھا گیا اور تحفہ یا بکاؤ مال کی طرح دیکھا گیا ہو۔

عورت کے احساسات و جذبات کو مذہب سماج قانون اور اخلاقی قدروں کے نام پر ہمیشہ جھٹلایا جاتا رہا اور یہی دوہرا رویہ عورت کو اپنے وجود کے مکمل ادراک سے محروم رکھے ہوا تھا۔

ایک مرد اساس معاشرے میں جہاں عورت کو صدیوں سے ایک کمتر، کمزور مجہول اور ناقص العقل مخلوق سمجھا گیا ہو، جہاں فی زمانہ اپنے حسن و جمال کی بنا پر اسے ایک شے میں تبدیل کر دیا گیا ہو جس کی معراج ہمارے موجودہ معاشرہ میں موڈل گرلز، طوائفیں کمرشل فلموں کی ہیروئنیں، جس کے مقابلے میں شریک ہونے والی عورتیں ہیں اور فلموں میں جنس کی عام مثالیں ہیں۔ احتجاج کم از کم دانشور و فنکار عورتوں کا ایک فطری عمل ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس طور پر عورت کو ”استعمال کی شے“ بنانے کی کوشش ہے بلکہ تجارتی زندگی کے تانے بانوں میں اسے ایک شے کا درجہ دے کر اسے منافع خوری کا آلہ کار بھی بنایا جاتا ہے۔ ”

اس تغیر پذیر معاشرے کی دوڑ میں بالادست سوسائٹی کے پینتروں کا تجزیہ کرنا مشکل ہے۔ اس ترقی یافتہ عہد میں بھی جب کہ معاشرے میں اتنی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں ہر شعبہ حیات میں دونوں کی ساجھے داری برابر ہے۔ ہر میدان میں عورت کے کندھے سے کندھا ملا کر زندگی کی ڈور میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ہر جگہ اپنے آپ کوProofکر رہی ہے باوجود اس کے مردانہ سماج عورت کی اس بہترین کارکردگی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کی آزادی، اس کی ذہنی بیداری اور اس کی ساجھے داری کو ہضم نہیں کرپا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی عورت کو اس مرد سوسائٹی نے دباکر رکھا اور اس کی سوچ اس کے ذہن پر تالے لگائے رکھا۔ اسے مرد کے بغیر بے اعتبار تسلیم کیا گیا۔ یعنی عورت بیکار محض ہے۔ اور سوائے افزائش نسل کے وہ کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر اس حصار سے عورت باہر نکل بھی آتی ہے تو اسے معاشرے میں یہ کہہ کر خارج کر دیا جاتا ہے کہ عورت بھلا ادب تہذیب اور پھر اس دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے کی اہل ثابت ہو سکتی ہے؟ سماجی و سیاسی مسائل پراس کی گرفت ہی کتنی ہے، صدیوں سے گھر کی چاردیواری میں مقید رہنے والی کے پاس تجربے کتنے ہیں؟

عصر حاضر کی نظم میں عورت کے جمال اور اس کی طلب کے بر عکس قانون کچھ اور کہتا ہے اور سماجی ضرورت کس چیز کی ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ عورت کی اوبجیکٹیفیکیشن سے ہی عورت کے جنسی استحصال کا نا تھمنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

اگرچہ یہ بات عیاں ہے کہ زنا بالجبر پر ایک وسیع قانون موجود ہے، جس میں بچوں اور ازدواجی زنا بالجبر کے اہم امور کا احاطہ کیا گیا ہے، لیکن یہ قانونی سطح پر اس کی عملی تشکیل کم ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ ہونے والے جذباتی مظالم کو درخور اعتنا اس لیے نہیں سمجھتے کہ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ عورت بھی بالکل ویسی ہی ہے جیسے ایک مکمل انسان ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرد۔ نہ کم نہ زیادہ۔ بالکل برابر۔

مرد نے مندرجہ ذیل پانچ بیانات میں سے کسی ایک کے تحت کسی بھی حالت میں عورت سے جماع کیا ہے تو وہ زنا بالجبر ہے

اس کی مرضی کے خلاف
اس کی رضامندی کے بغیر
اس کی رضامندی کے ساتھ، جب موت سے یا تکلیف کے خوف میں دلا کر رضامندی حاصل کی گئی ہو،

اس کی رضامندی کے ساتھ، جب مرد جانتا ہے کہ اس نے اس سے شادی نہیں کی ہے اور یہ رضامندی اس لئے دی گئی ہے کہ اس سے شادی کرے گا

جب کہ اس کی عمر سولہ سال سے کم ہو تو اس کی رضامندی کے ساتھ یا اس کے بغیر۔

قانون کے حامیوں نے دعوی کیا کہ اس آرڈیننس کے پیچھے منشا خواتین کو زنا جیسے گھناؤنے جرائم سے بچانا تھا، لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہوا۔

حقیقت میں، اس کا استعمال ان خواتین کو اذیت دینے کے لئے کیا گیا تھا جو اپنی پسند سے شادی کرتی ہیں، طلاق لینے کی خواہش مند بیویاں، طلاق یافتہ خواتین جو دوبارہ شادی کی خواہاں ہیں یا بچوں کی گرفت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں وغیرہ۔ یہ خواتین کے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کرنے والا ایک طاقت کا ذریعہ ہے۔

زنا آرڈیننس کو آخر کار تحفظ برائے خواتین (فوجداری قانون) ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ ترمیم کیا گیا۔

اس قانون نے ان نا انصافیوں کو براہ راست چیلنج کرنے کے لئے عملی تبدیلیاں کیں جو ایسے معاملات سے نمٹنے کے وقت نظام کا حصہ بن چکے تھے :

نکاح جیسے الفاظ کو خاص طور پر قانون سازی سے ہٹا دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایک خاص اثر ہو گا۔

لہذا جبری طور پر جماع کے دفاع کے طور پر نکاح کے تقاضے کو ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت کے مابین تعلقات غیر فطری ہے اگر جنسی تعلقات کسی عورت کی رضامندی کے خلاف ہو یا اسے مجبور کر کے اس کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ خواہ وہ اس کی بیوی ہو یا نہیں۔ زنا بالجبر ہی ہے

کیا پھر ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، 16 سال سے کم عمر کی لڑکی سے شادی زنا بالجبر ہے؟

ادب سماج کے ڈھانچے کی بنیادی اکائی مانا جاتا ہے۔ اخلاقی قدروں سے سماج کی تشکیل اور پہچان دونوں ہوتی ہیں۔ سماج میں عورت پر ہونے والے جذباتی حملے کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ طاقت کا بہیمانہ استعمال کر کے عورت کی سوچ کو قفل لگا دیے گئے ہیں۔ تاکہ وہ اپنا بچاؤ بھی نہ کر سکے۔

عورت کے لیے تشنہ لب شاعر اس کے خال و خط پر دیوان لکھتے ہوئے یہ بھول گئے کہ عورت کو سوچ اور مرضی کا اختیار قدرت نے عطا کیا ہے۔ عورت کی طرف سے مرد کی اسی پیرائے میں اگر تعریف کسی کو سننے کو ملے، جیسا کہ تین نظموں کی میں نے مثال پیش کی، تو عورت شاعرہ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں فاحشہ کہلائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments