غیب سے پانی کی بوچھاڑ


’ میں صاف کردوں جو گند میں نے پھیلایا ہے۔‘ میں نے ہٹنا چاہا۔ گس نے مجھے گرنے سے پہلے تھام لیا۔ اس نے میرے پھسلتے قدموں سے مجھے اوپر اٹھا لیا۔

’ یہ فکر چھوڑو۔ سب ٹھیک ہے۔‘

ہم نے غسل خانے میں اپنے گیلے کپڑے اتارے اور کمبل میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے۔ مجھے تب احساس ہوا جب اس پہ بھی کپکپی طاری ہوئی۔ اسے بھی میری طرح ٹھنڈ لگ چکی تھی۔ یہ جسمانی کثرت کا ماہر ابھی ابھی اپنے ہیرو ہونے کا مظاہرہ کر کے ہٹا تھا، یا شاید اپنی بے وقوفی کا۔

’ پتہ ہے۔‘ گس کی آواز اس کے دانت بجنے کے با وجود ٹھہراؤ لئے ہوئے تھی۔ ’اب جب ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے لئے کیسا محسوس کرتے ہیں تو کیوں نہ اس تعلق کو ایک بندھن میں باندھ لیں؟ اسے جائز کر لیں؟‘

میری بھنویں ایسی تن گئیں کہ دکھنے لگیں۔ وہ سنجیدہ تھا۔ اس نے جتنی آسانی سے یہ کہہ دیا تھا، صاف ظاہر تھا کہ وہ سنجیدہ تھا۔

’یعنی مجھ سے شادی کر کے تم اس دیوانگی کو مستقل اپنانا چاہو گے؟‘ ۔ سچ میں، زندگی کو اس سے کم ہی خطرات درپیش ہوا کرتے ہوں گے۔

’ نہیں۔ وہ تو ایک مشق تھی۔‘ وہ مذاق نہیں کر رہا تھا۔ ’میں تمہارے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ تمہارے لئے بھی میرے بغیر جینا محال ہو گا۔ کہو، ایسا ہے نا؟‘

ہوا حد درجہ خشک ہو چلی تھی۔ وہ یہی ایک اہم سوال اٹھا کر اس جھوٹ سے جان چھڑا سکتا تھا جو پانی برسنے کی وجہ بنا تھا۔

’ میرے گھر والے۔‘ مجھے نہیں پتہ تھا یہ سب کیسے منوانا ہے۔ یہ البتہ ممکن تھا کہ گس مجھ سے پیار کرتا رہے اور کبھی مجھے اپنانے کی جستجو نہ کرے۔

’ وہ سب میرے بارے میں جانتے ہیں نا؟‘ ۔ حلفیہ کہا جا سکتا ہے کہ مرد ذہن پڑھ لیتے ہیں۔

’ہاں۔‘ یہ جھوٹ نہیں تھا۔ مگر یہ سچ بھی نہیں تھا۔ ہوا میں واضح نمی اتر آئی تھی۔ میرے بازؤوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ابھی طوفان آنے والا ہے۔ ابھی پچھلے جھوٹ کی کپکپی پوری طرح سے اتری نہ تھی۔ میرا دماغ پھٹ رہا تھا۔ ہچکولے کھا رہا تھا بیچ اس کڑوے سچ کے جسے جان کر وہ میری عزت کرنا چھوڑ دے گا اور اس بے دھڑک جھوٹ کے جو مجھے ایک مہلک ہائیپو تھرمیا (جسمانی درجہ حرارت کا ضرورت سے زیادہ گر جانے والی کیفیت) میں دھکیل دے گا۔ میرے دل کو کھا جانے والا درد بڑھتا اور پھیلتا جا رہا تھا۔ یہ درد مجھے بھینچ رہا تھا، مروڑ رہا تھا، میرے اندر سے زندگی نچوڑ رہا تھا۔ میں نے اپنے چہرے پہ زبردستی مسکراہٹ جیسا تاثر لانے کی کوشش کی۔

’ میٹ، یہ کوئی دانت کی نس کاٹنے کا عمل نہیں۔ اسے کھینچو مت۔ جو کہنا ہے۔ کہہ گزرو۔‘

میں نے گہری سانس لی۔ سچ بیان کر کے آسودہ ہو جانا ایسا ہی تھا جیسے میں سردیوں کی رات میں گس کی بانہوں میں ہوں اور دنیا میں بس ہمی دو ہیں۔ بلاشبہ تمام اچھے انسان، سچ اور جھوٹ کے بیچ یوں ہی معلق رہا کرتے ہیں۔ مگر آج مہینوں اس بات کو کہہ دینے کی ریہرسل نے بھی میری ذرا مدد نہ کی تھی۔ میرے منہ سے الفاظ یوں تیزی سے نکلتے گئے کہ مجھے خود پتہ نہ چلا میں نے کیا کہا، کیا نہیں۔

’ مینڈرین کے لوگوں میں جنس کے کسی تیسرے صیغے کے لئے کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ لکھنے میں تو ہے۔ وہ بھی شاید حال ہی میں ایجاد ہوا ہے۔ پر وہ سب ایک سے ہیں۔ تانیث یا ہم جنسیت کا ان میں کوئی تصور نہیں۔ ایسا نہیں کہ‘ بوائے فرینڈ ’یا‘ گرل فرینڈ ’جیسے الفاظ نہیں مگر میں نے تمہارا ذکر ہمیشہ‘ سویٹ ہارٹ ’۔‘ محبوب ’یا‘ جیون ساتھی ’کے طور کیا۔ تمہارا نام نہ لینا کوئی عجیب بات بھی نہ تھی۔ ہمارے یہاں نام دوستوں اور جان پہچان والوں کے لئے جاتے ہیں۔ خاندان کے افراد کو رشتے کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔‘

جب گس نے مجھے ٹوکا تو مجھے خیال گزرا کہ ’کیا میں نے اسے یہ واضح کر دیا ہے کہ میں نے اس کا تعارف اپنے والدین سے جیون ساتھی کے طور کروایا ہوا ہے؟‘

ٹھہرو۔ رکو ذرا۔ ’گس کی ذہانت نے مجھ پہ ایک تیر انداز کی طرح نشانہ باندھا۔‘ جس انداز میں تم نے اپنے خاندان والوں سے بات کی ہے اس سے تو لگتا ہے جیسے ہم شادی کر چکے ہیں۔ ’

’ہاں۔‘ اب میرا معدہ میرے حلق میں آ گیا تھا۔ ساری دنیا میرے آگے جھول رہی تھی اور مجھے ایک چوٹی کے کنارے سے ٹھوکر کھا کر گرنے کا خدشہ درپیش تھا۔

’ مگر وہ میرا نام نہیں جانتے۔ یہ نہیں جانتے کہ میں مرد ہوں۔ ؟‘
’ ہاں۔‘ اس کی چلائی گولیاں سیدھے میرے دل پہ لگتی رہیں اور میں کہ پتھریلے ساحل پہ شکستہ، تباہ حال۔

’ اچھا۔‘ اس نے ’میں سب ٹھیک کر لوں گا‘ والا چہرہ اوڑھ لیا۔ مگر پھر وہ اسی طرح سخت پتھر جیسا ہو گیا جس سے میرا دل دکھنے لگا۔ اس نے میرا سر اپنے سینے میں چھپا لیا اور مجھے یوں تھام لیا جیسے میں ہی فقط اس کے سینے اور بانہوں کے درمیان موزوں ہوں۔ ’ہم شادی نہیں کر سکتے جب تک تم اپنی فیملی کو کھل کے سب کچھ بتا نہ دو۔ میں تمہارا انتظار کروں گا، جب تک تم چاہو۔‘

اب اس کی جلد سرد اور چپچپی کی بجائے گرم اور خشک ہو چکی تھی۔ وہ علانیہ انداز میں بات کیا کرتا جس کا سچ بڑا واضح ہوتا۔ غیر مبہم الفاظ یا اصطلاحات کبھی استعمال نہ کرتا۔ اب وہ پانی میں بھیگنے کی بجائے، مایوسی میں ڈوب گیا تھا۔ عام حالات میں اس کی مسکراہٹ میں ایک لو ہوتی جس کی گرمائش مجھے پگھلا دیا کرتی۔ اس وقت وہ مسکرانے کی بے کار کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے دکھ پہنچایا ہے، وہ اس بات کو بادل نخواستہ ایسے ہی قبول کر رہا تھا جیسے کوئی انیستھیزیا کے استعمال کو کرے۔

یہ اس کا اصل روپ نہ تھا۔ مجھے جھگڑے کی توقع تھی۔ یعنی مجھے ایک دہائی پہلے ہی اپنے خاندان والوں کو سب صاف بتا دینا چاہیے تھا۔ انھیں اس لئے بھی کبھی شک نہ گزرا تھا۔ کیونکہ میری عمر اب بھی اپنے والد کی اس عمر سے کم تھی جب انھوں نے میری ماں سے شادی کی تھی۔ یوں بھی ہم کچھ اس طرح بات کرتے تھے کہ گویا میں نے ’نہ‘ نہیں کہا تھا۔ البتہ ایک خاموش انکار تھا۔

گس پروکوپیس کی کتاب ’وار آف جسٹینین‘ کے بارے میں بات کر تا رہا۔ اس نے حال ہی میں اس کی چوتھی جلد اصل یونانی زبان میں پڑھ کے ختم کی تھی۔ میری گفتگو تنے کی خلیات اور جینیاتی پیوند کاری کے بارے میں رہی۔ آج کی رات میرے کام سے فارغ ہونے کے بعد کی کسی بھی عام رات کی طرح تھی۔ ہم ایک دوسرے کو بتاتے رہے کہ دن کیسا گزرا۔ اس کے ہاتھ، اس کا لہجہ مجھ سے دھیرے دھیرے پوچھتے رہے کہ مجھے اس میں دلچسپی ہے کہ نہیں۔

مجھے تو ہمیشہ سے اس میں دلچسپی تھی۔ وہ اپنے گرم بدن سے میرے سرد وجود کو گرماتا رہا۔ وہ فکر انگیز مسکان، اس کا مجھے محبت سے تھامنا، اپنی ناک سے مجھے مس کرنا اور میری گردن چومنا، یہ سب انداز مجھے سمجھانے کے لئے تھے کہ ہمارے درمیان سب ٹھیک تھا۔ کہ اسے بھی میری اتنی ہی ضرورت تھی جتنی مجھے اس کی۔ وہ مشتعل نہیں تھا۔ ہم آرام سے اتنا وقت لے سکتے تھے جتنا میں چاہوں۔

’ چلو اب کی بار کرسمس میری فیملی کے ساتھ مناتے ہیں۔ ہم دونوں۔‘ ۔ میری آواز میری اپنی توقع سے زیادہ بلند تھی۔ ’یسوع مسیح کے جنم دن‘ والی کرسمس نہیں، بس خاندان کے ساتھ میل جول، بھانجیوں کو تحائف دینے والی کرسمس۔ جب ہم تحائف دینے لینے کی عمر سے بڑے ہو گئے تو میں نے اور میری بہن نے کرسمس منانی چھوڑ دی تھی۔ اب ہم نے دوبارہ شروع کیا ہے۔ اس سال پانی کی بوچھاڑ کی وجہ سے گریز کرنے کا سوچا تھا تاکہ میں کچھ ہوش و حواس میں رہوں مگر۔ ’

’ رکو۔‘ وہ کروٹ لے کے لیٹا تھا۔ اس کا بازو میری کمر کے گرد حمائل تھا۔ وہ اتنا خوش نہیں دکھ رہا تھا جتنا خوش اسے دیکھنے کی میری خواہش تھی۔ ’کیا تم نے یہ بات دل سے کہی؟ میں سالوں انتظار کر سکتا ہوں اگر تم ایسا چاہو تو۔‘

’ مجھے شاید ایسا بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ مگر اس سے زیادہ میرے لئے آمادہ ہونا بھی ممکن نہیں۔‘ اگر گس کو یہ اندازہ ہو جاتا کہ میرا فیملی سے یہ بات کرنا صرف اس کی خواہش کے تحت ہے تو غالباً وہ اصولی طور پہ ہی منع کر دیتا۔ میرے لئے تو اس وقت یہ اندازہ لگانا بھی دشوار تھا کہ اس کے ساتھ ہوتے ہوئے یہ ممکن تھا بھی کہ نہیں مگر ہاں۔ اس کے بغیر میرا ایسا کر پانا قطعی نا ممکن تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6