غیب سے پانی کی بوچھاڑ


ہم جس موٹل میں ٹھہرے وہ بہن کے گھر سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پہ تھا مگر یہاں ایسا سکون تھا گویا ہم کسی اور سیارے پہ آ گئے تھے۔ ہم وکٹورین کرسمس کی دنیا سے سرجری کی دنیا میں آ گئے تھے۔ یہاں بھی پائن کی خوشبو تھی مگر سادہ سی، بالکل دوا جیسی۔ میں اپنا سوٹ کیس ایک طرف پھینک کر بیڈ پہ خمیدہ ہو کے لیٹ گیا ایسے کہ جیسے میں نے ہفتوں گس کی عجیب و غریب سی آئیسومیٹرک کثرت کی تھی اور اب تھکن سے چور تھا۔ گھر کے گزشتہ دوروں کے اختتام کے بر عکس اس بار میں دنیا سے قدرے جڑا ہوا تھا۔ گس دروازے میں کھڑا تھا۔ برف کی گالے اس کے بالوں اور ٹوپے والی گرم ٹی شرٹ پہ چمک رہے تھے۔

’ بس یہی رشتہ دار ہیں تمہارے اس ملک میں؟‘ ۔ گس نے بتی جلائی اور دروازہ بند کر دیا۔ جب میں مڑا تو اس کے وزن نے بستر کو جھکا دیا۔ میرا جسم اس کے ساتھ جا لگا۔ ’میٹ، مجھ سے تو بے اعتنائی نہ برتو۔‘

گس کے الفاظ سے میرے دل پہ گھونسہ سا لگا گو کہ یہ الفاظ اس نے انتہائی نرمی سے ادا کیے۔ میرے اپنے الفاظ میرا گلا چھیلنے لگے۔ مجھے تھوک نگلتے ہوئے نمک اور دھات کا ذائقہ محسوس ہوا۔ لیٹے لیٹے حلق سے پانی اتار کر میں نے پھیپھڑوں میں ہوا کھینچی تو مجھے حوصلہ ملا جیسے گس بستر پہ موجود نہ تھا۔ ہر بار میں جب یہاں آتا تو سوچا کرتا تھا کہ میں بعد میں سب ٹھیک کر لوں گا۔ جب واپس جاتا تو بھول جانے کی کوشش کرتا۔ مگر اس چکر میں ایسا کچھ نہ تھا۔ اس بار میں بھول نہیں پاؤں گا۔ گس کی کوئی اور اہمیت ہو نہ ہو، یہ تو تھا کہ وہ سارے ماجرے کا گواہ بن گیا تھا اور میں جب بھی اسے دیکھوں گا، مجھے سب یاد آ جائے گا۔

’ ٹھیک ہے۔‘ ۔ میں اٹھ کے بیٹھ گیا اور قالین کو بغور دیکھنے لگا۔ ’ایک بار۔ مدر ڈے پر میں نے ماں کو پھول لا کے دیے تو مشیل نے مجھے بہت شرمندہ کیا کیونکہ پھول مرجھا جاتے ہیں۔ میں ایسا تحفہ ماں کو کیسے دے سکتا تھا جو ختم ہو جانے والا ہو۔ ایک بار مشیل نے مجھے الزام دیا کہ میں نے ماں کا جنم دن خراب کر دیا ہے کیونکہ میں نے انھیں کارڈ بھیجا تھا جس پہ نیلے پرندے بنے تھے۔ ایسے کہ جیسے مجھے علم تھا کہ ماں کا طوطا غسل خانے میں ڈوب کر مر گیا تھا۔

ایک دفعہ کرسمس پہ مشیل نے مجھے شیو بنانے کو کہا۔ میرے چونکہ بال زیادہ نہ تھے اس لئے میں نے پرواہ نہ کی۔ اسے غصہ آ گیا کہ میں ہر وہ کام کیوں نہیں کرتا جس سے اسے خوشی ملتی ہے۔ وہ بھی خاص طور پہ ایسی چھوٹی سی بات۔ اس نے استرا پکڑ کر میری داڑھی مونڈ دی۔ کاش کہ اس سے بہتر وہ کچھ کر سکتی۔ شیونگ کریم میری آنکھوں میں لگتی رہی۔ کتنے ہفتے لوگ حیران ہوتے رہے کہ میری گردن پہ اور چہرے پہ زخموں کے نشان کیسے بنے۔ کافی ہے یا مزید سننا چاہو گے؟ کیوں آخر مجھے ہر بار اسی کی بات ماننا پڑتی ہے؟ ’

میں بے حد تھک چکا تھا۔ میرا جسم کپکپا رہا تھا۔ مجھ سے سانس نہیں لی جا رہی تھی۔ برف پگھل کے میرے جوتوں کے گرد پانی کا ڈھیر لگا چکی تھی۔ کاش کہ گس میرے پاس نہ ہوتا۔ کاش کہ وہ اپنے اپارٹمنٹ میں ہی ہوتا یا اپنے رشتہ داروں سے ملنے چلا گیا ہوتا۔

گس منہ کھولے کچھ دیر تو میرے پاس بیٹھا رہا۔ اگر اسے لگتا کہ مجھ پہ پانی کی بوچھاڑ پڑے گی تو میں کہوں گا کہ اس نے کمال مہارت سے اپنے خدشے کو چھپائے رکھا۔ اس کے بازو میرے کندھوں تک آئے اور اس نے مجھے اوپر اٹھایا۔ اس نے میری ٹھوڑی کے نیچے انگلی رکھ کر میرا چہرہ اپنے روبرو کر لیا۔

میرا ایک دل تو چاہا کہ میں یہاں سے بھاگ جاؤں، ٹیکسی لوں اور آج رات کسی اور جگہ جا رہوں۔ مگر میں جانتا تھا کہ اس سے گس کو تکلیف پہنچے گی مگر وہ اتنا ہیرو تو تھا کہ کبھی کہے گا نہیں۔ اس وقت دل ہر رشتے کو چھوڑ دینے پہ آمادہ تھا۔

تمہیں اس سے سمجھوتہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ’۔ گس نے میری جیکٹ کے زپ کھولی اور جیکٹ اتار دی۔‘ مگر کیا تم اپنے والدین کو ایک خط لکھو گے؟ سوچو کہ ہمارا بچہ ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ لیکن اگر ہو تو کیا تم اسے اس کے دادا دادی سے دور رکھو گے؟ ’

’ تو میں ٹھیک ہوں ناں۔ یعنی وہ پھر ایک بار جیت گئی؟‘

میں نے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔ خود کو درست ہونے کا یقین دلانا ایک تبدیلی تھی جو آج مجھ میں آئی تھی۔ ایک بار ماں کو میں نے سب کچھ بتایا تھا۔ اس نے کہا مشیل ایسا اس لئے کرتی ہے کیوں کہ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے اور میرے لئے سب سے اچھا چاہتی ہے۔ میں نے پوچھا تھا کہ وہ مجھ سے بھلا نفرت کیوں نہیں کرنے لگتی؟ اس دن ہماری گفتگو پھر ٹھیک سے آگے نہ بڑھ سکی۔

’ جیتنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘ گس نے کندھے اچکا کے پوچھا۔ اس نے میرا کوٹ سٹینڈ پہ لٹکا دیا۔ ’تم آج کمزور پڑ گئے۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے کچھ وقت دور رہ کر سب ٹھیک ہو جائے۔ کل، ہم واپس جائیں گے اور ایک بار پھر کوشش کریں گے۔ ٹھیک ہے؟ اگر تم چاہو گے تو میں پورا دن تمہارے ساتھ ساتھ رہوں گا۔‘

میں نے ایک گہری سانس لی۔ مجھے کئی گھنٹوں میں پہلی بار احساس ہوا کہ میرا سینہ کھل گیا ہے۔ پائن اور گیلے لیدر کی خوشبو میری ناک سے ٹکرائی۔

’ ٹھیک ہے۔‘ ۔

میں نے اپنے بوٹ اتارے۔ پگھلتی برف میری جرابوں تک کو نم کر چکی تھی۔ میرے پیر سرد اور چپچپے ہو رہے تھے۔ گس اب بھی دروازے پہ کھڑا تھا۔

’ میں چند گھنٹوں میں واپس آ جاؤں گا۔‘ ۔ جب میں نے اسے رکنے کو کہا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔ ’تم اس وقت مجھے اپنے پاس روکنا نہیں چاہتے اور سچی بات ہے کہ اس وقت تمہاری صحبت بھی کچھ ایسی خوشگوار نہیں۔ میں جانتا ہوں تم مجھ سے خفا نہیں ہو۔ مگر اس وقت میرا جانا بہتر ہے۔ تاکہ ہم دوبارہ اس پر بات کر سکیں۔‘

میں شاید اعتراض کرتا مگر اس کی بات درست تھی۔ گس نے جانے سے پہلے بتی بجھا دی۔ کمفرٹر بھی پگھلتی برف سے بھیگ چکا تھا۔ میں جوں ہی بستر میں گھسا وہ میری جلد سے چپک گیا۔ میں نے گیند کی طرح اکٹھے ہو کر کمفرٹر کو خود پہ اچھی طرح اوڑھ لیا۔ یوں اس کے نیچے دب کے مجھے قرار ملنے لگا۔

اس بار میں نے دنیا چھوڑ دی تھی مگر احساس اب بھی اچھا نہ تھا۔ اس گدے کو گہرا دھنس جانا چاہیے۔ میرے بازو ایک ایسے قوی ہیکل مرد کے گرد حمائل ہوں کہ جسے نہ دکھ ہوتا ہے نہ درد۔ میں اس کے بدن کی گرمائش میں

ایسے کھو جاؤں کہ جیسے وہ بس میرا ہے۔

’ میں تم سے محبت کرتا ہوں، گس‘ ۔ بس اب مجھے یہ سوچنا تھا کہ جب وہ کمرے میں آئے گا تو میں یہ الفاظ اسے کیسے کہوں گا۔

کمفرٹر سے برف اب بھاپ بن کے اڑنے لگی تھی۔ اب میں گرم اور خشک محسوس کر رہا تھا۔ میں نے سر باہر نکال لیا۔ اب پائن کی خوشبو کی جگہ پھولوں اور فضا کی تازگی نے لے لی تھی۔ بہار کی نرم ہوا مجھے سہلا رہی تھی۔

میں دروازے کی طرف اس آس میں دیکھنے لگا کہ ابھی دروازہ کھلے گا۔

(The Water That Falls on You from Nowhere)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6