سعیدہ گزدر۔ ترقی پسند ادب کا ستارہ
پاکستان میں ترقی پسند خیالات کے داعی ایک ایک کر کے ہم سے بچھڑتے چلے جا رہے ہیں۔ راحت سعید جو ”ارتقا“ ادبی و سماجی مجلے کے بانی ارکان میں شامل تھے اور ترقی پسند تحریک کو جاری رکھنے میں مصروف عمل تھے 23 اکتوبر کو کوچ کر گئے۔
اس کے بعد دو ہفتوں کے اندر بائیں بازو کی سیاست اور ترقی پسند ادب کی مایہ ناز شخصیت سعیدہ گزدر بھی روانہ ہو گئیں۔ اُن کا انتقال 7 نومبر 2024 کو ہوا۔
الہ باد میں پیدا ہونے والی سعیدہ گزدر نے 1943 میں آنکھیں کھولیں اور اکیاسی برس کی عمر میں اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لیں۔
اُنہوں نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ پھر وہ ایک بہت اچھی افسانہ نگار اور شاعر کے روپ میں ابھریں۔
اُن کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جس میں میڈیکل ڈاکٹر بھی تھے اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی، فلم ساز بھی تھے اور دانش ور بھی، صحافی بھی تھے اور اساتذہ بھی۔ سعیدہ گزدر کے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد سرور تھے جو معروف صحافی بینا سرور کے والد اور پروفیسر ذکیہ سرور کے شوہر تھے۔
ڈاکٹر محمد سرور 1950 کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) کے سرکردہ رہ نما تھے۔ سعیدہ گزدر کے شوہر مشتاق گزدر معروف فلم ساز اور فلمی مورخ تھے، ساتھ ہی ایک محترم دانش ور اور ترقی پسند سیاست کے سرگرم کارکن بھی۔
سعیدہ گزدر کی تخلیقی صلاحیتیں اُن کے فلم اسکرپٹ میں بھی نظر آتی ہیں اور شاعری اور افسانوں میں بھی۔ اُنہوں نے ترقی پسند تحریک کی ایک بڑی شخصیت سید سبط حسن کے ساتھ مل کر ”پاکستانی ادب“ نامی ادبی مجلّہ 1970 کے عشرے میں جاری کیا مگر بدقسمتی سے اس کے صرف دو شمارے اب دستیاب ہیں ایک تو امیر خسرو نمبر اور دوسرا امریکی تحریروں پر مشتمل خاص شمارہ۔ وہ ایک اچھی مترجم بھی تھیں اور عالمی ادب کے شان دار تراجم اپنی وراثت میں چھوڑے ہیں۔
بنگالی مصنف شہید اللہ قیصر کے ناول کا ترجمہ ”ملاح کی بیوی“ کے عنوان سے کیا تو اُسے بہت سراہا گیا۔ شہید اللہ قیصر مشرقی بنگال اور پھر مشرقی پاکستان میں جمہوری جدوجہد کے سرگرم کارکن تھے اور بنگلہ زبان کے لیے بھی اُن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
1952 میں جب مشرقی بنگال میں بنگلہ زبان کے نفاذ کی تحریک شروع ہوئی تو اس وقت شہید اللہ قیصر اس کے نمایاں رہ نماؤں میں شامل تھے اور پھر چند سال بعد انہوں نے جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔
1958 میں وہ قید کر دیے گئے اور پسِ زنداں انہوں نے اپنے اس عظیم ناول کو لکھنے کا آغاز کیا جس کا بنگلا عنوان ”سارنگ بو“ یا ملاح کی بیوی تھا۔ یہ ناول 1962 میں اشاعت پذیر ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ جس نے قیصر کو قید میں رکھا اور انہیں سماج دشمن عناصر میں شمار کیا اسی نے اپنے رائٹرز گلڈ کے ذریعے شہید اللہ قیصر کے ناول کو بہترین ناول کا ایوارڈ بھی دیا۔
1971 میں بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے دوران جہاں سینکڑوں دانشوروں کو اغوا کر کے قتل کیا گیا وہیں شہید اللہ قیصر کو بھی جماعتِ اسلامی کے رضا کاروں نے اغوا کر کے غائب کر دیا جس کے بعد اُن کا کوئی سراغ نہ ملا۔
سعیدہ گزدر نے اُس ناول کو انگریزی سے اردو میں منتقل کیا اور بہترین ترجمے کے ذریعے اس کو اردو دان لوگوں کے لیے میسر کیا۔
”ملاح کی بیوی“ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے خاوند کی سمندر سے واپسی کا انتظار کرتی رہتی ہے اور سال گزرتے رہتے ہیں۔ اُس دوران وہ اپنی عزت و آبرو کی بھرپور حفاظت کرتی ہے مگر اُس کا خاوند واپس آ کر اس پر آبرو باختہ ہونے کا الزام دھر دیتا ہے۔
ناول کے اختتام میں ایک عظیم سیلاب کی لہریں ان کے گھروں اور دیہات کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
سعیدہ گزدر نے اپنے ترجمے میں اس ناول کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ ان کے الفاظ کا چناؤ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں بنگال کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور وہاں عوام پر ہونے والے جبر کا پورا ادراک تھا۔
1970 اور 1980 کے عشروں میں سعیدہ گزدر نے کراچی میں بائیں بازو کی سیاست میں بھرپور حصہ لیا اور ترقی پسند ادبی حلقوں میں مصروفِ عمل رہیں۔ جب جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی سویلین حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کر کے اقتدار غصب کیا تو ملک پر ایک دقیانوسی حکمران طبقہ مسلط کر دیا گیا۔ اس حکومت نے ملک کی گھڑی کا پہیہ الٹا چلانے کی کوشش کی اور پے درپے آئین کی خلاف ورزیاں کیں۔
اظہارِ رائے کی آزادی کو سلب کر لیا گیا اور سیاسی کارکنان پابند زنداں کر دیے گئے۔ صحافیوں کو کوڑے مارے گئے اور ملک پر ظلم و بربریت کا راج قائم کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے تقریباً اسی طرح ملک میں جمہوریت کا جنازہ نکالا جیسے اس سے قبل جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نکال چکے تھے۔ سعیدہ گزدر اس وقت ملک میں جمہوری جدوجہد کی صف اول میں کھڑی تھیں۔
ان کے شوہر مشتاق گزدر بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے فوجی آمر کا سیاہ پردہ چاک کر رہے تھے۔ سعیدہ گزدر 1979 میں اپنے خاوند کی فلم (They Are Killing the Horse) یا ”وہ گھوڑے کو قتل کر رہے ہیں“ نامی فلم کا سکرپٹ تحریر کیا۔ اس فلم نے دستاویزی انداز اختیار کرتے ہوئے ایک ایسی جوان لڑکی کی افسانوی کہانی پیش کی جس کے جنسی جذبات کچلے ہوئے ہیں۔ مشتاق اور سعیدہ نے اپنے تخلیقی فن استعمال کرتے ہوئے خواتین پر سماجی جبر کو واضح کیا جو پاکستانی معاشرے میں اب تک موجود ہے۔
اس طرح سماج میں پھیلنے والے ذہنی امراض کی صورتِ حال بھی اجاگر کی۔ اس فلم میں سعیدہ گزدر کے اسکرپٹ نے علامتی طور پر ایک ایسے سماج کا نقشہ کھینچا ہے جو خوابیدہ ہے اور کسی ایسے سوار کا منتظر ہے جو آ کر سماج کے مسائل حل کردے۔
فلم کے آغاز میں لڑکی ایک ماہر نفسیات کے کلینک پر بیٹھی ہے اور ماہر نفسیات اس کی میڈیکل ہسٹری لے رہا ہے۔ فلیش بیک میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک بس میں اپنے کالج پہنچ کر برقعہ اُتار دیتی ہے اور پھر ایک نوجوان لڑکے کو اپنے تصور میں دیکھتی ہے جو موٹر سائیکل سوار ہے۔
پھر وہ ٹیلی پیتھی سیکھنے کے لیے موم کو گھورتی ہے مگر اُس کے شعلے میں بھی اسے نوجوان مرد نظر آتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے خیال میں سہاگ رات منا رہی ہے۔
پھر وہ لڑکی اپنے تصور میں ایک مذہبی جلوس دیکھتی ہے جس میں ایک گھوڑے کو قتل کیا جاتا ہے جس کو دیکھ کر لڑکی بے ہوش ہوجاتی ہے کیوں کہ گھوڑا اس کے لیے نجات دہندہ کی علامت ہے اور اس کا قتل دراصل آزادی کی آرزو کا قتل ہے۔
پھر یہ فلم سیاسی رنگ لے لیتی ہے جس میں مارشل لاء حکام کے تحت لوگوں کو سرعام کوڑے مارے جا رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ فلم صرف آدھے گھنٹے کی ہے مگر اس میں آمریت کے خلاف بڑا واضح پیغام دیا گیا ہے۔
اس دوران میں سعیدہ گزدر افسانے بھی لکھتی رہیں جن میں جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت کی جانب سے سماج پر مسلط ظلم و ستم کو پیش کیا گیا ہے۔ "آگ گلستان نہ بنی” ان کا پہلا افسانوی مجموعہ تھا جو 1980 میں شائع ہوا۔
مارشل لاء حکومت نے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی مگر 1983 میں جونیجو حکومت آنے کے بعد یہ کتاب آسانی سے دست یاب ہو گئی۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق خود اپنی سوچ کے حامل مصنفین کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا جو سماج کو مزید مذہبی انتہا پسندی کی طرف لے جا رہے تھے اور اردو ادب میں مذہب اور صوفی سوچ کو پروان چڑھا رہے تھے۔
1995 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران میں پاکستان اکادمی ادبیات نے مزاحمتی ادب پر خاص شمارہ شائع کیا تو اس میں سعیدہ گزدر کا ایک افسانہ بھی شامل کیا گیا۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ اس کتاب پر پابندی کیوں لگی ذرا یہ اقتباس پڑھیے جو افسانے بعنوان ”کوئل اور جنرل” سے لیا گیا ہے۔
کہانی کے آغاز میں ایک فوجی جنرل کی پُر تعیش طرز زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ جنرل اور اس کی بیوی ایک اسکول کی تقریب میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں جنرل صاحب مہمان خصوصی ہیں۔ اسکول کا عملہ بڑا مسرور ہے کہ اتنی بڑی شخصیت اُن کی تقریب میں تشریف لا رہی ہے۔
”لڑکیاں مارچ پاسٹ کر رہی تھیں“
”لیفٹ رائٹ“
”لیفٹ رائٹ“
”لیفٹ“ لیفٹ لیفٹ ”
آج جنرل نے لیفٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سے نوجوانوں اور طالب علموں کی سزاؤں کے فیصلوں کی توثیق کی تھی ”تیسرے کوڑے کے بعد بہت گاڑھا گاڑھا خون نکلتا ہے۔ بالکل آپ کے سامنے رکھے کے ان پھولوں کی طرح“ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دبلے پتلے کمزور آدمیوں میں اتنا رنگ دار خون کہاں سے آتا ہے ”سزاؤں کی تکمیل کے بعد ایک میجر نے تفصیل سناتے ہوئے کہا تھا“
یہ ہماری تاریخ کا تاریک ترین دور جو ہمارے طالب علموں کو مطالعہ پاکستان کی درسی کتابوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔ سعیدہ گزدر نے ان واقعات و سانحات پر کہانیاں رقم کی اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر لیں ورنہ ایسے بہت سے حالات و واقعات ”غیر سیاسی“ ادب ڈھیر میں گم ہو جاتے۔
سعیدہ گزدر کے افسانے صرف سیاست اور جبر کے گرد نہیں بل کہ کچھ افسانے نوستلجیا سے بھرپور ہیں اور تقسیم سے قبل کے دنوں کی یاد دلاتے ہیں۔ اُن کا افسانہ ”ہندوستانی۔ پاکستانی“ ایسی ہی ایک کہانی ہے جو لندن میں شروع ہوتی ہے جہاں ایک پاکستانی مرد احمد اور ایک ہندوستانی عورت نجمہ عرصے بعد ملتے ہیں۔
بہت سال پہلے انہوں نے لندن میں ساتھ تعلیم حاصل کی تھی اور اب وہ بیتے ہوئے دن یاد کرتے ہیں جب وہ لندن میں طالب علم تھے۔ پاکستان نیا نیا بنا تھا اور احمد جو ہندوستان سے لندن آیا تھا اس کا خاندان پاکستان ہجرت کرچکا تھا۔ احمد کو کراچی یونی ورسٹی سے پڑھانے کی ملازمت پیش کی جا چکی تھی مگر نجمہ اسے ہندوستان واپس لے جانا چاہتی تھی جہاں وہ ملازمت کر سکتا تھا۔
وہ ریڈیو پر خبر سنتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی صورت حال بہت نازک ہے اور ہر طرف ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں۔ احمد چاہتا ہے کہ نجمہ اس کے ساتھ پاکستان چلے۔
پھر احمد اپنے خیال میں یاد کرتا ہے کہ وہ کراچی کی بندرگاہ کے قریب ہے۔ چار سال قبل وہ بمبئی سے لندن گیا تھا جب وہ ہندوستانی شہری تھا مگر اب وہ ایک نئے ملک کی بندرگاہ کراچی پر اترنے والا تھا۔
کراچی یونی ورسٹی میں ملازمت کرنے کے بعد جو سب سے پہلا اعتراض اس پر کیا گیا وہ یہ تھا کہ وہ ”آداب“ کیوں کہتا ہے اور سلام کیوں نہیں کرتا۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والی ”خدا حافظ“ اور ”اللہ حافظ“ کی گفتگو سے پہلے بھی یہ معاملہ چل رہا تھا۔
جامعہ کراچی میں احمد کے ایک رفیقِ کار نے زور دے کر یہ بات کہی کہ ”آداب“ ہندوؤں سے ملاقات کے وقت کہا جاتا تھا مگر اب ایک مسلم اکثریتی ملک میں آداب کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔
احمد ایک روشن خیال اور ترقی پسند استاد تھا جسے ذہین طلبا و طالبات کو پڑھانے میں مزا آتا تھا۔ جب وہ جامعہ کراچی کے کتب خانے کے لیے مزید کتابیں منگوانا چاہتا ہے تو وائس چانسلر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ سب ”کمیونسٹ پروپیگنڈے“ پر مبنی کتابیں ہیں۔
احمد پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی کلاس میں کارل مارکس کے حوالے بہت دیتا ہے اور روسی انقلاب اور فرنچ انقلاب کی باتیں کرتا ہے۔ احمد کو محسوس ہوتا ہے کہ جامعہ کراچی تعلیمی ادارے سے زیادہ کوئی جاسوسی ادارہ ہے جہاں دم گھٹتا ہے اور متبادل خیالات کی کوئی گنجائش نہیں جو طلبا و طالبات کو پڑھائے جا سکیں۔
وائس چانسلر کو صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسلامی نظریات اور نظریہ پاکستان کی تعلیم دی جائے۔ اصرار کیا جاتا ہے کہ جامعہ کراچی میں صرف وہ تاریخ پڑھائی جائے گی جس کو مذہبی اور قوم پرستانہ نقطہ نظر سے لکھا گیا ہو۔
احمد جوابی وار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس طرح تو یونی ورسٹی ایک مدرسے کی شکل اختیار کر لے گی جس سے تعلیمی معیار بہت گر جائے گا۔ مگر وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ تمام تعلیمی اداروں کو مسجدوں کی طرح ہونا چاہیے جہاں اسلامی تعلیمات کا بول بالا ہو۔ وائس چانسلر کے دفتر کی دیوار پر بڑی تصویر ٹنگی ہے جس میں جنرل ایوب خان کو اعزازی اسناد پیش کی جا جا رہی ہیں۔
بالآخر احمد ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور ایک بین الاقوامی ادارے میں ملازمت شروع کر دیتا ہے۔
خیال رہے کہ یہ افسانہ 1950 اور 1960 کے عشرے کے پاکستان کی عکاسی کرتا ہے مگر یہ سب آج کے پاکستان سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ جب کہ ہم اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ ملک میں انتہا پسندی کیوں بڑھ رہی ہے۔ ہم اتنے بھولے بن جاتے ہیں کہ جیسے ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اس انتہاپسندی کی جڑیں کہاں پر تھیں۔
سعیدہ گزدر جیسے مصنفین ملک میں بڑھتی انتہا پسندی کی طرف مسلسل اشارے کر رہے تھے مگر حکم ران طبقوں کو کچھ سننے سمجھنے کی عادت نہیں تھی اور اب بھی یہی ہو رہا ہے۔
سعیدہ گزدر کی ایک اور شان دار کہانی کا عنوان ہے ”آخری منزل“ کہانی کا آغاز ایک خبر سے ہوتا ہے جس میں کسی زیرِ تعمیر عمارت کے گرنے سے پانچ مزدوروں کے مرنے کی اطلاع ہے۔
ایک اٹھارہ سالہ مزدور کی موت کے سرٹیفکیٹ پر لکھا ہے۔
نام : نامعلوم
باپ کا نام : نامعلوم
پتا : نامعلوم
کہانی کے آگے بڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دیہی علاقے سے کراچی آنے والے ایک میاں بیوی کو سڑک پر ایک گمشدہ بچہ روتا ہوا ملتا ہے جسے وہ اپنے گاؤں لاکر پال پوس کر بڑا کرتے ہیں، جب اس لے پالک بچے کا باپ فوت ہوجاتا ہے تو ماں اسے اصل کہانی سنا کر شہر واپس روانہ کرتی ہے کہ جاکر اپنے اصل باپ کو تلاش کرو۔
”ٰ آگ گلستاں نہ بنی“ بھی ایک بہت اچھا افسانہ ہے جس کا سومیرین ”داستانِ گل گامش“ سے آغاز ہوتا ہے۔ جس میں ان کیدو نامی ایک کردار ظلم و جبر کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
سعیدہ گزدر اس افسانے میں بتاتی ہیں کہ ایک طالب علم لڑکی کا دوست جمہوریت کے لیے لڑتا ہے۔ اب اس لڑکی کو تفتیشی افسروں کا سامنا ہے جو اس سے دوست کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں تاکہ اس کی تفصیلات معلوم کی جا سکے۔ افسر معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آمریت کے خلاف لڑنے والے کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مگر لڑکی ثابت قدم رہتی ہے اور کچھ نہیں بتاتی۔
لڑکی یاد کرتی ہے کہ کس طرح وہ لائبریری میں ملے تھے اور اُن کی دوستی پروان چڑھی تھی۔ اس لڑکے نے اپنی دوست کی غیر سیاسی شخصیت کو بتدریج سیاسی شعور دیا تھا۔ اس کہانی کے ایک حصے میں ایک گدھے کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو گدھا گاڑی پر لدے بھاری بوجھ کو کھینچ نہیں پاتا۔ گدھے بچارے کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا ہے اور اس کی کھال سے خون رسنے لگتا ہے۔
سعیدہ گزدر نے اس منظر میں ایک ایسی قوم کا علامتی نقشہ کھینچا ہے جو آمریت کے کوڑوں سے لہو لہان ہے۔ ایک اور افسانہ ”چڑھاوے کی چادر“ ہے۔ جس میں ایک لڑکی کی شادی ایک عمر رسیدہ شخص سے کردی جاتی ہے۔ جب لڑکی حاملہ نہیں ہو پاتی تو اسے ایک مزار سے دوسرے مزار لے جایا جاتا ہے اور اسے بانجھ ہونے کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں۔ جب وہ ایک روحانی بابا سے دوسرے کے پاس لے جائی جاتی ہے تو بالآخر تنگ آ کر اپنے شوہر پر چیخ پڑتی ہے کہ وہ خود اپنی نامردی کا علاج کیوں نہیں کراتا۔
جس معاشرے میں مرد کسی کو جواب دہ نہ ہو وہاں خواتین کو عام طور پر نا انصافیوں کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
دیگر افسانوں میں ”دھارا“، ”نیلم“، ”لدتی“ اور ”تمغہ“ شامل ہیں۔ ”آگ گلستاں نہ بنی“ افسانوں کا ایسا مجموعہ ہے جسے ہمارے طالب علموں کو ضرور پڑھایا جانا چاہیے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے شاید ہی کسی کالج یا اسکول میں آپ کو یہ کتاب ملے جہاں نسیم حجازی، قدرت اللہ شہاب، بانو قدسیہ اور اشفاق احمد جیسوں کی درجنوں کتابیں دست یاب ہوں گی۔ اس سے ہمارے تعلیمی اداروں میں حکام کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ جتنے دقیانوسی اور پسماندہ ذہنیت کے مصنف ہوں گے اسی تعداد میں آپ کی کتابیں کالجوں میں ہوں گی۔
1982 میں سعیدہ گزدر کی شاعری کا مجموعہ ”طوق و دار کا موسم“ شائع ہوا جس کی شاعری خاصا سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے مثلاً ”قیدی گاتے ہیں“ ، ”تمہاری سالگرہ پر“ ، ”کیسے ہو“ اور ”فیصلہ“ ۔
ان کی دو نظمیں جو مجھے خاص طور پر پسند ہیں ”ٹھیک دو بجے“ اور ”ایک خبر“ ہیں۔ ”ٹھیک دو بجے“ کو سعیدہ گزدر نے اپنے اگلے مجموعے ”زنجیر روز و شب“ میں ”صبح ہونے والی ہے“ کے نام سے شامل کیا ہے۔ اس میں اس رات کا ذکر ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دی گئی۔
صبح کے دو بجنے والے ہیں
لیکن رات کا اندھیرا ہے
شدید حبس اور وحشت بھرا سناٹا ہے
خوابوں میں ڈوبی گہری نیند سے جگانے آئے ہیں
اُٹھو نہا دھو لو
اور جو کہنا ہے کہہ ڈالو
مالک تو گواہ ہے
یہ سزا نہیں، قتل ہے
سعیدہ گزدر کو دنیا بھر میں جدوجہد کرنے والے مزدوروں اور کسانوں کا خیال رہتا تھا۔ اُن کی نظم ”ایک خبر“ جو بعد میں دہشت گردی کے عنوان سے بھی شائع ہوئی ایل سیلوا ڈور کے کسانوں کی جدوجہد کے متعلق تھی۔
لاکھوں جمع ہوتے ہیں
ایک آواز میں کہتے ہیں
ہم بھوکے ہیں
ہم ننگے ہیں
اور برسوں سے بے کار ہیں
کیوں غلامی ہی ہمارا مقدر ہے؟
بندوق ٹھونک کر جنرل گرجے
پیچھے ہٹو
راستہ چھوڑو
گھروں کو پلٹو
شریفانہ درخواست لکھو
یہ دہشت گردی ہے
قانون کی خلاف ورزی ہے
ہم سعیدہ گزدر کو ہمت و حوصلے کی ایک توانا آواز کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اُنہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری گو کہ زندگی کے آخری سال وہ نسیان کی بیماری کا شکار رہیں۔ اب شہر میں اُن جیسے باقی ہی کہاں ہیں۔
- سعیدہ گزدر۔ ترقی پسند ادب کا ستارہ - 24/12/2024
- داریوش مہر جوئی اور ایرانی سنیما - 12/11/2024
- متوازی سنیما کیا ہے؟ - 01/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).