جنس تبدیل کرنے والی اولاد اور باپ کے درمیان مکالمہ
” خیر، یہ معاملے کا ایک پہلو ہے تاہم میں اسے بھی قبول کر لیتا ہوں، میں ایسا شخص ہی نہیں جو کچھ چاہتا ہو۔ میرے لیے بیٹی ہو یا بیٹا، کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ میں بیٹیوں سے زیادہ پیار کرتا ہوں جیسے اکثر والد کرتے ہیں۔ اگر ذہنی دباؤ حاملہ عورتوں کے بچوں کے ذہن پر اس طرح اثر انداز ہوتا جیسا تم نے کہا تب تو غیر ترقی یافتہ دنیا کے نوے فیصد بچے اپنی صنف بدل ڈالنے کی جانب راغب ہوتے۔ تاہم یہ نہ تو بددعا ہے نہ لعنت۔
یہ ایک ذہنی رجحان ہے۔ البتہ فالج ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ درست ہے کہ میرے والد اور میری والدہ کو فالج ہوا تھا۔ والد کو فشار خون کو قابو میں نہ رکھنے کے سبب اور والدہ کو بے قابو ذیا بیطس کے باعث۔ میرے بہن بھائیوں میں سے نہ کسی کو فالج ہوا نہ کوئی اس وجہ سے فوت ہوا۔ میرے بڑے بھائی اور دو بہنیں 80 برس سے زیادہ کے ہیں اور اللہ کے فضل سے ٹھیک ٹھاک ہیں۔ بولتے، چلتے اور تمام کام کرتے ہوئے ماشاءاللہ“۔
” ضروری نہیں کہ باقی بچوں کو بھی صنف سے متعلق مسئلہ ہو، انہیں کچھ اور نقص ہو سکتے ہیں۔ صنف سے متعلق معاملہ تو ان بے تحاشا مسائل میں سے محض ایک ہے جو ایسی صورت احوال سے بچوں میں جگہ بناتے ہیں۔ تنگ نظری سے کام مت لو بس وہ کتاب پڑھو جس کے بارے میں میں نے مشورہ دیا ہے۔ اعصاب سے متعلق بہت سی باتوں کا جواب دے چکی ہے۔
اور ہاں یاد رہے، اکیسویں صدی میں کوئی بھی تولیدی اعضاء کے لیے جنسی اعضاء کی اصطلاح نہیں برتتا۔ اول تو یہ اصطلاح متروک ہو چکی ہے دوسرے یہ کچھ ناراض کن بھی ہے۔ اور ہاں نہ ہی لفظ خواجہ سرا۔ ہم مبدل صنف لوگ ہیں۔ لفظ خواجہ سرا بھی ناراض کن ہے۔ میری استدعا ہے کہ پھر کبھی یہ الفاظ استعمال نہ کریں۔ اور یہ بھی نہ کہا جائے کہ یہ ایک رجحان ہے۔ امریکہ میں سب کچھ کسی کو کہنا ایسے ہی جیسے کسی کو ضرب پہنچائی جائے۔ اس بارے میں مزید پڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ فی الواقعی ناخوشگوار ہے جب لوگ معاملے کو سمجھ نہیں پاتے۔ ایک شخص کو اس کے تولیدی اعضاء سے نہیں آنکا جانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ تم اس سب سے متعلق کھلے ذہن کے ساتھ سوچو گے ”۔
” میں کھلا ذہن رکھتا ہوں مگر پرانی طرز کا باپ بھی ہوں۔ اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ پھر یہ کہ میں امریکی نہیں ہوں۔ میں پیدائشی طور پر مشرق سے ہوں۔ میں نے اس سب کے بارے میں بہت زیادہ پڑھا ہے اگرچہ پورا نہیں۔ دوسرے یہ کہ میں ڈاکٹر ہوں اور سماجی علوم کا طالبعلم بھی۔ میرے ساتھ بحث کرو مگر یہ مت بتاؤ میں کیا ہوں اور مجھے کیا ہونا چاہیے؟ میں بھی تمہیں غلط نہیں کہوں گا اور نہ ہی ملامت کروں گا۔ اپنا خیال کرو اور اچھی نیند لو ”۔
” ہمارے جیسوں کے لیے یہ معاملہ ایک دکھتا نکتہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ تم جانتے ہو۔ ایسا ہونا کوئی سہل معاملہ نہیں ہے۔ معذرت خواہ ہوں اگر کچھ بدتمیزی ہوئی لیکن ہماری گپ ایک طرح سے ناخوشگوار سی رہی۔ میں پندرہ زبانیں سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ برسبیل تذکرہ میں شعر کہتا ہوں اور کہانیاں بھی لکھتا ہوں ان میں کچھ کو اب انگریزی میں ڈھالنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں“۔
” مجھے اپنی تحریریں بھیجو۔ میں انہیں پڑھنا چاہتا ہوں مائی گڈ بوائے۔ اگر مجھے اچھی لگیں تو میں انہیں اپنی زبان میں ترجمہ کرکے اپنے ملک کے ایک معروف ویب پورٹل پر لگوانا پسند کروں گا“۔
” یہ تو بتاؤ کہ سب ایک دم کیسے سامنے آ گئے۔ اب تک نہ میرا باپ سامنے تھا، نہ بہنیں اور بھائی۔ میں اپنے رشتے داروں کے لیے کچھ نہ تھا، مجھے ایسے لگا۔ نہ مدد نہ تعاون، نہ تعلق نہ ربط۔ آپ سب کے مزاج تو ٹھیک ہیں نا؟ ممکن ہے کچھ ایسا ہوا ہو کہ تمہیں وہ دن پھر سے یاد آ گیا ہو جب میرا جنم ہوا تھا۔ یہ آج جو ہوا کتنا عجیب و غریب ہے۔ اور سب سے مضحکہ خیز یہ کہ میں چھ بچوں میں سے ایک ہوں۔ میں ہی واحد فرد جو باپ کے بغیر پلا۔ اس بات کو غلط نہ لینا۔ مجھے واقعی دلچسپی ہے کہ میں اپنے سوال کا جواب سنوں“۔
” میرا خیال ہے تمہاری ماں نے تمہیں ساری باتیں سچ سچ نہیں بتلائیں۔ میں اپنے سارے بچوں سے پیار کرتا ہوں اور میں نے تمہارے لیے ہمیشہ دعا کی۔ رابطے میں رہنے کی کوشش کی مگر تمہاری ماں نے حوصلہ شکنی کی۔ میں شوہر اور باپ کی قسم کا شخص ہی نہیں ہوں۔ میں پہلی بیوی سے بچوں کو جب چھوڑ کے نکلا تھا تو ان بچوں کی عمریں دس اور سات برس تھیں۔ میں تمہیں تب دیکھنے پہنچا تھا جب تم تین برس کی تھی۔ ہم گھومے پھرے، میں نے تمہیں آئس کریم خرید کے دی تھی۔
کھاتے ہوئے تم نے منہ پر مل لی جسے میں نے پونچھا تھا۔ میں تب نیویارک میں تھا جب تمہاری ماں نے مجھے بتایا کہ وہ پچاس فیصد میری ہے اور پچاس فیصد کسی مسٹر بیگ کی۔ میں نے کہا اسی کی سو فیصد بن جاؤ۔ اس طرح ہم جدا ہو گئے۔ پھر میں ایک دوسرے ملک میں تھا اور میری آمدنی کم تھی۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ تمہارے بڑے بہن بھائی اور میری موجودہ بیوی تک تمہیں سوشل میڈیا پہ تلاش کر رہے تھے۔ صرف تمہارے ماموں نے تمہارا فون نمبر دیا تو میں نے تمہیں کال کی لیکن تم نے تب سے اب تک مجھے ایک بار بھی پاپا نہیں بولا۔
تمہاری بڑی بہن ایک اور ملک میں ہے۔ میں نے اسے تمہارے بارے میں سب کچھ بتایا ہے، وہ تم سے رابطہ کرے گی۔ تمہارا بڑا بھائی تمہارے مبدل صنف فرد بننے پر جز بز ہے۔ مگر میں اور تمہاری بڑی بہن تمہارے ساتھ ہیں اور ہمیشہ ساتھ دیں گے۔ میں تمہارا طیش سمجھتا ہوں۔ عقلیت پسند اور مردانہ وار ہونے کی کوشش کرو۔ مجھے یقین ہے کہ تم چڑچڑی عورتوں کی طرح نہیں سوچتے ہوگے۔
گذشتہ تین برس سے میں ایک معمولی پنشن پا رہا ہوں مگر میں ہمیشہ اور ہر وقت تمہاری جتنی ہو سکے مدد کرنے کو تیار ہوں گا ”۔
ہاں، ماما نے بتایا تھا کہ جب میں تین برس کی تھی تو تم آئے تھے۔ بیگ صاحب وفات پا چکے ہیں۔ ثقافت کے فروغ میں مددگار ہونے کی حیثیت سے ان کی تدفین بہتر انداز میں ہوئی تھی۔ لیکن ان تمام برسوں کے دوران ماما ان سے یا کسی بھی مرد سے نہیں ملتی رہی۔ ماما نے مجھے ہر بات دیانتداری سے بتائی اور میں سب کچھ تفصیل سے جانتی ہوں۔ اس نے بتایا کہ جب تم ہماری طرف آئے تھے تو ماما نے اتفاقا ”تمہارا پاسپورٹ دیکھ لیا تھا جس پر درج تھا کہ تم نینا نام کی ایک یہودی خاتون کے شوہر ہو۔
مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
- محبت اور نفسیات - 13/02/2024
- پھر کیا کرنا چاہیے؟ - 14/01/2024
- احمد سلیم مرتے تھوڑا نہ ہیں - 12/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).