کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے…


خیر صاحب یوں پاپا کے نام پر ہمارا اور ان کا رشتہ طے ہو گیا۔ اس رشتے میں سب سے اچھی بات (ہمارے لیے ) اور حماقت (ان کی طرف سے ) یہ ہوئی کہ ’انہوں‘ نے چھوٹتے ہی کہا کہ بس پندرہ دن کے اندر اندر ہماری شادی کردو، ورنہ ہم نے ایک لڑکی اور دیکھ رکھی ہے۔ اماں نے برا منائے بغیر سکون کا ایک لمبا سانس لیا اور لڑکے کا ماتھا چوم لیا، ورنہ انہیں یہ خدشہ تھا کہ اگر ’عبوری دور‘ میں لڑکے نے لڑکی کو نظر بھر کر دیکھ لیا تو ممکن ہے کہ وہ اپنا خیال بدل دے۔

اور اگر یہ عرصہ اور طویل ہوا تو لڑکی کو اتنے دنوں تک پردے کے بہانے کیسے چھپائیں گے۔ اچھا ہے، جتنی جلدی یہ بلا سر سے اترے۔ ساتھ ہی ایک تشویش نے بری طرح انہیں پریشان کر دیا کہ لڑکے کی آنکھیں تو ٹھیک ہیں ناں؟ اور وہ اس کوشش میں لگ گئیں کہ شادی سے پہلے وہ دوبارہ اپنا نمبر چیک کرانے ڈاکٹر کے پاس نہ چلے جائیں۔

اب آپ خود ہی سوچیے کہ ’ہم‘ ، جسے چھوٹے بہن بھائیوں نے ’آپا‘ کہنے کے قابل بھی نہیں سمجھا، جنہوں نے ہمیشہ کراری آواز میں ہمیں، منی کہہ کر آواز دی ہو۔ دروازے پر دھڑ دھڑ ہے تو منی تم جاؤ، ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ہے تو بھئی تم ہی اٹھاؤ۔ دیکھو باہر جمعدار کھٹ کھٹ کر رہا ہے۔ جاؤ جاکر آٹا گوندھ لو، برتن دھولو۔ وہ ’منی‘ اتنی ’معتبر‘ کیسے ہو گئی کہ یونیورسٹی کے ایک لیکچرار نے اسے ’پسند‘ ؟ کر لیا۔ رشتہ طے ہوتے ہی سب کی نظریں بدل گئیں، ان میں ایک عجیب سی کیفیت اتر آئی، جسے احترام یا محبت تو ہرگز نہیں کہیں گے۔

ہاں البتہ آپ اسے ایک بے یقینی کی کیفیت کا نام ضرور دے سکتے ہیں، جس میں انتہائی درجہ تضحیک اور کشمکش گھلی ہوئی تھی، یہاں تک کہ منا، بابو، بے بی (سعید، حمید، فرحت) بھی جب ذرا احترام سے آواز دیتے تو بھی وہ شکوک و شبہات سے لبریز ہوتی۔ اول تو انہیں یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ پھٹے پرانے، گھسے ہوئے کپڑے پہننے والی لڑکی نئے نویلے، چمکدار اور بھڑکیلے کپڑے پہنے گی۔ یہ کیسی لگے گی؟ وہ حیران و پریشان تھے کہ اس کے پاؤں میں جوتے یا چپل کیسے لگیں گے؟

ادھر چچی جان پریشان تھیں کہ اسے تو کوئی کام بھی ڈھنگ سے کرنا نہیں آتا۔ گلاس مانگا تو پلیٹ گرادی، سیدھی چلی تو اماں سے جا ٹکرائی، دائیں مڑی تو دروازے کو ٹھوکر ماردی۔ انہیں یقین تھا کہ یہ آرام سے اپنے میاں کی ’چٹنی‘ تو بنا دے گی اور ساس کا قیمہ بھی، مگر پکانا ریندھنا اس کے بس کی بات نہیں۔ خالد بھائی جان کو یہ تشویش کھائے جا رہی تھی کہ اگر کہیں جذبات میں آ کر غرارہ پہن کر برتن دھونے بیٹھ گئی تو کیا ہوگا؟

خورشید خالہ کو یہ ڈر تھا کہ یہ جو، بلی کی طرح سارے گھر میں ’چک پھیریاں‘ کھاتی ہے، دلہن بن کر تین چار گھنٹے ’نچلی‘ کیسے بیٹھے گی؟ اور جو اس نے گھونگھٹ کی آڑ سے مہمانوں کو تاڑنا شروع کر دیا تو لوگ کیا سوچیں گے؟ چھوٹی چچی کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ یہ اتنی دیر تک کیسے چپ بیٹھے گی۔ اسے تو دلہن بننے کی بالکل عادت نہیں ہے، نہ اس نے آج تک قریب سے کوئی دولہا دیکھا ہے۔ اور اگر یہ اس کو دیکھ کر ہنس پڑی، جیسا کہ عموماً کسی نئی اور ’عجیب‘ چیز کو دیکھ کر لوٹ پوٹ ہوجاتی ہے تو اسے کیسے قابو کیا جائے گا؟ عرفان بھائی جان یوں پریشان تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لپک جھپک غرارہ سنبھالتی براتیوں کے استقبال کو دوڑی چلی جائیں۔ اور اگر کہیں زیادہ اخلاق میں آ کر سسرال والوں سے گلے ملنے لگیں تو کیا ہوگا؟ ان سے تو کوئی بعید نہیں کہ یہ دولہا میاں کو بھی گلے لگالیں۔

اور ادھر خود ہم بھی عجیب کشمکش اور بے یقینی کا شکار تھے۔ بار بار آئینے میں جھانکتے تھے اور حیران ہوتے تھے کہ اماں نے ’ان‘ کی آنکھوں میں دھول جھونکی تو کیسے؟ شاید اسی لیے وہ ہمیں، اب دروازہ کھولنے سے منع کرتی تھیں کہ اچانک اگر کسی شبہ کی تصدیق کرنے ’نوشے میاں‘ آن دھمکے اور انہوں نے چشمہ بھی بدل لیا اور ستم بالائے ستم اگر ہم نے دروازہ کھول دیا تو کیا ہوگا؟ اسی خطرے کے پیش نظر جہاں انہیں پتا چلتا کہ دروازے پہ نوشے میاں کھڑے ہیں، تو ہمیں اسٹور میں دھکیل کر کنڈی چڑھا دی جاتی اور ہم اسٹور میں بیٹھے بیٹھے حیران ہوا کرتے کوئی ہم سے کیسے شادی کر سکتا ہے؟

انہوں نے ہمیں کبھی دیکھا بھی ہے یا پاپا کی تصویر سے ہی کام چل گیا؟ ویسے بھی پاپا خاصے ’فوٹو جینک‘ تھے۔ اگر انہوں نے ہمیں اپنی اصلی حالت میں دیکھ لیا تو کیا کریں گے؟ چیخ ماریں گے یا صرف بیہوش ہوجائیں گے؟ اماں کی گود میں چھپنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بنگلا دیش میں ہیں۔ نیٹی جیٹی کا پل ان کے گھر سے کتنا دور ہے؟ مایوسی کی صورت میں کیا وہ اتنی ’زحمت‘ کریں گے کہ خود کشی کرنے اتنی دور جائیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب باتوں کا احساس ہمارے گھر والوں کو بھی تھا، لہٰذا ہماری لیپا پوتی میں خاصے اہتمام سے کام لیا گیا اور ہمیں ’پینٹ‘ (Paint) کرنے کا کام شہناز باجی کے سپرد کر دیا، جنہوں نے کمال مہارت سے ہماری اصلی شکل چھپا دی۔ اور یوں ہم ’منی‘ سے ایک ’ہاؤس وائف‘ بن گئے!

اب اگر آپ اس صدی میں بھی معجزوں کے قائل ہیں تو ہم آپ کو بتائیں کہ اسٹیٹس کے اس فرق نے تو پہلے ہمارے ہوش ہی کھو دیے۔ اور جب ہوش آیا تو مارے خوشی کے باچھیں یہاں سے وہاں تک کھل گئیں۔ جب ہمیں پتا چلا کہ اتفاق سے ہماری شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے، جو نہ صرف ایک مدت سے ’رومانوی فاقے‘ کا شکار رہا، بلکہ قحط سالی کا یہ عالم ہے کہ ان کی منگیتر نے بھی ’بزدل‘ قرار دے کر اپنا پلہ چھڑالیا۔ کیوں کہ جب انہوں نے گرلز ہوسٹل کے سامنے برگد کے درخت کے نیچے ملنے کو کہا تو یہ تھرتھر کانپنے لگے کہ وہاں تو بہت سانپ ہوتے ہیں، اگر عین ملاقات کے وقت کوئی نکل آیا تو ممکن ہے کہ مارے ڈر کے وہ ان سے لپٹ جائیں تو لوگ کیا کہیں گے؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7