ڈاکٹر آصف فرخّی کا ریڈیو پاکستان کے لئے انٹرویو


سوال: آپ کا ایک اشاعتی ادارہ ہے ”شہر زاد“ اس کے تحت کتاب چھاپنے کے لئے کیا معیار مقرر کیا ہے؟

جواب: اوّل تو میرا اشاعتی ادارہ ان معنوں میں نہیں ہے ا س پر زیادہ توجّہ اور دلچسپی تو میرے والد نے دی اور جو اُن کے ہاتھ بٹانے تک کا کام ہے وہ میں نے کیا اور وہ ایک بہت محدود وسائل کا وہ ادارہ ہے جو اس قسم کی کتابیں چھاپنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جن کو بڑے یا باقاعدہ پبلشر نہیں ملتے۔ جیسے تراجم یا میری اپنی کتابیں (قہقہہ) جیسے مثلاَ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی حالیہ کتابو ں میں ایک بڑی اہم کتاب ہے وہ میرے چچا انور احسن صدیقی کی جن کا انتقال ہو گیا ہے ان کی خود نوشت۔ اور وہ خود نوشت ان معنوں میں بڑی اہم تھی کہ میرے چچا انور احسن صدیقی طالب علم لیڈر تھے اور انہوں نے سن 50 کی دہائی میں جو طالب علموں کی جدوجہد تھی اس میں بڑا اہم کردار دا کیا۔ جلاوطن ہوئے، ملتان میں جیل بھی بھیجے گئے۔ تو جو کام انہوں نے کیا، اس کو ایک دستاویز کی شکل میں انہوں نے لکھ ڈالا تو وہ کتاب میں سمجھتا ہوں کہ بڑی اہم تھی اس کو میرے اشاعتی ادارہ نے شائع کیا تو اس طرح کچھ کتابیں ہیں۔

سوال: آج کل کیا کر رہے ہیں یا کن منصوبوں پر کام کر رہے ہیں؟

جواب: اس پر تو مجھے بہت ٹھنڈی سانس بھر کے آپ کو اپنے تمام منصوبوں کی فہرست بتانی چاہیے۔ یہاں سے جا کر تو آرام کروں گا اور سو جاؤں گا کیونکہ یہاں چائے پینے کا اور لوگوں سے باتیں کرنے کا بڑا موقع ملا اور جن لوگوں سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان کو شکریہ کا خط لکھوں گا۔ لیکن میں ایک کام تو یہ کر رہا ہوں کہ کراچی کے ایک ادارے کے لیے اردو افسانے کے انتخاب تیار کر رہا ہوں کیونکہ اردو افسانے کی کچھ کتابیں عمدہ ایڈیشن میں اس طرح نہیں ملتی کہ جن سے عام پڑھنے والے کو دلچسپی ہو اور ان کی دلچسپی کو آگے بڑھا سکے تو اس کے تحت پہلا انتخاب منٹو کا کیا، آکسفورڈ نے شائع کیا۔ پھر دوسرا انتخاب غلام عباس کا آیا اپھر تیسرا انتخاب حسن منظر کا آیا، پھر نیرمسعود کا اور پھر رفیق حسین کا تو یہ پوری ایک سیریز ہے اردو افسانے پر فوکس کرتی ہوئی کہ جس میں عام پڑھنے والے اور طالب علموں کی دلچسپی کے حساب سے ادبی افسانوں کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ کام کر رہا ہوں اور ایک چھوٹی سی کتاب ابھی لکھی ہے۔ مجھے انگلستان جانے کا موقع ملا تھا انتظار حسین صاحب کے ساتھ۔ جو پہلے پاکستانی ہیں یا اردو کے پہلے ادیب جنہیں مین بکر انٹر نیشنل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا۔ تو اس سفر میں میں بھی ان کے ساتھ تھا جو کچھ وہ دیکھتے تھے جو کچھ ہم محسوس کرتے تھے اس کو میں چپکے چپکے لکھتا رہتا تھا تو وہ جو یاد داشتیں ہیں وہ چھوٹی سی ایک کتاب کی شکل میں وجود میں آگئی۔ آج کل انتظارحسین کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ لے رہا ہوں۔

سوال: آپ کی صاحبزادیوں میں بھی ادب کے جینز منتقل ہوئے جس طرح آپ کے والد سے آپ میں ہوئے

جواب: میرے والدین نے مجھے ادیب بنانے کی کوشش نہیں کی۔ از خود میرے ساتھ یہ ہو گیا۔ میری دونوں بیٹیوں کوسب سے اہم بات تو یہ کہ ان پڑھنے کا بہت شوق ہے، وہ پڑھتی بھی ہیں بعض کتابوں پر ہماری بات ہوتی ہے اور اپنی اپنی فیلڈ میں وہ کام کر رہی ہیں اگر کسی دن وہ اچانک لکھنے لگیں تو میں کچھ کہوں گا نہیں مجھے خوشی تو بہت ہو گی لیکن یہ ان کا اپنا فیصلہ ہو گا جیسے میرا لکھنا میرا فیصلہ تھا۔

سوال: کوئی آخری بات جو آپ کہنا چاہیں؟

جواب: یہاں (بہاولپور) آ کر مجھے اتنی محبت اور ادب کے حوالے سے لوگوں میں اتنی دلچسپی اور اتنی توجہ ملی میں اس پر حیران بھی ہوں اور شکر گزار بھی ہوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ یہاں بار باردوستوں سے ملنے آؤں۔ ادب سے، فن سے، علم سے یہ لگن جاری رہنا چاہیے اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ ہر طریقے سے ہر ذریعے سے کیونکہ ادب باقی ہے تو ہماری اندر کی جو ایک زندگی ہے وہ با معنی ہے اور وہ پُرثروت ہے۔

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments