ڈاکٹر آصف فرخّی کا ریڈیو پاکستان کے لئے انٹرویو


سوال: آپ نے اِس دور میں ادب کے میدان میں قدم رکھا جو ریڈر شپ کے لحاظ سے سبز دور کہلاتا تھا لوگ کتابوں سے محبت کرتے تھے، لائبریریاں آباد تھیں، لیکن اب سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، موبائل فون، لا تعداد نشریاتی و مواصلاتی ٹی۔ وی چینلز و ایف ایم ریڈیو کے اس دور میں جو لوگ اس میدان کا رُخ کر رہے ہیں کیا ان کے لئے ماحول سازگار ہے؟

جواب: دیکھئے ماحول شاید کبھی بھی بہت زیادہ سازگارنہیں ہوتا بلکہ ماحول کے اندر ایک نہ ایک چیلنج پنہاں ہوتا ہے، اور یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ اس چیلنج کو کس حد تک پورا کر سکتے ہیں۔ ایک بات تو عام طور پر کہی جاتی ہے مجھے بھی کبھی کبھی شکایت سی ہوتی ہے کہ ا نٹرنیٹ کی وجہ سے اور دوسرے جو سوشل میڈیا میں ان کی وجہ سے لوگوں نے پڑھنا کم کر دیا۔ لیکن ایک بالکل مختلف قسم کا تجربہ ہوا اور میں اس تجربے میں آپ کو شریک کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ کراچی میں پانچ سال پہلے چند ہم خیال دوستوں نے، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید بھی تھیں کراچی لٹریچر فیسٹیول کی داغ بیل ڈالی۔ اور پہلی دفعہ جب یہ پروگرام ہوا تو آج سے 6 سال پہلے۔ تو اس میں کوئی تقریباً ساڑھے چار پانچ ہزار افراد آئے تھے اور ہم لوگوں کو ایسا لگا تھا کہ یہ بہت بڑی تعداد ہے اور اس سال اب یہ چھٹی بار پروگرام ہوا تو اندازہ یہ لگایا گیا کہ اس میں 70 ہزارکے قریب لوگ تھے۔ یہ لوگ کون ہیں یہ لوگ جو لٹریچر فیسٹیول میں شریک ہوتے ہیں یہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کتابیں پڑھنے، ادیبوں سے ملنے، اُن کے خیالات معلوم کرنے اور ادب کے بارے میں بات کرنے کے لئے آتے ہیں۔ اور یہاں یہ دیکھا کہ بعض ادیبوں کی کتابوں سے لوگوں کو بہت دلچسپی پیدا ہوئی۔ لوگ آئے اُنہوں نے بعض ادیبوں کی باتیں سُنیں تو اس سے مجھے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ایسا نہیں ہے کہ لوگوں نے کتاب کلچر بالکل ختم کر دیا ہے یا کتاب سے دلچسپی نہیں رہی۔ بلکہ ہمارے ہاں اس طرح کے مواقع کم ہو گئے۔ جیسا خود کراچی میں۔ میرے شہر کراچی میں ایک ایسا کلچر موجود تھا کہ ادبی تقریبات بہت ہوتی تھیں اور مشاعرے بہت ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ سیمینار ہوتے تھے، ادبی مکالمے ہوتے تھے۔ آرٹس کونسل اب بھی ایکٹیو ہے۔ ریڈیو ایک ادارے کے طور پر بہت ایکٹیو تھا تو وہ سماجی ادارے اور ادب کے بارے میں یا کتاب کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی کو جو مہمیز دیا کرتے تھے وہ ادارے آہستہ آہستہ کم ہو گئے اور ان کی جگہ کسی نے نہیں لی۔

سوال: وہ ادارے کم ہو گئے یا ان کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں؟

جواب: شاید ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں۔ کیونکہ مجھے کچھ یہ تجربہ بھی ہے ادب کے حوالے سے جو پروگرامکیے ریڈیو یا ٹی وی پر۔ تودیکھنے والے تو بہت کہتے تھے کہ صاحب فلاں کتاب پر لکھا ہے۔ فلاں کتاب کے بارے میں بات ہوئی لیکن یہ طعنہ ضرور سننے کو ملتا تھا کہ اس پروگرام کے لئے سپانسر نہیں ملتا۔ لیکن اگر اس کی بجائے کوئی COOKING SHOW ہوتا یا پھر مسخرے پن کی باتیں ہوتیں تو سپانسر مل جاتا کیونکہ ریٹنگ کا مسئلہ ہے۔ تو میں ان چیزوں کی اہمیت کو کم تو نہیں کرنا چاہتا لیکن کہیں نہ کہیں ان کے علاوہ بھی تو زندگی میں کچھ ہونا چاہیے۔

سوال: آپ نے ابھی لٹریچر فیسٹیول کا ذکر کیا جس کا کئی مرتبہ آپ کراچی اور اسلام آباد میں انعقاد کر چکے ہیں تو کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں ادب کے مراکز کراچی، اسلام آباد، لاہور ہی ہیں۔ کیا ملک کے دیگر شہروں جیسے ملتان، پشاور، کوئٹہ، اور بہاول پور جیسے دور اُفتادہ علاقے کے لوگوں کا یہ حق نہیں کہ یہاں بھی ادبی میلے کرائے جائیں؟

جواب: ہم نے تو شاید کراچی کے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا اسلام آباد کے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا بلکہ لوگوں نے سوچنے پر اُکسایا۔ اور جب کراچی میں تیسرا فیسٹیول ہوگیا تو سب سے پہلے جس شہر کا نام لیا گیاوہ اسلام آباد نہیں تھا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے ملتان میں یہ پروگرام پلان کیوں نہیں کیا کیونکہ ساؤتھ پنجاب میں بہت زیادہ لوگ ہیں جو دلچسپی رکھتے ہیں اور میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن ملتان اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والی 3 مقتدر شخصیات نے آ کے ہم سے وفد کی صورت میں ملاقات کی اور یہ کہا کہ یہ پروگرام بنائیے جس طرح سے تعاون ہے ہم کریں گے تو یہاں آ کر بہاولپور میں بھی مجھے نہایت خوشگوار احساس ہوا۔ طالبعلموں سے، اُردو کے اساتذہ سے، اور شہر کی دیگر سماجی شخصیات سے ملنے کے بعد کہ ملک کے تمام حصوں کی طرح ادب کی کلچر کی کہ جس کے لئے یہاں پر بڑا خوبصورت لفظ ”وسیب“ کا استعمال ہوتا ہے اس کے لئے ایک پیاس بہت ہے۔ اور لوگ ان چیزوں کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں سننا چاہتے ہیں۔ تو میں اس خوشگوار احساس کے واپس جا رہا ہوں کہ یہ درُست نہیں کہ ہمارے دوسرے شہروں میں ادبی مرکزیت نہیں ہے بلکہ ہم اس کو پوری طرح مین اسٹریم میں یا مرکزی دھارے میں لانے کا جوایک چیلنج ہے اس کو قبول نہیں کرتے۔ یہ ہمیں کرنا چاہیے۔

سوال: آپ مصنّف ہیں، مترجم ہیں، اِنٹرویور ہیں، میڈیکل ڈاکٹر ہیں، ایک اشاعتی ادارہ بھی چلا رہے ہیں تو THE BEST آصف فرخی کس میدان میں ہیں؟

جواب: شاید NO WHERE اس لیے کہ THE BEST تو کوئی ہے ہی نہیں اگر THE BEST کوئی مل گیا یا کسی کام میں یہ اندازہ ہوا کہ تسّلی ہو گئی کہ صاحب یہ کا م ہو گیا تو پھر اس کے بعد آگے کام کرنے کا کوئی جواز نہیں ملے گا۔ چونکہ اپنی بساط کے مطابق بھی کام نہیں ہو پاتا۔ اس لئے کام کو بہتر کرنے کی کوشش رہتی ہے۔ میری بنیادی حیثیت تو ایک لکھنے والے کی ہی ہے اور میں نے کچھ افسانے لکھے ہیں کچھ تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ ادارت جو ہے وہ ایک ضمنی طور پر کہ ایک چیز ذہن میں آئی کہ جو ادب کا رُخ بدل رہا ہے یا جو ہوائیں بدل رہی ہیں کیونکہ میں اس طرح کی چیزیں پڑھتا رہتا تھا تو دوستوں کو اس میں کس طرح سے شریک کیا جائے تو یہ ایک منصوبہ بندی کے بغیر شروع ہونے والا ایک سلسلہ تھا۔

سوال: آپ نے عالمی ادب سے شہرہ آفاق تصانیف کے اردو میں تراجم کیے ، تو جب آپ کتب کا انتخاب کر تے ہیں اس کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالنے کے لئے تو کیا محرکات ہوتے ہیں کتاب کے انتخاب کے سلسلے میں؟

جواب: کبھی کبھی تو مجھے خود لگتا ہے کہ وہ کتاب مجھے خود SELECT کر لیتی ہے جسے میں نے سب سے پہلے جو باضابطہ ترجمہ کیا وہ ”ہرمین ہیسے“ کا ایک چھوٹا ساناول ہے ”سدھارتھ“ میں نے وہ ناول انگریزی میں پڑھا اور مجھ سے اس ناول کا ترجمہ کرنے کے لئے سلیم احمد نے کہا بلکہ جب وہ میں نے ترجمہ کر ڈالا تو انہوں نے اس پر ایک گفتگو کا اہتمام کیا جو اس کے ساتھ چھپی، اور جب میں نے وہ کتاب انگریزی میں پڑھنا شروع کی تو مجھے پہلا جو احساس ہوا کہ میں اس کو پڑھ انگریزی میں رہا تھا اور سُن اُردو میں رہا تھا وہTEXT میرے ذہن میں RECEIVE جس طرح سے ہو رہا تھا وہ اس لیے کہ اس کا ماحول برصغیر کی قدیم تہذیب کا ماحول تھا اس کے اندر جو ایک مرکزی کردار کی حیثیت جو ہے وہ ایک نوجوان ہے جو اپنی روایات اور تجربے سے گھبرا بھی رہا ہے اور اس سے بچنا بھی چاہ رہا ہے اور اس کی طرف جا بھی رہا ہے۔ تو مجھے لگا کہ یہ تو شاید میرا قصّہ ہے یا ہمارے بہت سے دوستوں کا معاملہ ہے تو میں نے وہ ناول جس طرح اپنے ذہن میں سن رہا تھا اس کو اردو میں لکھ ڈالا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ ترجمہ ہو گیا کیونکہ میں نے اس میں کوشش یہ کی کہ کرداروں کا جو ماحول ہے اس سے زیادہ مطابقت رکھنے والی زبان پیدا کی جائے تو بعض کتابیں اس طرح سے سامنے آتی ہیں اور وہ ترجمہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بعض کتابیں ایسی ہیں، جن کا ماحول یا جن کا پیرایہ اظہار مختلف ہوتا ہے۔ یا اجنبی ہوتا ہے اُن میں خاصی دِقت ہوتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments