بھاگ بھری: دہشت اور جنون کا مطالعہ


دوسری طرف اللہ وسایا جو ساون کا سسر ہے، پوری دنیا پر ساون کے اسلام نافذ کرنے کے خواب سن سن کر تنگ آچکا ہے۔ ساون اُسے بھی جہاد کی دعوت دیتا ہے تاکہ وہ اس مشن پر اُس کے ساتھ روانہ ہو۔ یہاں اللہ وسایا کا ایک جملہ بہت معنی خیز ہے :

 ”اگر اللہ کو ساری دنیا کو مسلمان ہی بنانا تھا تو اور دوسرے دین دھرم اُس نے پیدا ہی کیوں کیے؟ “

درحقیقت یہ ناول ہمارا آئینہ ہے، جس میں ہم اپنی مسخ شدہ شکلیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سب کردار ہمارے اپنے آس پاس موجود ہیں، جو اپنی ذات کے اردگرد خول چڑھائے پھرتے ہیں، تو ہمیں قابل ِقبول لگتے ہیں۔ مگر جب ہم ان غلافوں کے اندر جھانک کر دیکھتے ہیں تو یہ بیک وقت مضحکہ خیز اور بھیانک دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے کرداروں کو دیکھ کر، اُن سے مل کر ہم نہ تو خود کو ہنسنے کے لئے قائل کرسکتے ہیں اور نہ ہی رونے اور خوف کھانے کے لئے۔ مضحکہ خیزی کی اس وحشت کا حامل ایک کردار ”ملا سواتی“ ہے، جو بظاہر تو مدرسے کا بزرگ استاد ہے، مگر نوجوان لڑکے اُس کی جنسی ہوس کا شکار بنتے ہیں۔ دین کے اس علمبردار کے سر پر جب ساون تیل کا پیالہ دے مارتا ہے، تو اُس کے ماتھے پر زخم کا نشان پڑ جاتا ہے۔ مدرسے کی انتظامیہ اُسے ہسپتال لے کر جاتی ہے اور اگلے دن پتہ چلتا ہے کہ ”ملا سواتی نقاہت کے سبب گرنے سے زخمی ہوگئے ہیں“۔ اکثر طلباء کا خیال ہے کہ ”ملا سواتی رمضان کے علاوہ نفلی روزے بھی پابندی سے رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ کمزوری کا شکار ہو کر غش کھاکر گر پڑے تھے“۔

قاری سفیان، خالد کو شیعوں کے خلاف جہاد کے لئے کراچی روانگی کا حکم دیتے ہوئے جو نصیحت کرتا ہے، اُسے پڑھ کر میرا بے اختیار ہنسنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر ہنسوں بھی تو کس پر؟ اپنوں کی نالائقیوں اور کم عقلیوں پر؟ آپ بھی دہشت کی حد تک مضحکہ خیز اس اقتباس کو پڑھ لیجیے :

 ”دیکھو۔ کراچی شہرگردن تک گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ عورتیں نوکریاں کرتی ہیں اور کھلے عام سڑکوں پر کاریں دوڑاتی پھرتی ہیں۔ لڑکیاں بن ٹھن کر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاتی ہیں۔ لڑکے مغربی لباس پہنتے اور داڑھیاں منڈھواتے ہیں۔ بیٹا! میں پھر تنبیہ کرتا ہوں کہ سڑک پر پھرنے والی لعنتی شیطان عورتوں پر توجہ نہ دینا۔ ابھی ان پر حد جاری کرنے کا وقت نہیں آیا ہے۔ تم دیکھنا، جیسے ہی اسلامی امارات کا جھنڈا کراچی پر لہرائے گا، تو ان بدبخت عورتوں کو میں خود اپنے ہاتھوں سے کوڑے ماروں گا“۔

اس ناول کا مرکزی کردار ساون عرف ”خالد خراسانی“ سالوں بعد جہاد جیسے عظیم مقصد کے لئے دوبارہ نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اور اپنی بیوی بیٹی کو وہیں چھوڑ کر بھاگ بھری کے ساتھ اونٹنی پر سوار ہوجاتا ہے۔ اور پھر قریہ قریہ، نگر نگر، بستی بستی اپنے ہی ہاتھوں لگی اس چنگاری سے پھیلی آگ دیکھتا چلا جاتا ہے۔ ہر طرف انسانوں کی ہڈیوں کے پنجر اُس کی دید کے منتظر ہیں۔ یہ سارے مناظر دیکھ کر وہ بے اختیار بول اٹھتا ہے :

 ”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جنگ کا انجام ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ میرے تو تصور میں بھی نہیں تھا کہ جنگ موسم اور ماحول پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے“۔

راستے میں اُسے ایک اور جہادی ”معاویہ“ ملتا ہے، جو اُس کے ساتھ مشن پر جانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ معاویہ اس پورے راستے اُسے انسانوں کی بربادی، لوٹ کھسوٹ، آدم خوری دکھاتا آتا ہے، جسے دیکھ کر بھاگ بھری کا دل اچاٹ ہونے لگتا ہے۔ لاہور جیسا بارونق شہر اپنی ویرانی کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔ یہاں ان تینوں کی مڈبھیڑ ایک سکھ خاندان سے ہوتی ہے، جو ان سے ننکانہ صاحب کا راستہ پوچھتے ہیں کہ اگر مرنا ہی ہے تو کیوں نہ اپنے گرو جی کے استھان پر جاکر اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں۔ بھاگ بھری اس خاندان کی سیوا میں لگ جاتی ہے۔ جس پر ساون کو اعتراض ہوتا ہے کہ ماں نے ہمیں سکھ دشمنوں کی خدمت پر لگادیا ہے، جہاں اُس کے ساتھی معاویہ کا جواب نہایت اہم ہے۔ اور اس پورے ناول کا نچوڑ بھی۔

 ” اب کیسے دشمن اور کیسی دشمنیاں؟ ہم سب مصیبت کے مارے بھوک پیاس سے لڑ رہے ہیں۔ یہ بھوک ہی ہم سب کی مشترکہ دشمن ہے“۔

بھاگ بھری نے اتنے لمبے سفر میں محض لاشیں اور پنجر ہی تو دیکھے تھے۔ اس لئے یہاں اپنے سامنے جیتے جاگتے انسان دیکھ کر وہ ان کی خوب آؤ بھگت کرتی ہے۔ دونوں خاندان ایک دوسرے سے ملتے ہیں، باتیں کرتے ہیں تو ساون بھی اس خاندان کے بزرگ صوبیدار کھڑک سنگھ کو اپنے آئندہ مشن کے بارے میں بتانے لگتا ہے۔ اُس کی باتیں سن کر سردار جی پریڈ کے اُس حملے کے بعد پیش آنے والی ساری کہانی اُس پر کھول دیتے ہیں اور قاری سفیان کا راز اور اصلیت بھی اُس پر افشا کردیتے ہیں۔ جس کے بعد ساون کی حالت غیر ہوجاتی ہے۔ تابکاری والا افزودہ پانی بھی اُس پر اپنا اثر دکھانے لگتا ہے۔ اور اُسے اپنی پوری زندگی ایک سراب دکھنے لگتی ہے۔ وہ مقصد، وہ جہاد، وہ غزوہ ہند، جس کے لئے اُس نے اپنی پوری زندگی صرف کردی، محض ایک دھوکہ تھا اور اس جھوٹ کی آڑمیں اُس کے ہاتھوں کتنے لوگوں کا خون ہوا، یہ سوچ کر اُس کی روح کانپ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں میں خالد سے دوبارہ ساون بن جاتا ہے۔ ختنوں کے بغیر دائرہ اسلام میں داخلی کا یہ سراب اُس پر آخری سانسوں میں کھلتا ہے اور وہ رو رو کر، ایڑھیاں رگڑ کر اپنی جان اپنے بھگوان کے سپرد کردیتا ہے۔ اُس کی ماں ”میرا ساون۔ میرا ساون“ پکارتی رہ جاتی ہے۔

لیکن ساون اُن ہزاروں لاکھوں مجاہدین سے تو بہتر ہے، جو یہ پھانس اپنے اندر ہی لئے حوروں کے چکر میں مارے گئے۔ اور اُن پر کبھی اس نام نہاد جہاد کا راز نہ کھل سکا۔ عقلیت سے دوری نے ان دماغوں کے کواڑ کبھی کھلنے نہ دیے۔ اور وہ نامعلوم لوگوں کے ہاتھوں ریاستی دہشت گردی جیسے گھناؤنے جرم کے مجرم ٹھہرے۔ ان فدائیوں نے اپنی عاقبت تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کی زندگیاں بھی برباد کردیں اور اُن سے امید اور زندگی کی شمعیں چھین لیں۔

3000ء میں انگلستان کے طلبا کو سنائی جانے والی ”بھاگ بھری“ کی یہ کہانی اردو ادب کی اُن چند کہانیوں میں سے ایک ہے، جو ہمیں اپنے مستقبل کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنی آئندہ زندگی کو اس ناول کی روشنی میں تول سکیں۔ وگرنہ تو اردو ادب میں ماضی کے قصوں کی ہی بہتات رہی ہے۔ صفدر زیدی نے اس ماضی کی روشنی میں مستقبل کا فرضی نقشہ کھینچ کر ہمیں یہ باور کرادیا ہے کہ تمہارے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو محبتوں کا بیوپار کرو ’پھولوں کی دکانیں کھولواور مسکراہٹیں بانٹ کر نفرتیں بھلاکر اقوام ِعالم میں باعزت جینا سیکھو۔ یا پھر دوسرا راستہ تباہی کا ہے۔ جس کا انجام تمہارے سامنے ہے۔

یہ ناول ”بھاگ بھری“ دراصل اِن آدم خوروں کی اجڑی ماؤں کا نوحہ ہے، جو استعمال تو اس دنیا کی عظیم طاقتوں کے ہاتھوں ہوئے، مگر ان کے مرنے پرکوئی نشان ِحیدر ملا، نہ بہادری کا کوئی دوسرا تمغہ۔ یہ نام نہاد مجاہد قومی پرچم کے سائے میں دفن ہوئے اور نہ ہی ملک کی کسی عمارت پر ان کی موت کے غم میں قومی پرچم سرنگوں ہوا۔ جاسو س بن کر بے نام و نشان مارے جاتے، تو بھی ملک کی خفیہ ”Good Books“ میں نام درج کردیا جاتا۔ میرے ملک کے ان سب جوانوں نے تو آخرت کو سنوارنے کے لئے، دنیا میں خدا کے دین کی سربلندی کے جھوٹے دعووں پر بغیر سوچے سمجھے ”آدم بُو! آدم بُو“ کا ہولناک کھیل کھیلا اور خود موت کے اندھے کنویں میں دھکیلے گئے۔ آخرت میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، یہ تو مجھے معلوم نہیں۔ مگر یہ سب مائیں کس جرم کی پاداش میں اپنی کوکھ سے محروم ہوئیں؟ ان کی بیویوں کے سہاگ ایک دھوکے کی نظر کیوں ہوگئے؟ کیا ان کی بیٹیاں ایک سازش کے تحت اپنے باپ کی چھت سے محروم کردی گئیں؟ یہ کیسا مقصد حیات تھا، جو ان سب کی زندگیوں کے لئے گھناؤنا ہوگیا؟ ”بھاگ بھری“ ان سب ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، بیویوں کا نوحہ ہے۔ مرد تو شروع سے آج تک لڑائی، جنگ، خون، فساد، دنگے کی بات ہی کرتا آیا ہے۔ مگر ان عورتوں کا کیا جرم ہے؟

میں اپنی اس گفتگو کو ایک سوال پر لے جاکر آپ پر چھوڑدینا چاہتی ہوں۔ صفدر زیدی نے ”بھاگ بھری“ لکھ کر موجودہ صورتحال پر ایک نوحہ لکھا۔ مستنصر حسین تارڑ نے ”گونگے کی ڈائری“ کی صورت میں ایک نوحہ لکھنے کی کوشش کی۔ محمد حنیف اور دوسرے کچھ لکھاریوں نے اس گھمبیرتا کو بھانپ کر اس پر بات کرنے کی ٹھانی۔ مجھ جیسے کئیوں نے ان نوحوں کی تعزیت میں لکھا اور اپنا حصہ ڈالا۔ مگر آخر کب تک ہم یہ نوحے لکھتے رہیں گے؟ مدارس کا ریاستی دہشت گردی کا یہ نظام تو بہت سادہ تھا، جو جلد یا بدیر ہماری عقل میں سما گیا، مگر آج کے دور میں بننے والے فدائی کہاں کہاں بیٹھ کر ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپیں گے، ہمیں خود بھی معلوم نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کی اسلامی تنظیم آج بھی پڑھائی سے زیادہ انہی سرگرمیوں میں ملوث دکھائی دیتی ہے۔ داعش کے فدائی اور حامی کن کن تعلیمی اداروں سے وابستہ تھے، ہم خود بھی ٹھیک سے معلوم نہ کرسکے۔ اگر ہماری دانش گاہیں طالبعلموں کو اپنے دماغ سے سوچنا اور دلائل کے ذریعے بات کرنا نہ سکھا سکیں تو پھر مجھے ڈر ہے کہ میری اگلی نسلیں بھی یہی نوحے لکھیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments