مزدور رہنما غلام دستگیر محبوب
آزادی کے 77 برس گزر جانے کے باوجود پاکستان آج بھی اقتصادی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ برصغیر پر انگریز سامراج کے تسلط کے دوران ایک طرف اس دھرتی اور اس کی مٹی کے غداروں، مخبروں اور وطن دشمنوں کو نوازنے کے لیے وسیع تر جاگیریں الاٹ کی گئیں، تو دوسری طرف سامراجی استحصالی نظام کو دوام بخشنے، آزادی کے متوالوں کو سبق سکھانے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے بیوروکریسی کا وسیع تو جال بچھایا گیا۔ انہی دو قوتوں نے قیام پاکستان کے بعد ملک پر قبضہ جما لیا، جو اب تک جاری و ساری ہے۔
اپنے تمام تر ریاستی جبر و استبداد کے باوجود ہماری دھرتی نے ایسے ہونہار سپوت پیدا کیے، جو اپنی ساری زندگی اپنے وطن اور اس کی مٹی سے محبت کرنے اور دھرتی کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے دکھوں کا مداوا کرنے، انہیں سیاسی شعور دینے اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے اپنا تن، من اور زندگیاں قربان کرتے رہے۔ ایسے ہی ایک انتھک، بے باک، انڈر اور جدوجہد کا مینارا غلام دستگیر محبوب تھے، جو جمعہ 29 نومبر 2024 ء کو مختصر علالت کے بعد لاہور کے نواح میں واقع صنعتی علاقہ ’مرید کے‘ میں انتقال کر گئے۔ وہ اپنی ساری زندگی سماجی انصاف پر مبنی خوشحال معاشرے کی بنیادیں استوار کرنے کے لیے کوشاں رہے، وہ بھی ایک ایسی سماج، جس میں بالا دست طبقات و اشرافیہ نہیں بلکہ خلق خدا راج کرے۔ جہاں کے عوام امن، محبت اور آزادی کے نغمے گائیں اور ہر کسی کو آگے بڑھنے کے برابر مواقع میسر ہوں۔
غلام دستگیر محبوب کا شمار پاکستان کے نامور ترقی پسند سیاسی رہنماؤں، مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں کے سالاروں میں ہوتا ہے۔ وہ 9 ستمبر 1940 ء کو جہلم کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں ’پیپلی‘ تحصیل پنڈ دادن خان کے ایک محنت کش گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فتح محمد ایک چھوٹے کسان تھے اور اپنی محدود زرعی زمین پر کاشتکاری کرتے تھے۔ غلام دستگیر 6 بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے، جو محدود وسائل کی وجہ سے میٹرک کے بعد تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے۔
انہوں نے اپنے گاؤں سے چند میل کے فاصلے پر واقع غریب وال سیمنٹ فیکٹری کے شعبہ مکینکل میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہ خطرناک کام تھا، کیونکہ سب کارکنوں کو اونچے ٹاورز پر چڑھ کر کام کرنا پڑتا تھا۔ سب گھر والوں کو اس پر تشویش رہتی تھی اور وہ متبادل روز گار تلاش کرنے پر زور دیتے تھے۔ بالآخر انہیں 1964 ء میں مرید کے میں واقع کوہ نور ’راوی ریان‘ میں بطور سٹور کلرک ملازمت مل گئی اور وہ اپنے گاؤں کو خیرباد کہہ کر مرید کے منتقل ہو گئے۔ انہوں نے بعد ازاں 1970 ء میں شادی کر لی۔ ان کے 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں، لیکن بد قسمتی سے ایک بیٹی 2009 ء میں اپنی چھوٹی عمر میں ہی ایک حادثے کا شکار ہو کر انتقال کر گئی۔
راوی ریان میں ملازمت کے دوران انہوں نے فیکٹری مالکان اور انتظامیہ کی جانب سے مزدوروں کے ساتھ روا رکھا جانے والے ناروا سلوک، کام کے اوقات کار، چھٹیوں، شفٹ الاؤنس، چھٹیوں کی تنخواہ، مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے کے فقدان جیسے مسائل اور مزدوروں کے بے دریغ استحصال کو برداشت نہ کر پائے، اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ جلد ہی وہ علاقہ کے انتہائی نڈر، محنتی اور بے باک مزدور رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
انہوں نے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کے ورکرز آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی اور راوی ریان کی سی بی اے یونین کے انتخابات جیت کر پاکستان کے مستند مزدور رہنما کے طور پر اپنا لوہا منوا لیا۔ مرید کے آنے کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم و تربیت کا نیا سلسلہ شروع کیا، بالخصوص انگریزی اور ریاضی میں مہارت حاصل کر لی اور تحریر و تقریر پر عبور حاصل کر لیا۔ انہیں پہلے مکینکل اسٹور کیپر اور بعد ازاں ورکس اسٹور کیپر کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ بعد ازاں انہوں نے 1985 ء میں کینال پارک، مرید کے (ضلع شیخوپورہ) میں گھر بنا لیا اور ہمیشہ کے لیے وہیں کے ہو کر رہ گئے۔
کامریڈ غلام دستگیر محبوب سے راقم کا رشتہ نظریاتی بھی ہے، سیاسی بھی اور ہم سب مل کر پاکستان میں آزادی کی تکمیل اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ کامریڈ سے راقم کی پہلی ملاقات 1986 ء میں مرید کے میں نامور ترقی پسند رہنما ملک انور کے گھر پر ہوئی تھی۔ ان دنوں راقم انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم تھا، پاکستان سوشلسٹ پارٹی سے وابستہ، اور سوشلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے طلبا سیاست میں سرگرم تھا۔
پھر گاہے بگاہے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور ہم نے انقلابی سیاست کے خد و خال اور جدوجہد کی راہوں کو نئے سرے سے استوار کرنے پر بحث و تمحیض کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ کچھ عرصہ پاکستان قومی محاذ آزادی میں بھی سرگرم رہے، جس بارے سٹوک آن ٹرینٹ میں مقیم ہمارے نظریاتی ساتھی وقاص بٹ جی نے بھی کامریڈ غلام دستگیر محبوب کی انتقال کی خبر سن کر شیئر کیا تھا۔ بعد ازاں ہم نے بائیں بازو کی جماعتوں کے باہمی انضمام سے ایک متحدہ، منظم اور با عمل انقلابی جماعت کی تشکیل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 1990 ء کی دہائی میں قومی محاذ آزادی کے ساتھ انضمام کیا اور عوامی جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ باقاعدہ طور پر ہمارا حصہ بن گئے۔
پھر 1998 ء میں اچانک پارٹی رہنما معراج محمد خان نے بائیں بازو کی سیاست کو خیرباد کہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور عمران خان کے وفادار سپاہی کے طور پر پارٹی کے جنرل سیکریٹری بن گئے۔ لیکن بائیں بازو کے رہنماؤں کے لیے رولنگ الیٹ کی جماعتوں میں عزت اور رتبہ پانا اور اسے قائم رکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے دل برداشتہ ہو کر 2003 ء میں تحریک انصاف سے مستعفی ہو نے اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔
لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ کیونکہ ایک باشعور سچے انقلابی کے لیے ریاستی ظلم و استحصال تلے پستی اور بلکتی عوام کو دیکھ کر انہیں نظر انداز کر کے گھر بیٹھنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ راقم 23 مارچ 2005 ء کو اپنے آبائی شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہونے والے کسان کانفرنس کے انتظامات میں مدد کے لیے گیا تو معراج محمد خان اپنے پرانے ساتھی روزی خان کے ساتھ ایک روز قبل ہی وہاں تشریف لے آئے تھے، اور ان کے ساتھ ان کے پی ٹی آئی کے تجربے سمیت بہت سے پہلوؤں پر دلچسپ گفتگو رہی۔
