جنس تبدیل کرنے والی اولاد اور باپ کے درمیان مکالمہ


اسلام عورتوں کو دھمکاتا ہے۔ میں ایسا مذہب قبول نہیں کر سکتا جو مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا خوفناک تعلق رکھنے کی اجازت دیتا ہو۔

مجھے ایسا مذہب نہیں چاہیے جو عورتوں کی توہین کرتا ہو۔

مجھے مذہب یکسر درکار نہیں اگر وہ مجھے اپنا آزاد وژن رکھنے سے منع کرتا ہو۔

معاف کرنا میں اس کلب میں شامل نہیں ہوں۔

میں اپنا مذہب تخلیق کرتا ہوں۔ میں ان عقائد کے ساتھ جنہیں میں درست خیال کرتا ہوں یہ کتاب پڑھتا ہوں، میں اسے اپنے لیے سچا نہیں سمجھتا۔

میں مذہبی ہونے کے تمہارے انتخاب کو قبول کرتا ہوں مگر مجھے عقیدہ مند ہونے پر مجبور مت کرو۔

میں ایک آزاد شخص ہوں اور میرا ذہن دوسروں کے اثرات سے اس قدر آزاد ہے جتنا آزاد میں خود ہوں۔

میں مبدل صنف، نسائیت پسند اور ہم جنس پرست ہوں۔ مجھے ایسا ہونے پر اتنا ہی فخر ہے جتنا تمہیں اپنے مذہب بارے ”۔

 ” میں چار عشروں تک ملحد رہا۔ اسلام کے بارے فہم کو یا تو اس کے مخالفین نے خراب کیا یا اس سے متعلق بہت کم علم رکھنے والوں نے۔

قرآن ”لا اکراہ فی الدین“ کی تلقین کرتا ہے یعنی دین اسلام کسی پہ تھونپا نہیں جا سکتا۔ وہ جو دوسروں پر اسے تھونپتے ہیں وہ مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں کسی پہ تھونپنے سے نفریں ہوں البتہ کسی کو اس کا گہرا مطالعہ کرنے پر قائل کرنا ہر علم دوست شخص کا فرض ہے۔

یقینا ”میں چاہوں گا کہ میرے بچے سیدھا راستہ اختیار کریں نہ کہ ٹیڑھا میڑھا راستہ۔ تم پر رحمت ہو۔ دعا ہے کہ اللہ تمہیں فنا ہونے سے پہلے زندگی کے کسی بھی حصے میں راہ راست پر لے آئے“۔

 ” افغانستان میں لوگوں نے ایک عورت کو پتھر مار مار کے ہلاک کر ڈالا تھا۔ کیا یہ مسلمانوں کی وحشت پسندی نہیں ہے؟ “

 ” مجھے اس سانحے کا علم ہے۔ ہم لبرل اور ترقی پسند مرد اس کی انتہائی مذمت کرتے ہیں۔ یہ تشدد پسندی سے متعلق ہجوم کی نفسیات کا شاخسانہ تھا۔ دو برس پہلے برما میں بدھ مت والوں نے انسانیت کے خلاف گمبھیر ترین جرائم کیے اور کوئی عشرہ پیشتر ایسے ہی غیر انسانی رویے کا مظاہرہ سربوں نے بوسنیا میں کیا تھا“۔

 ” بہر طور تم نفی نہیں کر سکتے کہ مردوں کا عورتوں کے ساتھ رویہ بہیمانہ ہوتا ہے اور اسلام میں ہی عورتیں اتنی دبی ہوئی ہیں“۔

 ” غلط تشریح ایسے ظالمانہ سلوک کی طرف لے جاتی ہے نہ کہ مذہب اسلام کو اس کا دوش دینا چاہیے۔ “

 ” اچھا معاف کرنا، میں ایسے مرد کا اعتبار نہیں کرتی جس کی چار بیویاں رہی ہوں ہوں اور جو عرصہ پہلے ایک بچے کے ساتھ چھوڑی ہوئی عورت کو بدکردار ٹھہراتا ہو۔ اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں۔ بہتر ہے ہم مذہب سے متعلق بات نہ کریں کیونکہ یہ بے سود ہوگی“۔

 ” تم ہمیشہ تلخ انداز میں ہر بات کو رد کرنے کے درپے ہو۔ ایک جانب تم مرد بننے پر تلے ہو دوسری جانب تم مردوں کے شدید مخالف ہو۔ پھر عجیب وغریب انداز میں ہم جنس ہونے کا دعوٰی کرتے ہو جبکہ تم ابھی صنف مبدل کرکے مرد بننے کے عمل سے گزر رہے ہو۔

تم نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ نہیں کیا اور لغو، سطحی و اسلام دشمن آراء کی بنیاد پر میرے مذہب کی مخالفت کر رہے ہو۔

میں نے محض اپنے طور پر کسی سے بیاہ نہیں کیا۔ میں بیاہ کے ادارے کا مخالف ہوتے ہوئے بیاہ کے خلاف رہا اور خلاف ہوں مگر مجھ میں اتنی اخلاقیات رہی کہ بیاہ کا تقاضا کرنے والی کسی خاتون کو انکار نہ کر سکا جن میں سے ایک وہ تھی جس نے تجھے جنم دیا اور جو ہمہ وقت جھگڑنے پر آمادہ رہتی ہے۔ ابھی تو تمہارے بینک کارڈ پر بھی تمہارا نام لڑکیوں والا ہے۔

میں نے تم سے تقاضا نہیں کیا کہ تم مجھ پر اعتبار کرو۔ مجھے کسی سے بھی بشمول تمہارے کسی نوع کی سند درکار نہیں ہے ”۔

 ” معاملہ یہ ہے کہ شناختی کارڈ پر نام فورا“ نہیں بدل سکتا۔ یہ ایک طویل عمل ہے جو جاری ہے۔ میں نے اس نام سے خود کو عمر بھر نہیں پکارا تو پھر یہ میرا نام کیسے ہو سکتا ہے، میں چاہے جو بھی ہوں۔

اور میں نے کوئی اسلام مخالف بات نہیں کی۔ اسلام خود کو اپنی مخالفت کیے جانے کو تب پیش کرتا ہے جب اسے ماننے والے قابل اعتراض اعمال کرتے ہیں۔ تمہارے اپنے افعال اس نظریے سے متضاد تھے جس کا تمہیں دعوٰی ہے۔

میں تلخ ہوں اس لیے میں ضد یاسیت ادویہ لے رہا ہوں پھر بھی معذرت۔

معاف کرنا، میں اکیس برس کا ہوں۔ میرے مغز میں شخصیت کی تشکیل کرنے والا حصہ مکمل ہو چکا ہے چنانچہ دنیا کے بارے میں میرا اپنا ایک وژن ہے۔

میری اپنی سوچیں ہیں اور میں جانتا ہوں کہ میں کیا سوچتا ہوں۔

پھر مسلمان اکثریت والی آبادی میں رہتے ہوئے کوئی اسلام مخالف کیسے ہو سکتا ہے۔ میں مخالف نہیں ہوں۔ کسی کو بھی اپنے مذہب سے اختلاف نہیں ہوتا مگر جب وہ اسے قبول کرتا ہے تو اس پر پورا نہیں اتر سکتا۔ میرا ماموں مسلمان ہے، میری نانی بھی، جیسا کہ وہ زبانی کلامی کہتے ہیں۔ ٹھنڈے ہو جاؤ اور کہہ دو معذرت!

کیا تمہیں یقین ہے کہ تم میرے ساتھ چل پاؤ گے؟

تم مجھ سے کیا توقع کرتے ہو؟ ”

 ” تمہارے ساتھ چل سکتا ہوں؟ تو سنو، ایک لبرل، پروگریسیو اور ڈیموکریٹ انسان کے طور پر ہاں بلکہ یقینا“۔ ایک معمر مشرقی باپ کے طور پر کچھ دشوار ہے اور ایک عملی مسلمان کے طور پر بہت ہی زیادہ دشوار۔

تم اکیس برس کے ہو تبھی تو تمہیں عقلیت پسندی پر مبنی گفتگو کرنے کو کہا ہے نہ کہ نوعمر نوجوانوں کی طرح بات کرو۔

عمر کے مختلف ادوار میں تجربے اور وسیع مطالعے کی بنیاد بہت سے خیالات اور تصورات تبدیل ہوتے ہیں۔ میں آئندہ برس 6 جنوری کو 69 برس کا ہو جاؤں گا چنانچہ میرے تصورات و خیالات راسخ ہیں، پھر بھی میں انہیں موقع و محل کے مطابق ڈھال سکتا ہوں ”۔

دو روز بعد اردژ نے وٹس ایپ پر ایک انگریزی نظم کی وڈیو بھیجی اور باپ کو بلاک کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments