کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے…


اگر ہم نے یہاں مچھلی پکائی بھی تو وہ کون سے جانور کی شکل اختیار کرے گی؟ ابھی ذہن پر زور ڈال ہی رہے تھے کہ اکو (چھوٹی نند) نے زور سے کہا، ”آج نہیں، آج تو رات کا کھانا ہمارے گھر ہے۔ “ شکر ہے ہم نے روکا ہوا سانس واپس کیا، ورنہ آج تو اماں کو ضرور پتا چل جاتا کہ بوؤ ماں صرف ہانڈیوں کو ہاتھ ہی لگانا جانتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ وہ اسے الٹ دیں گی۔

یہاں آنے کے بعد ایک بات جو ہم نے محسوس کی، وہ یہ کہ ہمارے میاں کی نظریں کچھ بدل سی گئی ہیں۔ اب وہ جب مرغی کا سالن کھاتے، تو ہمیں ان کی آنکھوں میں یہ گلہ صاف نظر آتا تھا، اچھا تو تم ہمیں بیوقوف بناتی رہیں، دیکھا! مرغی کی شکل بالکل مرغی جیسی ہوتی ہے، الو جیسی نہیں۔ گائے اپنی اصل شکل میں ’لگڑ بھگا‘ ہرگز نہیں ہوتی۔ اور مچھلی ایسی ہوتی ہے نہ کہ ویسی، جو تم نے چوہے کی شکل میں ہمیں کھلائی تھی۔

اور پھر ان ایک مہینے بارہ دنوں میں میاں کی نظروں میں ہماری مقبولیت کا گراف تیزی سے گرتا چلا گیا، جیسے بیروں سے لدی جھاڑی کو زور زور سے ہلائیں تو پٹا پٹ بیر گرتے ہیں۔ انہیں پتا چل گیا کہ کو فتوں اور بنٹوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، اور وہ ’لئی‘ ، جسے وہ بھات سمجھ کر کھاتے تھے، دراصل پتنگوں کو جوڑنے کے کام آتی ہے۔ اور پھر تو ’ان‘ کا مردہ ذوق و شوق دوبارہ انگڑائیاں لے کر جاگ اٹھا جیسے سات سروں والی بلا، خطرہ سر پر پاکر جاگ اٹھتی ہے اور ناکوں سے دھواں اور منہ سے شعلے چھوڑنے لگتی ہے۔ غور سے دیکھنے پر ہمیں یوں لگا، جیسے ان کے کندھوں پر منے منے چھ سر اور اگ آئے اور آہستہ آہستہ منہ اور آنکھوں سے شعلے اور ناک سے دھواں سا نکلنے لگا۔

اور یوں ان کے وہ حواس خمسہ، جو کراچی کی دھول مٹی اور بسوں کے دھوئیں نے معطل کر دیے تھے، خصوصاً سونگھنے اور چکھنے کی حس، دوبارہ جاگ اٹھی اور واپسی کے بعد تو یہ عالم ہو گیا کہ ائرپورٹ پر اترتے ہی آنکھوں میں خون اتر آیا اور تیوری پر بل آ گئے۔ بات بات پر کاٹنے کو دوڑنے لگے اور اب تو یہ عالم ہے کہ

”یہ تم نے بھنڈی پکائی ہے یا بھنڈار خانہ؟ “

”ارے! کیا یہ ٹماٹر مارے خوف کے سفید پڑگئے ہیں، ان کا رنگ کہاں گیا؟ “

”یہ دل کیسے جل گیا؟ “

”یہ۔ یہ تم نے ہلدی ڈالی ہے؟ کیا آج اس لوکی کا مایوں تھا؟ یہ ترئی ہے کہ لئی؟ “

اور۔ اور یہ بریانی ہے؟ لگتا ہے کہ ہر چاول حلق تک زردہ پی گیا ہے۔

ایک دن فرمانے لگے، ”بیگم! ذرا مرغے کا شوربہ ڈونگے میں ڈال کر تو لانا۔ “

ہم نے پوچھا، ”وہ کیوں؟ “

سر جھٹک کر بولے، ”مسجد کے امام صاحب سے فتویٰ لینا ہے کہ کیا مرغے کے اس شوربے سے وضو جائز ہے؟ ’صاحب! ہمیں تو پتنگے لگ گئے، مگر مجال ہے جو اطمینان میں ذرا فرق آیا ہو۔

اسی طرح ایک دن فرمانے لگے، ”بیگم پلیز! مائنڈ مت کرنا اس ’سالن‘ کو ڈسٹ بن میں ڈال آؤ، وہ کم بخت بلی چار دن سے میاؤں میاؤں کر رہی ہے اچھا ہے۔ منحوس۔ “

ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ سامنے والے پریشان سے آئے کہ ”محلے میں آوارہ کتے بہت سے آ گئے ہیں، کیا کیا جائے؟

متانت سے سرہلا کر جواب دیا،

”ہماری بیگم سے کھانا پکوا کر جگہ جگہ پھنکوا دیں، خود ہی مرجائیں گے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7