کامریڈ غلام دستگیر محبوب جی سے میری ملاقات تقریباً بارہ برس بعد اسی کانفرنس میں ہوئی تھی۔ ان دنوں ان کے بیٹے ندیم دستگیر برطانیہ آ چکے تھے، اور انہوں نے مجھے ندیم کے ساتھ رابطہ رکھنے کی تاکید بھی کی تھی۔ وہ دو روز ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی رہے کیونکہ کانفرنس کے بعد پاکستان بھر سے آنے والے بائیں بازو کے رہنماؤں کے اجلاس جاری تھے، جن میں معراج محمد خان، عابد حسن منٹو، یوسف مستی خان، رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، چوہدری فتح محمد، اختر حسین، کنیز فاطمہ، افضل خاموش، شوکت چوہدری، میاں بشیر ظفر، فاروق طارق، راؤ طارق لطیف، نصرت بشیر ظفر نمایاں تھے۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کا وہی اجلاس بعد میں عوامی جمہوری تحریک کے نام سے بائیں بازو کے اتحاد کی بنیاد بنا تھا۔ اس کسان کانفرنس اور بعد ازاں بننے والے بائیں بازو کے اتحاد نے پاکستان بھر کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں میں ایک نئی امید اور جذبہ پیدا کیا اور بحث مباحثے اور سیاسی کارکنوں کے دباؤ کے نتیجے میں مرجرز کے ذریعے متحدہ پارٹی بنانے کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعد ازاں باہمی انضمام سے 2010 ء میں ورکرز پارٹی پاکستان اور 2012 ء میں عوامی ورکرز پارٹی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
اس سارے عرصہ میں ہمارے ساتھی کامریڈ غلام دستگیر محبوب نے اپنی جدوجہد کو بھرپُور انداز میں جاری رکھا اور وہ مرزا محمد ابراہیم، راؤ طارق لطیف، گلزار چوہدری، میاں بشیر ظفر، محمد اکبر، محمد یعقوب، اور صفدر حسین سندھو جیسے ہونہار مزدور رہنماؤں کے ہم سفر اور ہم عصر بن گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریلوے میں مرزا محمد ابراہیم اور منظور احمد رضی، لاہور کے کوٹ لکھپت صنعتی ایریا میں میاں بشیر ظفر، راؤ طارق لطیف اور گلزار چوہدری کا طوطی بولتا تھا تو مرید کے صنعتی ایریا میں غلام دستگیر محبوب، ملک حیات اور محمد یعقوب کا راج چلتا تھا۔
کبھی غلام دستگیر محبوب کی ورکرز آرگنائزنگ کمیٹی اور کبھی محمد یعقوب کی ٹریڈ یونین راوی ریان کی سی بی اے یونین کے انتخابات میں میدان مار لیتی تھی۔ ان کی ٹریڈ یونین سرگرمیاں راوی ریان تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ وہ ملکی سطح کے بہادر، بے باک اور مستقل مجاز مزدور رہنما اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ مقامی اور ملکی سطح پر ٹریڈ یونینز کی ترویج و ترقی، تعاون اور شراکت داری میں مہارت اور لگن سے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
انہوں نے کوہ نور گھی ملز فیروز والا، سوات سرامکس، شاہ تاج شوگر ملز، ایم بی دین اور بہت سے دیگر صنعتی اداروں میں ٹریڈ یونینز بنانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ مرید کے کے علاقہ کی ٹریڈ یونین تحریک میں ان کے ساتھیوں میں خادم بھٹی، عبداللہ بٹ، ملک حیات، چوہدری مشتاق، ملک انور، میاں پرویز، عابد حسین اور محمد اصغر شامل تھے۔
غلام دستگیر محبوب عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور بڑے ورسٹائل قسم کے سوشلسٹ رہنما تھے۔ انہوں نے کسانوں کو منظم کرنے میں بھی گرانقدر خدمات اور قربانیاں دیں۔ وہ پاکستان کسان کمیٹی میں بھی سرگرم کردار ادا کرتے رہے اور اسی تحریک میں تقریباً پانچ برس تک جیل کاٹی۔ مرید کے کے نواحی علاقہ ڈیرا سہگل میں 1977 ء میں بھٹو زرعی اصلاحات کے تحت مزارعوں اور کھیت مزدوروں کو زمینیں الاٹ ہوئی تھیں۔ پھر اچانک 16 مئی 2012 ء کو مرید کے پولیس نے سہگل خاندان کے ایما پر 150 سے زیادہ کسان خاندانوں کو پانچ مربہ ( 125 ایکڑ) اراضی سے بے دخل کرنے کے لیے ان کا محاصرہ کر لیا۔
وہ غریب کسان 1968 ء سے ان زمینوں پر کاشتکاری کر رہے تھے، لیکن ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے اقتدار پر قبضے کے بعد سپریم کورٹ کا ایک شرعی پنچ تشکیل دے کر ان زرعی اصلاحات کو غیر شرعی قرار دے دیا گیا تھا۔ سہگل خاندان، جو اس علاقہ کے سب سے با اثر خاندانوں میں سے ایک تھا، نے ان کسانوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ انہوں نے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن کسانوں نے بے دخلی کے اقدام کی بھرپُور مزاحمت کی۔
پھر 16 مئی 2012 ء کو پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرتے ہوئے ریاستی دہشت گردی کا ایسا میدان سجایا کہ اس سے 25 کے قریب کسان شدید زخمی ہو گئے۔ کسانوں نے جی ٹی روڈ پر مارچ کیا اور زخمیوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال مرید کے لے جانے کی کوشش کی تو پولیس نے شاہراہ بلاک کر دی اور انہیں ہسپتال لے جانے سے روک دیا۔ پولیس کی بربریت کی خبر علاقہ میں پھیل گئی اور اس تعطل کو حل کرنے لیے علاقہ کے نامور مزدور رہنما اور عوامی ورکرز پارٹی کے غلام دستگیر محبوب، ملک حیات (مرحوم) اور صفدر حسین سندھو فوراً اس مقام پر پہنچ گئے۔
اسی دوران ڈی ایس پی شاہد نیاز نے احتجاج کرنے والے کسانوں پر فائرنگ کر دی۔ پولیس کی فائرنگ سے ایک راہ گیر ٹرک ڈرائیور عارف خان کو گولی لگ گئی۔ پولیس نے غلام دستگیر محبوب اور 250 کسانوں کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت قتل کیس میں نامزد کر دیا۔ اس عرصہ میں سہگل خاندان غریب کسانوں اور مزارعوں کی خواتین اور بچوں کو بھی چوری اور ڈکیتی کے مقدمات بنا کر ہراساں کرتے رہے، لیکن ڈیرا سہگل کے غریب کسانوں اور ان کے اہل خانہ نے ہمت نہ ہاری، اور ڈٹے رہے۔ پاکستان کسان کمیٹی اور عوامی ورکرز پارٹی نے بھی ان کا بھرپُور ساتھ دیا۔
اس واقع کے بعد 25 اکتوبر 2012 ء کو پولیس نے غلام دستگیر محبوب اور 4 کسان کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں 17 جولائی 2013 ء کو عارف خان کے بھائیوں نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کے جرم میں ڈی ایس پی کے خلاف عدالت میں شکایت درج کروا دی، تاہم پولیس نے مقتول عارف کے بھائیوں میں سے ایک کو غلام دستگیر محبوب پر الزام لگانے پر مجبور کیا۔ اس سے دو ماہ قبل پولیس نے مقتول کے دوسرے بھائی پر اپنی شکایت واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا، لیکن عدالت نے اس کی اجازت نہیں دی تھی، کیونکہ دونوں اطراف سے دلائل اور جوابی دلائل مکمل ہو چکے تھے۔
غلام دستگیر اور اس کے ساتھی کسان کارکن طویل عرصہ تک جیل کی سلاخوں پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے رہے۔ اس عرصہ میں ان کے مقدمات کی پیروی نامور مزدور رہنما صفدر حسین سندھو ایڈووکیٹ، چوہدری طارق جاوید ایڈووکیٹ، لیاقت نصیر ایڈووکیٹ، پرویز عنایت ملک ایڈووکیٹ اور دیگر نے کی اور ان کی معاونت عابد حسن منٹو کرتے رہے۔ اس بربریت کے خلاف سیاسی پریشر کو بھی استعمال کیا گیا اور 23 مئی 2017 ء کو ملک بھر میں عوامی ورکرز پارٹی نے اور لندن میں عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ نے غلام دستگیر، ان کے ساتھیوں اور گلگت بلتستان کے انقلابی رہنما بابا جان کی رہائی اور جھوٹے مقدمات کی واپسی کے لیے مظاہرے کیے ۔
بعد ازاں 7 جولائی 2017 ء کو ان کے وکلا نے سات گھنٹے تک عدالت میں اپنے حتمی دلائل دیے اور 8 جولائی کو استغاثہ نے جوابی دلائل دیے۔ بالآخر 9 جولائی 2017 ء کو اے ٹی سی جج نے کامریڈ غلام دستگیر محبوب سمیت تمام ملزمان کو ان پر لگائے گئے تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے فیصلہ سنایا اور پولیس اور جیل حکام کو انہیں با عزت بری کرنے کا حکم دیا۔ ان کے وکلا نے استفسار کیا کہ 77 سالہ غلام دستگیر کو جو تقریباً 5 برس جیل میں گزارنے پڑے اور ان سالوں میں جیل میں جس ذہنی اذیت اور مشکلات سے گزرے، ان کی تلافی کون کرے گا؟
انہوں نے استغاثہ، تفتیش اور عدالتی نظام کی خامیوں کو مورد الزام ٹھہرایا، جس کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ غریب لوگوں کو جیلوں میں پابند سلاسل رکھا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ قیدی امید اور زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں، جبکہ عدالتی کارروائی برسوں تک جاری رہتی ہے۔ انہوں نے حالیہ مقدمات کی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، جن میں سپریم کورٹ نے دو مجرموں کو ان کی موت کے بعد بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کر دیا تھا۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بی تعداد نے جیل کے دروازے پر اپنے اسیر ساتھیوں کا استقبال کیا اور ایک بڑے جلوس کی صورت میں ان کے گھر تک لے کر گئے۔
کامریڈ غلام دستگیر جی کو تارخ، ادب اور ثقافت سے بھی گہرا لگاؤ تھا اور انہوں نے گھر کے ایک کونے میں منتخب کتب کی لائبریری سجا رکھی ہے۔ ان میں چینی انقلاب کے عظیم رہنما ماؤ زے تنگ، کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، ولادیمیر لینن کی تنصیبات، چین کی سماجی ترقی کے طریقوں پر لٹریچر کے علاوہ انقلابی شاعر فیض احمد فیض، حبیب جالب اور ترقی پسند مصنفین، بالخصوص سبطِ حسن، احمد سلیم، ڈاکٹر مبارک علی، سی آر اسلم، عابد حسن منٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے ادیبوں اور تخلیق کاروں کی تنصیبات شامل ہیں۔ انہیں متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا، جن میں 1994 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے جدوجہد کے کارواں میں سب سے آگے رہنے کا گولڈ میڈل، 1999۔ ء میں روزنامہ پاکستان ’آزادی صحافت ایوارڈ‘ اور 2023 ء میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے لائف لانگ جدوجہد کرنے پر ’راؤ طارق لطیف ایوارڈ آف آنر‘ سے نوازا گیا۔
غلام دستگیر جی خاندانی تعلقات، باہمی بھائی چارے اور محبت کا اعلیٰ امتزاج تھے۔ وہ خاندان کے پڑھے لکھے نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور ان کے درمیان کمیونیکیشن کے پل کا کردار ادا کرتے تھے۔ وہ زندگی بھر خاندانی انضمام اور باہمی تنازعات کو حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ انہوں نے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں معاونت اور ان کی دلچسپیوں کے پیش نظر کیریر بنانے میں مدد فراہم کرتے رہے۔
وہ اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتے تھے اور اپنی شریک حیات کے ساتھ 54 سالہ طویل محبت کا رشتہ تھا۔ انہیں اپنے انتقال سے ایک ماہ قبل سانس کی تکلیف شروع ہوئی، جو بڑھتی ہی چلی گئی اور ایک دل انہیں اپنے اہلِ خانہ، ساتھیوں اور کامریڈوں سے چھین کر لے گئی۔ ان کی جدوجہد ان کے ساتھیوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گی اور سماجی تبدیلی کی اس انقلابی جدوجہد میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ہم اپنے محترم کامریڈ غلام دستگیر محبوب اور ان کے ساتھیوں کے عزم و قربانیوں اور پاکستان کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات، کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے عمر بھر جدوجہد کرنے اور ریاستی جبر کا وقار کے ساتھ سامنا کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ الوداع کامریڈ غلام دستگیر، آپ جدوجہد کے ہر قدم پہ یاد آئیں گے۔
- جاگیرداری سماج میں جمہوری حقوق کے خواب - 22/01/2025
- مزدور رہنما غلام دستگیر محبوب - 14/12/2024
- مارکسی راہنما سیتارام یچوری انتقال کر گئے - 26/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).