شوبھا ڈے: سوفٹ پورن ادیبہ یا سنجیدہ صحافی ؟


سوال: آپ کا جو آخری ناول منظر عام پر آیا ہے اس کا نام کیا ہے، اس کا موضوع کیا ہے اور کیا یہ پاکستان میں دستیاب ہے؟

جواب: پاکستان میں لبرٹی بکس کے ذریعے میرا نیا ناول جو قارئین تک حال ہی میں پہنچا ہے۔ اس کا نام ہے SHETHJI۔ جو در اصل SHETHJI نام کے کردار کے گرد گھومتا ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر مختلف ممالک کے سیاسی نظام پر مبنی ہے جس میں SHETHJI کو ایک بد عنوان شخص کے تحت ایک مضبوط کردار کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ جو بہت دل چسپ کردار ہے اور اس کے ذریعے بر صغیر اور پوری دنیا کے سیاسی نظام کے مختلف پہلوؤں کو دل چسپ انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اور پاکستان سے واپس جانے کے بعد میں اپنی نئی کتاب پر کام کا آغاز کروں گی کیوں کہ ممبئی میں جب موسم برسات کا آغاز ہتا ہے تو وہ مجھے بہت متاثر کرتا ہے اور برسات کا موسم شروع ہوا ہی چاہتا ہے تو میرے خیال میں نئی کتاب کو لکھنے کے لیے یہ ایک صحیح وقت ہو گا۔

سوال: پاکستان کی کسی ایسی خاتون مصنف کا نام، جن کی تصنیف نے آپ کو متاثر کیا؟

جواب: ابھی دو ہفتے قبل ہی کراچی کی ایک خاتون رائٹر صبا امتیاز کی کتاب Karachi، You’re Killing Me! میں نے پڑھنا شروع کی ہے جو بہت ہی دل چسپ کتاب ہے۔ جس میں جدید کراچی میں رہنے والے نوجوانوں کی زندگی کے مختلف گوشوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ صبا امتیاز کا شمار نوجوان صحافیوں میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے اپنی نو جوانی کا زمانہ یاد آ گیا کہ جب میں نے شروعات کیں تھیں اور وہی جذبہ اور وہی امنگ تھی اور اس میں اتنا ہی جوش تھا۔ کیوں کہ جب آپ نو جوانی کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو اپنے rules break کرنے میں بھی کچھ الگ مزہ آتا ہے تو صبا امتیاز میں مجھے اپنی نو جوانی کی جھلک نظر آتی ہے۔

سوال: اس وقت ہندوستان میں نچلی ذات کی ہندو برادری اور خاص طور پر مسلمانوں پر جو مودی حکومت کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر جو پا مالی کی جا رہی ہے بطور ایک صحافی آپ اس کو کس طرح دیکھتی ہیں؟

جواب: بی جے پی کی حکومت نے تو ہندوستان کی تاریخ ہی بدل دی ہے جس کو آپ ملکی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو ملک کو ایک بالکل نئی سمت میں لے گئی ہے۔ میں نے ماضی میں کئی انتحابات کی کوریج کی ہے اور بہت قریب سے سیاسی سرگرمیوں کو دیکھا بھی ہے اور اس حوالے سے بے حد لکھا بھی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اپنے آپ کو صرف ہندوستان کے رہنما نہیں بلکہ ایک عالمی سطح کے رہنما دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کو اپنے آپ کو بین الاقوامی اصولوں و ضوابط سے ہم آہنگ کرنا ہو گا، کیوں کہ ان کے انداز حکمرانی نے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کیے ہیں۔

ان کو ہندو بنیاد پرستی یا ہندتوا کی پالیسی ترک کرنا پڑے گی، لیکن دوسری طرف وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر کس طرح اپنے آپ کو منوانا ہے۔ اور یہ فن ان کو خوب آتا ہے۔ لیکن ان کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دنیا میں نفرت کی سیاست کے لیے آج کل کوئی جگہ نہیں ہے اور سرحد کے آر پار کی عوام بھی امن و محبت کی سیاست چاہتے ہیں۔ حتٰی کہ ہندوستان کے مسلمان جو ہندوستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں۔ اور وہاں کے سیاسی امور میں بھی بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کی زندگیوں کو بھی آسان کرنا ہو گا۔ خاص طور پر آج کل مسلمانوں پر بی جے پی کی سرکار جو ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہی ہے ان کا جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہیے اور مسلمانوں کے جائز مطالبات کو بی جے پی کی سرکار کو جلد یا بدیر ماننا پڑے گا۔ اور اس کی ضمانت ہر قیمت پر نریندر مودی کو دینا پڑے گی۔ تا کہ دنیا نریندر مودی کے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے حکومتی تشدد کے واقعات کی مذمت کرنا بند کر دے۔ نریندر مودی کو اپنا تشخص بدلنا ہو گا اور خاص طور پر مسلم آبادی کو یقین دلانا ہو گا کہ ان سے امتیازی سلوک والے اقدامات کا جلد از جلد خاتمہ کیا جائے گا۔

سوال: کیا اب بھی آپ کو اسٹار ڈسٹ کا زمانہ یاد آتا ہے؟

جواب: کوئی چالیس برس ہوئے اسٹار ڈسٹ کو چھوڑے ہوئے۔ لیکن وہ عرصہ میری زندگی کا خوب صورت ترین دور تھا۔ لیکن ابھی بھی کبھی کبھار میں اسٹار ڈسٹ کا مطالعہ کرتی ہوں اور اس دوران ماضی کی حسین یادوں میں کھو جاتی ہوں۔

سوال: 70 کی دہائی جس زمانے میں آپ نے صحافت کا آغاز کیا اس وقت قارئین سے رابطے کا ذریعہ صرف اخبار، جریدہ یا کتاب تھی لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پلک جھپکتے ہی آپ کی بات آپ کے فالورز تک پہنچ جاتی ہے۔ آپ نے بھی اپنے آپ کو ہمیشہ بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ رکھا اور آج بھی آپ سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس کا جانا مانا نام ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ٹویٹر، یو ٹیوب اور انسٹا گرام پر آپ کے فالورز کی تعداد دوسری سیلیبریٹیز کے لیے قابل رشک ہے۔ تو اس حوالے سے خاص طور پر جب آپ بیرون ممالک کا دورہ کرتی ہیں تو کیسا ریسپانس ملتا ہے؟ اور آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟

جواب: جب بھی میں بیرون ممالک کا سفر کرتی ہوں تو مجھے ہمیشہ ناقابل یقین ریسپانس ملتا ہے۔ جو میرے لیے ہمیشہ ایک خوش گوار اور حیرت انگیز لمحہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب کبھی بیرون ملک کے دورے کے دوران میں کوئی اجنبی شخص مجھے ملتا ہے اور آ کر کہتا ہے کہ میں آپ کا بلاگ دوست ہوں۔ لیکن آپ جاتے ہیں کہ یہ انتہائی نا ممکن ہے کہ آپ ان تمام افراد کا ریکارڈ رکھیں جو آپ کے بلاگ کو پڑھتے ہیں۔ بالکل جس طرح یہ بھی نا ممکن ہے کہ آپ کو مکمل طور پر معلوم ہو کہ کون کون آپ کو ٹویٹر پر فالو کر رہا ہے۔

خاص طور پر جب آپ اتنے خوش قسمت ہوں کہ آپ کے فالورز کی تعداد چار لاکھ سے زائد ہو تو یہ آپ کے لیے بالکل ممکن نہیں ہے کہ آپ ان سب کی رائے کو جان سکیں۔ اور پھر جب آپ کے فالورز کا تعلق ملک و بیرون ملک سے ہو تو آپ نہیں جان پاتے کہ آپ کا امیج ملکی و بین الاقوامی سطح پر کیا بن رہا ہے اور وہی آپ کا حقیقی تشخص ہوتا ہے۔ اور جب آپ کے بلاگ کو لا تعداد فالورز پڑھتے ہوں تو اس سے زیادہ اعزاز کی بات کوئی نہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz