حوریم سلطان سے کوسم سلطان تک: سلطنتِ عثمانیہ کی شاہی کنیزیں جو کسی ملکہ جتنی بااثر تھیں


18 ویں صدی کی ایک ترک عورت کا پورٹریٹ
18ویں صدی کی ایک ترک عورت کا پورٹریٹ

طور خان سلطان اور فرانسیسی توپوں کی سلامی

پیئرس نے والدہ سلطان کے سیاسی کردار کی مثال کے طور پر طورخان سلطان کی زندگی سے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ سن 1670 کی بات ہے جب ان کے بیٹے اور اس وقت کے سلطان محمد چہارم استنبول میں موجود نہیں تھے۔

تفصیل کے مطابق فرانس کے بادشاہ لوئی چہاردہم کے سفیر مرکویس د نوانتیل کے بحری جہاز نے استنبول آمد پر شاہی محل کے سامنے سے گزرتے ہوئے روایت کے مطابق توپوں کی سلامی نہیں دی جس سے پورے شہر میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ شہر میں دوسرے ممالک کے سفیروں نے بھی کہا کہ فرانس نے سب کے مفاد کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

پیئرس بتاتی ہیں کہ والدہ سلطان طورخان اپنے تمام خدمتگاروں کے ساتھ ایک دن شاہی محل کے میدان میں گئیں اور مطالبہ کیا کہ فرانسیسی جہاز سے ان کے نام کی شاہی سلامی دی جائے۔ فرانسیسی جہازوں کو فوراً رنگ برنگے جھنڈوں سے سجایا گیا اور توپوں کا فائر شروع ہو گیا۔ اسی دوران شاہی محل کی توپوں سے بھی والدہ سلطان کو سلامی دی جانے لگی۔

شہر کے لوگ اتنی گھن گرج سے پریشان ہو گئے۔ پیئرس بتاتی ہیں یہ عمل اس وقت رکا جب ایک عثمانی ایڈمرل نے رپورٹ کیا کہ اس شور سے شہر کی حاملہ عورتوں کے حمل گر رہے ہیں۔

حوریم سلطان کے حکم پر بنا ایک حمام
16ویں صدی میں حوریم سلطان کے حکم پر بنا ایک حمام

کنیزیں ہی کیوں بیویاں کیوں نہیں؟

لیسلی پیئرس بتاتی ہیں کہ پہلے دو سلطانوں کے دور میں اناطولیہ کی شہزادیوں کے ساتھ ہونے والے نصف درجن شادیوں کے بعد تمام سلطانوں کا تعلق ایسی عورتوں کے ساتھ رہا جو ایک کے سوا پیدائشی طور پر ترک تھیں نہ مسلمان۔ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے پیئرس لکھتی ہیں کہ اس دور کے یورپی مبصرین دو جواز پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ سلطان تیمور لنگ کے ہاتھوں شکست کے بعد جو سلوک عثمانی سلطان بایزید کی بیوی کے ساتھ ہوا وہ نھیں چاہتے تھے کہ آئندہ کسی سلطان کی بیوی کے ساتھ ہو اور دوسری وجہ اسلام میں بیویوں کا جائداد میں حق تھی۔

پیئرس کہتی ہیں کہ یہ بہت مشکل ہے کہ عثمانی سلطانوں نے کوئی پالیسی مستقبل میں شکست کے امکان کے مدنظر بنائی ہو۔ وہ لکھتی ہیں کہ کنیزیں اسلامی تاریخ میں موجود رہی ہیں اور پہلے بھی دوسری سلطنتوں میں بادشاہوں کی مائیں غلام کنیزیں رہ چکی تھیں۔

پیئرس کنیزوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا موازنہ ریاست کی انتظامیہ اور فوج میں غلام بنا کر لائے گئے لڑکوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت سے کرتی ہیں۔ وہ واضح کرتی ہیں کہ لڑکوں کی بھرتی کے اس نظام کا امریکہ غلام بنا کر لے جانے والوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ سلطنت عثمانیہ کے یہ غلام ایک سو سال کے اندر ریاست کے اعلی ترین فوجی اور انتظامی عہدوں تک پہنچ چکے تھے۔

پیئرس کہتی ہیں کہ شاہی حرم کے نظام کا ارتقا بھی کچھ اسی طرح ہو رہا تھا اور ممکن ہے کہ غلام عورتوں کا بھی اسی طرح کردار بڑھ رہا ہو۔

اس کے علاوہ کنیز کسی ایسے بندھن کے ساتھ بھی نہیں آتی تھی جو کسی شاہی خاندان کی ایک آزاد مسلمان عورت کے ساتھ شادی کا لازمی جزو تھا لیکن پیئرس لکھتی ہیں کہ جہاں شادیاں ہوئیں بھی وہاں بھی بچے کنیزوں سے پیدا کیے گئے۔

’شاہی خاندانوں سے آئی بیویوں کو بچے پیدا کرنے کا حق نہ دینا ان خاندانوں کی حیثیت کم کرنے کے مترادف تھا۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ 14 ویں صدی بلکہ شاید عثمان اول اور ان کے بیٹے اورہان کی نسل کے بعد سب شہزادے اور شہزادیاں کنیزوں کی اولادیں تھیں۔ انھوں نے 15صدی کے عثمانی مؤرخ شکراللہ کا بھی حوالہ دیا کہ بایزید اول اور ان کے بیٹے محمد اول کے سب بچے یقیناً کنیزوں سے پیدا ہوئے تھے۔

پیئرس لکھتی ہیں کہ ایک طرف وہ حلقے تھے جن کے خیال میں کنیزوں سے شاہی خاندان کی شان گھٹتی تھی دوسرے عثمانویوں کا موقف تھا کہ شاہی خاندان کی آزاد عورت کو برابری دینا سلطنت کے وقار اور خود مختاری کے خلاف تھا۔

’کنیز کے پاس شجرہ نہیں تھا لیکن اس کے پاس رتبہ تھا جو عثمانی خاندان کے وارث کو جنم دینے سے ملتا تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments