کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے…


”نہیں! “ رجو کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی اور وہ بیہوش ہو کر گرنے ہی والی تھیں اور اس سے پہلے کہ وہ کسی دیگچے میں جاتیں ہم نے بروقت انہیں سنبھال لیا۔ شرمندگی کے مارے ہمارا منہ لال تھا اور اور آنکھیں کسی نئی نویلی دلہن کی طرح جھکی ہوئی تھیں۔ ان کی غراہٹ دوبارہ بیدار ہوئی۔ رجو نے چمٹا اٹھایا اور اجو نے ڈوئی اور رجو بڑے سنگین لہجے میں گویا ہوئیں، ”سنو! تم اپنی اوقات میں رہنا سیکھ لو تو بہتر ہے۔ جس طرح تم اپنے قد سے بڑے اور ڈھیلے کپڑے پہن کر زیادہ جگہ گھیرنے اور بڑی نظر آنے کی کوشش کرتی ہو، اسی طرح تم اپنی شکل سے یہ دھوکہ بھی بہت اچھا دیتی ہو کہ تم خاصی سلیقہ مند ہو، مگر جیسا تمہارا حلیہ ہے، ویسا ہی تمہارا کھانا، تمہاری طرح بالکل ننگے پاؤں۔

خبردار! آئندہ بس چٹنیاں، سلاد بنانے یا آٹا اور ہماری چٹیا گوندھنے سے آگے مت بڑھنا ورنہ بہت ممکن ہے کہ اجو تمہاری گردن کی بوٹیاں بن اکر ہمیں کوئی اچھا سالن پکا کر کھلا دے۔ یہ ایسے کاموں میں بڑی طاق ہیں، بلکہ تمہیں تو کچا بھی چبایا جا سکتا ہے، کھیرے کی طرح۔ ”وہ دانت پیس کر بولیں۔ “ ویسے تو ہمیں مرغی کی گردن بہت پسند ہے، مگر ہمیں یقین ہے تمہاری گردن بھی کافی مزیدار پکے گی۔ ”اجو کی نظریں ہماری گردن پہ تھیں اور ہم وہاں سے بھاگ لیے۔ پھر تو یہ عالم تھا کہ اگر کبھی بھولے سے کسی ڈش کو پکانے تو کیا چھونے کا ارادہ بھی ہماری آنکھوں سے جھانکا تو ایک دم دو انجن اسٹارٹ ہو گئے، “ اونہہ، نہیں تم باہر جاؤ، دھنیے کی چٹنی پیسو۔ ”اور ہم دانت پیستے ہوئے اسی کام میں لگ جاتے۔

ہمیں گھسے ہوئے بد رنگ اور اپنے جیسے پھٹے پرانے کپڑے بہت پسند تھے۔ ایک ’بنیا‘ ہماری اسی صفت پہ مرمٹا تھا (اس کے ابا کباڑیے تھے )۔ اس کا خیال یہ تھا کہ اس سے زیادہ کم خرچ بالا نشیں نسخہ ہو ہی نہیں سکتا، لڑکی کو جو پہنادو، پہن لے گی، جو کھلا دو، کھالے گی۔ مگر ہماری اماں کھٹک گئیں کہ کہیں افراتفری میں زیادہ مال اٹھوایا تو ہماری منی بیگم کو بھی بے دھیانی میں وہ پرانا مال سمجھ کر اونے پونے نہ بیچ دے، اس لیے وہاں منع ہو گیا۔ ویسے ہمیں دادا حضور نے اسی حلیے میں پسند کیا تھا (تنخواہ ان کی بھی زیادہ نہ تھی) حالاں کہ سوداؔ بہت پہلے انہیں سمجھانے کے لیے کہہ گئے تھے :

سودا جو تیرا حال ہے، اتنا تو نہیں وہ

کیاجانیے تونے اسے کس حال میں دیکھا؟

ایک دن اماں بری طرح تلملا گئیں، ”اے! جب دیکھو بھائی کے کپڑے چڑھائے اور آستینیں الٹ لیں۔ اے دلہن! تمہیں کچھ ہوش بھی ہے، چھوٹی گئی اپنے گھر اور یہ یوں ہی اپنے قد سے بڑی چپل پہنے سڑپٹر پھرتی رہ جائے گی۔ اور یہ تم اسے بچہ کیوں سمجھتی ہو، ارے کوئی فکر پریشانی تمہیں ہے بھی کہ نہیں۔ “ امی نے حسب عادت مسکراکر سروتا پاندان میں رکھا اور اللہ میاں کے کندھوں پر ہمارا بوجھ ڈال کر اٹھ کھڑی ہوئیں مگر اماں اور خورشید خالہ سر جوڑ کر بیٹھ گئیں کہ کس کی قسمت پھوڑی جائے اور وہ کون سی ترکیب ہو کہ ہم ’اپنے گھر‘ کو سدھاریں (ان دنوں ایدھی کے ’اپنا گھر‘ کے چرچے اتنے عام نہیں تھے )۔

اور پھر ہوا یوں کہ سامنے والی اماں، طارق چچا کی بیوی اور شفیق بھائی کی بیوی، سبھی اس تگ ودو میں لگ گئیں کہ اس ’بنٹے‘ کو ایسا چمکدار موتی ثابت کیا جائے کہ دیکھتے ہی لڑکے کی آنکھیں پھوٹ جائیں (قسمت تو خیر بعد میں پھوٹ ہی جائے گی) اور وہ بے چارا، بے خبری کے عالم میں آنکھوں دیکھی ’مکھی‘ نگل لے یعنی ہمیں بیاہ کر لے جائے۔ وہاں ہو سکتا ہے کہ بعد میں ہمیں اس کے بچوں کو پالنے کا ’چھٹا‘ کام مل جائے اور جب تک اس کی آنکھیں کھلیں یہ ’چھوٹا‘ اپنی کارگزاری سے اس کا دل جیت لے (جس کا امکان سو میں سے صرف ایک فیصد تھا) اور وہ اس کو اپنے گھر میں رہنے کی تھوڑی سی جگہ دے دے۔ آنکھ کھلنے کے بعد کیا ہوگا؟ یہ بعد کی بات تھی زیادہ سے زیادہ۔ ہی تو دے دے گا۔ دے دے، مگر کم ازکم اس طرح کہہ تو سکیں گے کہ ہاں بھئی اس کی بھی شادی ہوئی تھی۔

مگر عورتیں اس مشن میں بری طرح ناکام ہو گئیں۔ وجہ؟ ظاہر ہے کہ عورتیں کبھی عورتوں کی باتوں میں نہیں آتیں، وہ بیان کا اسی فیصد حصہ از خود حذف کر کے چلچلاتی ہوئی دھوپ میں عین دو بجے، لڑکی پر چھاپا مارتی ہیں اور لڑکی کو اس کی بالکل اصلی شکل میں دیکھنے میں ضرور کامیاب ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے اس وقت نہ تو وہ تیار ہوتی ہے اور نہ ہی چائے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اور پھر لڑکی؟ وہ بھی ہم جیسی؟ پسندیدگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر صاحب پھر بھی بات بن ہی گئی اور وہ بھی ایک نہیں، دو مردوں (جاوید بھائی اور سلطان صاحب) کی کوششوں سے ’ان‘ کا رشتہ ہمارے لیے آیا۔

جاوید بھائی نے ’ان‘ سے ہمارے پاپا کا حسب نسب، پاپا کی شرافت، ان کی ذہانت اور ان کے اندر چھپی ہوئی پراسرار کشش اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ کا ذکر کیا۔ اور یہ بھی بتایا کہ جب وہ شرماتے تھے تو حجاب کے گلال سے ان کے چہرے پر پھلجھڑیاں سی پھوٹتی تھیں اور جب وہ نظریں جھکاتے تھے تو پلکیں کافی لمبی اور نوکیلی محسوس ہوتی تھیں۔ چہرے پر ایسا بھولپن اور نمک تھا کہ لگتا تھا کہ پوری نمک کی کان منہ پر دھری ہے۔

جتنا چاہے کھود کر نکال لو، مجال ہے جو کمی محسوس ہو، آنکھوں کی چمک پر ستاروں کا گمان ہوتا تھا۔ اور آخر میں جب ان کا سانس پھول گیا تو ایک جملہ ان کے منہ سے نکلا، جسے جملہ کم اور سرگوشی زیادہ کہیں گے۔ کہ۔ ”لڑکی بالکل باپ کی شکل ہے۔ “ (ہمیں یقین ہے کہ اس وقت جاوید بھائی کے اس سفید جھوٹ پر ہمارے پاپا نے تلملا کر قبر میں ضرور کروٹ لے لی ہوگی)۔ بہرحال، جاوید بھائی کا انداز بیان ایسا دلنشیں تھا کہ ’ان‘ کا دل ہمارے پاپا پر بری طرح آ گیا! وہ تو شکر ہے کہ وہ بہت پہلے اللہ میاں کے ہاں چلے گئے، ورنہ بہت ممکن ہے کہ یہ رشتہ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7