ڈاکٹر آصف فرخّی کا ریڈیو پاکستان کے لئے انٹرویو


سوال: آپ نے ناول اور افسانے کی صنف ذکر کیا تو ہمارے پاکستان میں اس وقت ادبی میدان میں ناول اور افسانے کی جو کیفیت ہے اس پرآپ کا کیا تبصرہ کریں گے؟

جواب: اچھا اب ادھر اُلٹی بات ہو رہی ہے اب تو مجھے افسانے کی طرف سے تشویش ہونے لگی ہے۔ کیونکہ افسانہ نگار عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ جیسے پرندوں کے غول نہیں ہوتے جو شام کے وقت اُڑتے ہیں، درخت پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں تو افسانہ نگار بہت آیا کرتے تھے۔ ہر شہر سے اور افسانے لکھا کرتے تھے، افسانے پڑھے جاتے تھے، سُنائے جاتے تھے۔ مگر اب افسانے میں نئے لوگ کم آرہے ہیں۔ افسانے میں ہمارے جو مستحکم لوگ تھے انتظار حسین صاحب خدا ان کو عمرِ خضر عطا فرمائے۔ خالدہ حسین ہیں، عبداللہ حسین ہیں، اسد محمد خان ہیں، حسن منظر ہیں، نیّر مسعود ہیں۔ تو یہ سب وہ لوگ ہیں جو اپنا بہترین کام اپنے پڑھنے والوں کے سامنے لا چکے ہیں۔ اب ان سے مجھے کسی بہت نئی کہانی کی توقع نہیں ہے۔ شاید کوئی لکھ دے اور حیران کر دے تو علیٰحدہ بات ہے۔ لیکن افسانے میں اس کے بعد جو تواتر سے نوجوانوں کو آنا چاہیے تھا اس طرح نہیں آئے۔ اس کے بر خلاف یہ ہوا ہے کہ شاید پوری دنیا میں ناول کا زور زورا ہے۔ تو اردو میں بھی ناولوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہوئی ہے۔ ان پچھلے پانچ سے سات سال میں مرزا اطہر بیگ نے ایک ناول لکھا، پھر دوسرا لکھا، پھر تیسرا ناول۔ ”غلام باغ“ ان کی ایک بہت غیر معمولی کتاب ہے۔

حسن منظر نے جو مختصر ناول لکھے ان کی ایک کتاب ”دھنی بخش کے بیٹے“ جو مجھے بڑی اہم یوں معلوم ہوتی ہے کہ سندھ کے دیہات کے پس منظر میں اتنی تفصیل اور اتنی گہرائی کے ساتھ شاید ہی کوئی کتاب آئی ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ حسن منظر کے اس ناول کو جب یہاں زیادہ لوگ پڑھیں گے تو انہیں لگے گا کہ اس میں جو ایک کشمکش اور جدوجہد ہے اس سے کچھ مماثلت محسوس ہوگی تو اس طرح کا ناول سامنے آیا پھر نگہت حسین کا ناول جوگنگ پارک۔ پھر مجھے عبداللہ حسین کے علاوہ اور نام جو لینا چاہیے مستنصر حسین تارڑ صاحب کا جنہوں نے ایک کے بعد ایک ناول لکھے۔ جن کوپڑھنے والوں کے ایک بہت وسیع حلقے نے پسند کیا۔ انور سن را ئے نے ایک چھوٹا سا ناول ”چیخ“ لکھا جو سیاسی احتجاج کے حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی طرح محمد حمید شاہد کا ناول آیا ”مٹی آدم کھاتی ہے“ تو اس طرح ناولوں کی ایک قدرے معقول تعداد سامنے آئی ہے اور خدا کرے کہ یہ سلسلہ باقی رہے وہ حال نہ ہو جو افسانے کا ہوتا جا رہا ہے۔

سوال: اس وقت پاکستان میں انگریزی ادب میں کس معیار کا تخلیق ہو رہا ہے اور اس منظر نامے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: دیکھئے انگلش لٹریچر پاکستان میں ایک لحاظ سے بڑے اہم اور CRITICAL معیار پر پہنچ رہا ہے کہ اس کے پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی اِضافہ ہو رہا ہے اور وہ اضافہ صرف پاکستان میں نہیں ہے انگریزی میں لکھے جانے والا ناول جو پاکستان سے آ رہا ہے وہ پوری دنیا سے اپنی توجّہ حاصل کر رہا ہے اور لوگ اس کو پڑھ رہے ہیں، اس پر بات کر رہے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے تو نام لینا چاہیے کاملہ شمسی کا۔ کاملہ شمسی کو انگلستان کے بہت اہم نوجوان لکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے اب تک جو اُن کی کتابیں سامنے آئی ہیں وہ سب پاکستانی زندگی کے کسی نہ کسی حصے کی عکاّسی کرتی ہیں اور اب ان کی تازہ ترین کتاب آئی ہے وہ کتاب پشاور شہر کی وہ تاریخ جو زمانہ قدیم سے شروع ہوتی ہے اور پھر انگریزوں کے زمانے کا پشاوراس بارے میں ہے۔ وہ بڑی HISTORICAL کتاب ہے۔

محسن حامد کے تین ناول آ گئے۔ محمد حنیف کے دو ناول ہیں دانیال معین الدین کا ایک بہت اچھا انگریزی کا مجموعہ کہانیوں کا ہے۔ ناول بھی اب سنا ہے کہ ان کا آنے والا ہے اچھا یہ سلسلہ رکتا نہیں ہے اس میں ایک کے بعد ایک اچھا نام سامنے آ رہا ہے۔ ایچ ایم نقوی کا ایک ناول HOME BOY سامنے آیا ہے۔ اب سنا ہے کہ دوسرا ناول آ رہا ہے۔ بلال تنویر نے ایک بہت دلچسپ کتاب لکھی ہے جسے آپ یا تو ناول بھی کہہ سکتے ہیں یا افسانوں کا مجموعہ The Scatter Here Is Too Great

کہ اس میں کچھ جڑی اور کچھ پیوستہ کہانیاں ہیں۔ تو ایک نئی آواز بھی ہے اور اک نیا انداز بھی۔ پاکستانی ناول جو انگریزی میں آ رہا ہے اس میں اس لحاظ سے بڑا جو لوگ کہتے ہیں EXCITED لمحہ ہے جب نیا ٹیلنٹ بھی سامنے آ رہا ہے اور نئے ٹیلنٹ کو نت نئے پڑھنے والے بھی مل رہے ہیں تو مجھے اُمید یہ ہے کہ یہ نہ صرف آگے معاملہ بھی چلے گا۔ بلکہ اس کا کچھ نہ کچھ اثر ہماری دوسری پاکستانی زبانوں پر بھی ہوگا۔ دوسری پاکستانی زبانیں میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ جس طرح ان لوگوں نے لکھا ہے انہوں نے انگریزی کو بھی بالکل پاکستانی زبان بنا دیا اور یہ خود ایک بہت بڑا تخلیقی کارنامہ ہے۔

سوال: آپ کا تعلق چونکہ نشریاتی دنیا سے بھی رہا تو یہ فرمائیے کہ ادب میں کلاسیکی لٹریچر کو تحتُ اللفظ پڑھنے کے فن کو ضیا محی الدین نے بام عروج تک پہنچایا لیکن ایک طویل عرصے تک اس میدان میں ہم کوئی دوسرا ضیاء محی الدین نہ لا سکے تو اب اس میدان میں کیا صورت حال ہے جب ہندوستان میں کئی لوگ اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں؟

جواب: میرا خیال ہے کہ نام اتنا بڑا تو نہیں ہے جتنا ضیا محی الدین صاحب کا ہے کیونکہ وہ تو اپنی ذات میں ایک معیار بھی ہیں اور انجمن بھی ہیں۔ لیکن میں چونکہ ا ن کے پروگراموں سے بہت دلچسپی رکھتا ہوں تھوڑا بہت ان کے پروگراموں کو سننے کی بھی کوشش کرتا ہوں تو میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ جس ادارے سے وابستہ ہیں۔ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس۔ وہاں ان کے زیرِ اثر ان کے زیرِ نگرانی ایک نوجوانوں کا پورا گروپ تیار ہوا جو پرفارمنگ آرٹس کو باقاعدہ اپنے نصابی سبق کے تحت پڑھتا اور سیکھتا ہے۔ اُن میں کچھ لوگ ڈرامے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ ہدایت کار میں کچھ لوگ جو ایک نئی چیز اُبھرتی ہے نئی تو نہیں کہنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں نئی ہے وہ ڈرامیٹک ریڈنگ ہے جس میں کئی گروپس ہیں۔ ”قصّہ گو“ کے نام سے ایک گروپ ہے۔ کراچی میں ایک اور گروپ ہے جو ”زنبیل“ کے نام سے کام کر رہا ہے انہوں نے نیر مسعود کے افسانے کی ڈرامائی ریڈنگ کی، پھر قرة العین حیدر اور پھر پریم چند کی کی۔ کہ افسانوں کو ایک جامد متن کے طور پر نہیں بلکہ ایک آواز کے ذریعے اور پس منظر کی مو سیقی کے ذریعے نئے لوگوں تک متعارف کرایا جائے۔ تو جیسے جیسے نئی چیزیں سامنے آتی ہیں ادب کی ترویج کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments