ڈاکٹر آصف فرخّی کا ریڈیو پاکستان کے لئے انٹرویو


سوال: آپ نے غیر ملکی زبانوں کے علاوہ علاقائی زبانوں خصوصاَ سندھی تصانیف کا بھی اردو میں ترجمہ کیا تو کیا فرق محسوس کیا؟

جواب: میں نے سندھی سے جو ترجمےکیے عطیہ داؤد کا مجموعہ کیا، شیخ ایازکی کچھ چیزیں کیں۔ اور جدید شاعر جن میں اِمداد حسینی سے لے کر نورالہدیٰ شاہ اور دوسرے دوست ہیں تو میں سندھی زبا ن سے بہت زیادہ واقفیت نہیں رکھتا تو اس میں سندھی زبان جاننے والے دوستوں کی مدد اور اِشتراک شامل ہوتا تھا۔ اور اس میں ایک سہولت یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اپنی زبان ہے اپنے صوبے میں بولی جاتی ہے تو اس میں اجنبیت کی بجائے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔ اور یہ لگتا تھا کہ سب چیزیں یا اظہار ہماری زبان میں آنے کے لیے بے تاب ہیں۔ تو وہ ترجمہ ایک جس کو کہنا چاہیے کہ بہت لگن اور جذبے کے ساتھ کہا گیا ہے۔ جسے محبت کا سودا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس طرح کی چیز تھی۔

دوسری زبانوں کا جو ترجمہ کیا گیا ان میں کچھ لاطینی امریکا کی کہانیوں کا بھی ترجمہ کیا جن کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا اور پھر کچھ اور زبانوں کی چیزیں۔ تو ان میں ایک چیلنج تھا کہ افسانہ کہ جس سے میری دلچسپی ہے اس کا طریقہ بدل رہا ہے اس کا انداز بدل رہا ہے اور یہ جو انداز بدلا ہے یا بدل رہا ہے اس کو کیا اپنی ز بان میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اور اس اسلوب کو ہم گرفت میں لا سکتے ہیں۔ یہ کوشش ان ترجموں کا محرک ہوئی۔ ظاہر ہے کہ وہ آسان کام نہیں تھا بعض افسانے بہت مشکل ثابت ہوئے لیکن یہ بھی تھا کہ اگر اس بات کو اردو میں کہا جائے تو کیسے کہا جائے؟ تو بہت رواں نہ ہوتے ہوئے بھی وہ ترجمے مجھے بہت اہم لگتے ہیں کہ ان میں اسلوب کا ایک تجربہ ہے۔

سوال: آپ انگریزی اخبار ڈان کے علاوہ دیگر جرائد کے ادبی صفحات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں تو یہ تجربہ کیسا رہا؟

جواب: اچھا آپ نے تو بہت سی چیزیں میرے بارے میں معلوم کی ہوئی ہیں۔ مجھے شک ہو رہا ہے کہ آپ نے میرے بارے میں کوئی CID کا پروفائل پڑھا ہوا ہے لیکن بہرحال یہ بھی ہے کہ ان سے کوئی انکار بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزی اخبار ڈان میں متواتر لکھتا رہتا ہوں کیونکہ مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ میں اگر کسی کتاب سے پڑھ کر بہت EXCITED ہوں یا میں اپنے دوستوں سے اس کے بارے میں بات کر رہا ہوں تو بعض دوستوں کا تقاضا ہوتا تھا کہ اچھا اس کتاب کے بارے میں آپ جو بات کہہ رہے ہیں اس کو تھوڑا سا SHARE کیجئے۔ دوسروں کو بھی اس کے بارے میں شریک کیجئے۔ تو میں نے کتابوں کے بارے میں جو لکھا اُن کتابوں سے اپنی دلچسپی کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے لکھا۔ کیونکہ جن کتابوں نے مجھے بہت متاثر کیا، یا بعض ادبی شخصیات نے بہت متاثر کیا۔ ا ن کے انٹرویوزکیے ۔ غلام عباس کا میں نے پہلی بار ریڈیو پاکستان کے پروگرام بزمِ طلباء میں انٹرویو کیاتھا اس کے بعد ان سے میرا مکالمہ جواس دن شروع ہوا وہ ان کے انتقال تک دائم رہا۔ میں نے پھراخبار کے لئے انٹرویو کیا اور ایک ادبی انٹرویو کیا۔ تو انٹرویو کے ذریعے میرے ذہن میں پڑھنے والے کی حیثیت سے سوال اُبھرتے تھے ان سوالوں کو میں جانچنے، پرکھنے یا جسے کہنا چاہیے کہ EXPLORE کرنے کے لئے میں انٹرویو کرتا رہا تو اس کے پیچھے جو انگریزی میں جو لکھا اس کے پیچھے پڑھنے والے کا تجسّس وہ کیفیت موجود تھی۔

سوال: اس کیفیت کو ہم کتھارسس کہہ سکتے ہیں؟

جواب: کتھارسس تو شاید ایک مشکل لفظ ہو جائے گا لیکن اب اس کو یہ کہہ سکتے ہیں کہEXCITEMENT یا ایک جو پڑھنے کا جو ایک شوق تھا اور جو میرے ذہن میں جو بہت سے سوال اُبھر رہے ہیں کس حد تک ان سوالوں کے جواب مکالمے کے ذریعے یا کتاب کے ذریعے معلوم ہو سکتے ہیں۔

سوال: آپ ایک انتہائی معیاری جریدہ ”دنیا زاد“ بھی شائع کرتے ہیں جس کے اب تک 43 شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ادبی پرچوں کی بڑی مانگ تھی۔ سن 50، 60 یا پھر 70 کی دہائی میں بہت معیاری ادب تخلیق ہوا تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اب بھی اس سطح کا ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کیا ادبی پرچے کے لئے مواد آسانی سے اکٹھا ہو جاتاہے؟ یا پھر یوں کہئے کہ ”دنیا زاد“ کا کیا جواز ہے؟

جواب: لوگ تو موجود ہیں لیکن لوگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں شاید ان کی چیزیں حاصل کرنا اور جمع کرنا اور بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو تواتر کے ساتھ چھپتے نہیں مگر ان کی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں اور بعض دفعہ کتاب کے چھپنے تک آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے اور ان کی تخلیقات تک پہنچنے کے لئے اور بض دفعہ یہ بھی گڑبڑ ہوتی ہے کہ کتا ب چھپ کر بھی چھُپ جاتی ہے۔ یعنی پتہ نہیں چلتا۔ تو ایک تو بات یہ ہو گئی۔ دوسرا مواد کی بے تحاشا فراوانی ہے اور ہم انفارمیشن EXPLOSION کے دور میں زندہ ہیں کہ جہاں انفارمیشن کا بمبارمنٹ ہو رہا ہے ہمارے پاس ہر طرف سے معلومات اکھٹی ہو رہی ہیں۔ لیکن اہم معلومات میں سے ان چیزوں کو چن کر نکال لینا جو ادب کے لئے RELEVANT ہے مجھے بڑا دلچسپ لگتا تھا۔ مجھے لگا کہ انٹرنیٹ ایک قسم کا چیلنج ہے اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ مثلاَ جب 2013 ء میں ALICE MUNRO کو نوبل پرائزملا۔ ALICE MUNRO کی اہمیت یہ ہے کہ وہ انگریزی کی بہت بڑی لکھنے والی ہیں لیکن وہ ناول نہیں لکھتی وہ صرف افسانے لکھتی ہیں جبکہ مغربی دنیا میں فکشن میں اپنا نام بنانے کے لئے ناول لکھنا ضروری ہے تو جب ALICE MUNRO کو نوبل پرائز ملا تو یہ بحث شروع ہو گئی کہ صاحب افسانے کو تو ایک دوسرے درجے کی صنف سمجھا جاتا تھا تو کیا افسانہ دوسرے درجے کی صنف ہے؟ کیا افسانے میں اور بھی اس طرح کے لوگ ہیں؟ افسانے کا معیار کیا ہے؟ افسانے کے اندر جو ایک زندگی سمٹ کر آ جاتی ہے مجھے یہ ساری بحثیں اردو کے حوالے سے بہت معنی خیز معلوم ہوتی رہی اس لئے کہ اردو میں افسانے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہمارے ہاں اچھی بات ہے یا بری بات کہ ناول کم لکھے گئے اور افسانے زیادہ لکھے گئے تو جب اس قسم کے سوالات سامنے آتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتاہے اور مجھے یوں لگتا ہے کہ ”دنیا زاد“ کا جواز یہی ہے کہ نئے سے نئے لوگ بھی سامنے آتے جائیں جو کہیں نہ کہیں بیٹھے ہوئے شعر کہہ رہے ہیں افسانہ لکھ رہے ہیں یا مضمون لکھ رہے ہیں لیکن اس کو سامنے لانے کی اور اس پر گفتگو کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments