کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے…


ہماری اماں کو یقین تھا کہ کسی عورت کی نظر میں اول تو یہ ’بنٹا‘ جچے گا ہی نہیں اور اگر قسمت کی بھول چوک سے ہمیں کوئی بردکھوا نصیب ہوا بھی تو ہم پورے نمبروں سے فیل ہوجائیں گے اور اماں کو دوسری طرف سے بھی کوئی امید نہیں تھی کہ کسی کا دل ہم پر بری طرح آ جائے گا اور وہ اپنی سدھ بدھ بھول بھال اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑجائے گا۔ اور اگر ایسا ہو بھی جاتا، تو اماں اسے نفسیاتی مریض کہہ کر خود ہی فارغ کر دیتیں، کیوں کہ یہ تو طے تھا کہ کوئی بھی شخص بقائمی ہوش و حواس ہمارے عشق میں گرفتار نہیں ہو سکتا اور دادا حضور والے واقعے کے بعد تو وہ اور بھی کھٹک گئیں اور اب تو مایوسی کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی رنڈوے کو بھی سینے سے لگانے کو تیار تھیں۔

جب ہم اماں کے ہی معیار حسن پر پورے نہیں اترتے تو اوروں کی کیا بات کیجیے۔ اکثر آہ بھر کر کہتیں، ”اے دلہن! یہ اس کی ناک پر پہیہ سا کیسا پھر گیا ہے، ہائے بس ذراسی ناک ستواں ہوتی، ذرا سا قد اونچا ہوتا۔ “ وہ اور کلس جاتیں۔ ”ہائے گندمی رنگ وہ بھی سوختہ“۔ پھر وہ مزید ہاتھ ملتیں، ”ہائے بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی کہ اللہ میاں نے اتار دیا۔ ارے بس رہنے دیا ہوتا۔ ایسے دینے کا کیا فائدہ! “ ایک دفعہ خورشید خالہ نے غور سے ہمیں دیکھتے ہوئے کہا تھا، ”شجو! اسے ایک اسنو کی شیشی لاکر دو اور کہو کہ روز رات کو لگا کر سوجایا کرے۔ “ اور دوسرے ہی دن ہم نے وہ شیشی ننھی (ثروت) کے سر پر پھوڑ دی تھی۔

ہر لڑکی کی شادی میں دو عوامل بری طرح کار فرما ہوتے ہیں یا تو وہ انتہائی حسین و جمیل ہو، سروقد، گلابی رنگ، کٹوراسی آنکھیں، مسکراتے یا قوتی ہونٹ، نازک سی، گھٹاؤں جیسے لمبے بال، چال ہرنی سی مستانی چلے اور مغرور اتنی ہو کہ ناک پر ’مکھی‘ نہ بیٹھنے دے کیوں کہ یہ جگہ ایک عدد احمق مگر امیر شوہر کے لیے خالی رکھنا چاہیے، یا اگر وہ شکل میں مار کھاتی ہو (ہماری طرح) تو کم ازکم سیرت میں یکتا ہو۔ کھانا ایسا پکاوے کہ لوگ اپنی انگلیاں کھا جائیں، پتیلیوں میں گھس کر بیٹھ جائیں اور واپس باہر آنے سے انکار کردیں اور یوں وہ شوہر کے ’معدے‘ کے راستے اس کے دل میں اتر جاوے (اس خیال سے ہمیں اکثر ابکائیاں آ گئیں ) شاید یہی وجہ ہے کہ ہم ہر کام میں کورے رہ گئے۔

اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، ہم تو ’دونوں ہاتھوں‘ سے خالی تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم نے پورا کھانا پکایا تھا تو گھر والوں نے دوپہر کو فاقہ کاٹا اور بھائی جان نے چھوئے بغیر فیصلہ دے دیا کہ یہ کھانا کتے، بلیوں کے لیے تو کھانا ہو سکتا ہے، ہمارے لیے ہرگز نہیں۔ ہمیں اور زیادہ کوفت اس وقت ہوئی جب ہم نے اپنی پیاری بلی ’گوشی‘ کے سامنے وہ کھانا رکھا تو ہمیں اس کی تیوریوں پر بل صاف نظر آئے اور تو اور، وہ منحوس گلی کا کتا بھی اس کھانے کو سونگھے بغیر دم دبا کر چلتا بنا۔

ایک دفعہ ہم نے ہنٹر بیف بنایا، بے خیالی میں طاہرہ (بھابی) نے اسی پتیلی کا ڈھکن کھول کر اندر جھانکا تو چیخ مار کر وہیں پٹخ دیا کہ یہ کون سا جانور اس پتیلی میں گھس کر بیٹھ گیا ہے۔ ایک دن ہم نے کوفتے بنائے تو منے (سعید) نے ان سے دو دن تک تو نشانہ بازی کی مشق کی، جس کے نتیجے میں تیسرے دن وہ دشمن کا سر پھوڑنے میں کامیاب ہو گیا اور جب ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو پانچ کوفتے لے کر ہم نے بھی ’گٹے‘ کھیلنے شروع کر دیے۔ ایک دفعہ ہم نے چاول پکائے تو بھائی جان نے نہ صرف ان سے پتنگیں جوڑنے کا کام لیا، بلکہ ان سے اپنے جوتے بھی جوڑ لیے۔ اور ایک دن ہم نے روٹیاں بنائیں تو تین دن تک بچے اس کی پلٹیں بناکر گھر گھر کھیلتے رہے!

اپی (زاہدہ خالہ) کو لاہور پیرانی نانی کے پاس جانا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں امی کے پاس آئیں کہ اجو (عذرا) کے پاس کون رہے گا۔ اور یوں ہم رجو (رضوانہ ہماری ماموں زاد بہن) کے ساتھ اجو کے پاس پہنچ گئے۔ مردوں میں ندو (ندیم) تھے، جنہیں اپی کسی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے مرد سمجھ کر ہماری حفاظت کے لیے چھوڑ گئی تھیں اور جنہیں ہم نے کاغذی بھوتنا منہ پر لگا کر پہلے ہی دن ڈرا دیا تو چیختے ہوئے پورے گھر میں ناچتے پھرے اور بڑی مشکل سے ان کا سانس واپس ان کے اندر سمایا تھا۔

اپی نے دو ہفتوں کا گوشت پکا کر فریزر میں رکھ دیا تھا، جو کہ ہم ایک ہی ہفتے میں چٹ کر گئے۔ پھر اجو نے فیصلہ کیا کہ ہم تینوں باری باری کھانا پکائیں گے۔ پہلے دن اجو نے کھانا پکایا، ہم نے چٹنیاں بنائیں، مصالحے پیسے، برتن دھوئے، کھانا لگایا۔ دوسرے دن رجو نے کھانا پکایا، بڑا مزا آیا۔ ہم اپنے کام میں طاق تھے تو وہ اپنے کام میں یکتا۔

تیسرے دن ہم نے باورچی خانے میں پاؤں رکھا، جب گھسے تھے تو ہر چیز صاف ستھری چمکدار، اپنی اپنی جگہ پڑی پلکیں جھپکار ہی تھی، مگر جب کھانا پکانے کے بعد ہم نے انہیں آواز دی تو دروازے سے چولہے تک پہنچنے کے لیے انہیں خاصی تگ ودو کرنا پڑی۔ رجو کا پاؤں دال کی پتیلی میں جاتے جاتے بچا۔ اجو دوسرے پتیلے میں غوطہ لگانے سے تو بچ گئیں، مگر تسلے پر ایسا پاؤں پڑا کہ وہ پھسلتی ہوئی دوسرے دروازے سے باہر نکل گئیں۔ بہرحال، کسی طرح رجو چولہے پر چڑھے بغیر پتیلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں اور پھر جو انہوں نے اندر جھانکا تو ہمیں لگا کہ وہ باہر نہیں آئیں گی، ان کے سفید چہرے اور بھنچے ہوئے ہونٹوں سے ہمیں شبہ سا ہوا کہ کہیں سانس روکے روکے وہ اللہ میاں کے ہاں تو نہیں چلی گئیں۔ پھر جو آواز ایک دم ان کے حلق سے برآمد ہوئی تو اسے آواز کم غراہٹ زیادہ کہیں گے، بلکہ ہمیں تو وہ ایک زنگ آلود انجن کی پہلی غراہٹ محسوس ہوئی۔

”یہ تم نے ’طہری‘ پکائی ہے؟ “

وہ ہمارے منے سے کان میں دھاڑیں۔ ”یہ چاول ہیں؟ لگتا ہے ہر دانہ مارے خوف کے دوسرے سے لپٹ گیا ہے۔ یہ طہری پکائی ہے انہوں نے؟ وہ اجو کے کندھے سے (جو اب ایک پتیلی پر سوار ہو کر واپس آ گئی تھیں ) سر ٹکا کر باقاعدہ رونے لگیں۔ اجو نے جو پتیلے میں جھانکا تو ان کی آنکھیں بند ہونا بھول گئیں اور پھر فوراً آنسوؤں سے لبالب بھر گئیں، “ یہ ہم کھائیں گے؟ یہ لئی؟ ”انہوں نے پلٹ کر بے بسی سے رجو کو دیکھا، “ اتنی یرقان زدہ؟ ”

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7