غیب سے پانی کی بوچھاڑ


اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا وہ پلٹ گئی۔ آج تک جو میں نے دل کی بات نہ کہی اس سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ میں نے انھیں چھوڑ دیا ہے۔ میرے پاس انھیں بتانے کے لئے بہت کچھ تھا۔ مگر ایک بار جو پانی گرنا شروع ہوا تو اس کے بعد میں ان سے کبھی جھوٹ نہ بول پایا۔ چھپاتا اس لئے رہا کہ میں ان سے وابستہ رہنا چاہتا تھا، کٹنا نہیں چاہتا تھا۔

کھانا اچھا تھا۔ بہت پسند کیا گیا۔ میری بہن ایک فیاض میزبان تھی، اتنی مہربان کہ اس نے کوئی اعتراض نہ کیا جب میں اور گس ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ البتہ، اس کی نظریں میرے ہر عمل پہ معترض رہیں۔ میرا دایاں ہاتھ میز کے نیچے کیوں تھا؟ میں نے جب اس کے کان میں سرگوشی کی تو کیا کہا؟

گس کرسمس پہ یوں کھا تا تھا جیسے اس کے کان سؤر کے اور اوجڑی گائے کی ہو جاتی ہو۔ جب گھر لوٹیں گے تو مجھے سؤر کا سوپ بنانا پڑے گا جو وہ شوق سے کھا رہا تھا۔ میں اتنے برس یونہی ڈرتا رہا کہ اسے میرے پسندیدہ کھانے شاید پسند نہ آئیں۔

میری بھانجیاں اس سے گھل مل گئی تھیں۔ گس کے کہنے پر انھوں نے آپس میں چوپ سٹک کی لڑائی بھی بند کردی۔ میز پہ موجود آدھے لوگوں سے وہ کلاسک یونانی زبان میں بات کرتا رہا۔ وہ اس کے مذاق پہ ہنستے بھی رہے اور انتہائی توجہ سے سنتے رہے جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ وٹنی کے پہاڑ کے مشرقی جانب سے عمودی ڈھلوان پہ چڑھنے کا قصہ سنا رہا تھا اور انھیں طوفان نے آ لیا تھا۔

میری اماں چینی زبان میں بچپن کی ہی کہانیاں دہراتی رہی۔ میری بہن بھی وہ کہانیاں سن سن کے عاجز آ چکی تھی۔ گس ان سے مرغیوں کی افزائش اور میری دادی کے بارے میں پوچھتا رہا جو اب مجھے یاد بھی نہ تھی۔ میں ترجمہ کر کر کے پاگل ہوا جا رہا تھا۔ مگر اصل بات یہ تھی کہ سب گس کے ساتھ گپ شپ کا مزہ لے رہے تھے اور گس بھی خوش تھا۔ انھیں باتوں کی روانی میں میرے والدین نے مجھے میری بائیو ٹیکنالوجی کی ریسرچ کے بارے میں پوچھ کر حیران کر دیا۔ مجھے اس وقت آنے والے خطرے کا قطعی اندازہ نہ تھا جو ایک کایا پلٹ کے رکھ دے گا۔

جب میں کھانے کے بعد میز صاف کر رہا تھا تو میری بہن کے سسر نے چینی زبان میں میری شادی کے بارے میں پوچھ ہی ڈالا۔

خاندان کی کوئی دعوت شادی کے سوال کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ ’تم اب تیس سے اوپر کے ہو گئے ہو، پوتا کب دو گے؟‘ ۔ اس کے لئے شادی شرط تھی۔

میں غالباً بیزاری سے مسکرا رہا تھا۔ گس کی نظریں میری نظروں سے ٹکرائیں۔ مجھے احساس ہوا وہ اس سوال کا اثر میرے چہرے پہ پڑھ رہا تھا۔ اس بات پہ یقین کرنا دشوار ہے کہ مرد آپ کا ذہن نہیں پڑھ سکتا۔ میری بہن کی نظروں کا اثر تھا کہ میرا سینہ سکڑ چکا تھا۔

میں سب کو اگر یہ بتاتا کہ مجھے مناسب خاتون نہیں ملی تو فضا میں نمی اتر آتی۔ مگر ہاں شاید پانی کی بوچھاڑ نہ پڑتی۔ یہ سچ بھی تھا جس پہ مجھے کوئی الجھن بھی نہ تھی۔ گس سمجھ جاتا اور میری بہن بھی ایک بار تو قدرے خوش ہو جاتی۔ وہ اور میں ایک کمرے میں دس منٹ سے زیادہ نہیں رہ سکتے تھے مگر ہم نے ایک دوسرے کے لئے ہمیشہ بہترین چاہا۔ مگر کیا اب بھی ایسا تھا اسے مجھے بتانے کی ضرورت نہ تھی۔

’ مجھے میرا ساتھی مل گیا ہے۔‘ میں اس حد تک آ گیا تھا، اب بات مکمل کرنا ہی بہتر تھا۔ ’اس نے مجھے پچھلے مہینے پروپوز کیا ہے۔‘ ۔

پوتا پیدا کر کے دینا حالات کی منصوبہ بندی میں کچھ ایسا اہم نہ تھا۔ کیون کے والدین بھی تو پوتا نہ ہونے کے باوجود اس سے پیار کرتے تھے۔ شاید میرے بھی مجھے پیار کرتے رہیں۔ انھیں گس بحیثیت میرے دوست کے بہت پسند بھی آیا تھا۔ اب جب انھیں پتہ چلا کہ میرا اس سے شادی کا ارادہ ہے تو ممکن ہے وہ اسے داماد کے طور بھی پیار کرنے لگیں۔

میری بہن کا غصہ آپے سے باہر ہو گیا اور دوسروں کے رد عمل پہ حاوی ہو گیا۔ اس کے الفاظ انگریزی میں بڑے واضح تھے۔ ’دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔ اور دوبارہ کبھی یہاں قدم نہ رکھنا۔‘ کیون اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ گس میری فیملی کو میرے لئے راضی کرتا رہا۔ میں اوپر بیڈروم میں تھا جب مجھے احساس ہوا کہ میں انتہائی جذباتی ہو چکا تھا۔

گس نہایت نفیس تھا۔ اس کا سامان پیک کرنا بے حد آسان تھا۔ میں نے تو سامان کھولا ہی نہ تھا کہ پیک کرنے کی ضرورت پڑتی۔ گس ایک بے لوث انسان تھا۔ جہاں تک میں اسے جانتا تھا، وہ اب بھی یہ خواہش کر رہا تھا کہ میں گھر چھوڑ کے نہ جاؤں۔ مجھے خیال آیا مجھے اسے نیچے چھوڑ کے آنا نہیں چاہیے تھا۔ شاید میری بھانجیاں اس کے لئے ترجمے کی خدمات انجام دے رہی ہوں گی۔

’ میٹ۔ تم غصے میں گھر چھوڑ رہے ہو۔‘ ۔ گس دروازے کی چوکھٹ میں ایک دم متناسب دکھائی دے رہا تھا۔ ’ٹھیک ہے، تمہاری بہن کا رد عمل برا تھا مگر پو پو اور گونگ گونگ اس بات کو ویسے نہیں لے رہے‘ ۔

میں نے پلکیں جھپکائیں اور سر جھٹکا۔ وہ میرے والدین کے بارے میں بات کر رہا تھا یہ سمجھنے میں مجھے چند لمحے لگے۔

’ تم نے میرے اماں ابا کو پو پو اور گونگ گونگ کہا؟‘

’ ہاں۔ پو پو اور گونگ گونگ۔‘ وہ کچھ پریشان دکھنے لگا۔ ’میں نے جب آج دوپہر انھیں مسٹر اینڈ مسز ہو کہہ کے بلایا تو انھوں نے میرے ہیلو کہنے سے پہلے میری اصلاح کی۔ کیا میرا تلفظ ٹھیک نہیں۔‘

’ اس پہ تو ہم کام کر سکتے ہیں پر۔ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں تھا۔‘ ۔ میں نے اس کا سوٹ کیس بند کیا۔ ”پوپو ’کا مطلب‘ ساس ’اور‘ گونگ گونگ ’کا مطلب‘ سسر ’ہوتا ہے۔‘

وہ انھیں ان ناموں سے پکار رہا تھا اور اس پہ پانی کی بوچھاڑ بھی نہ برسی تھی۔

’ انھیں ہمارے تعلق کا اندازہ پہلے سے تھا۔‘ گس ماں کو راستہ دینے لگا جو اس کے پیچھے کھڑی اندر آنے کی کوشش میں تھی۔ ’آ جائیے۔ پو پو۔‘

’ ہمیشہ سے تنہا ہے یہ لڑکا۔‘ میری ماں نے گس کی طرف دیکھا مگر اشارہ میری طرف تھا۔ ’ایسا ہی اکیلا ہے یہ۔‘

کاش کہ میں اس کے ان الفاظ کا ترجمہ بیان کرتا۔ چینی زبان میں تو وہ بغیر کاوش کے برجستہ اور دانا بولتی تھی۔ یہ وہ شخصیت تھی جس سے میں گس کو ملوانا چاہتا تھا نہ کہ ایک اچانک ٹکرا جانے والے اجنبی سے جس کے معیار کے مطابق چینی زبان سیکھنے میں میں نے ایک دہائی لگا دی تھیں۔

گس نے ماں کا ہاتھ تھاما اور دھیمی آواز میں بولنے لگا۔ گس ماں سے ایک فٹ اونچا تھا۔

’میرے ساتھ ہوتے ایسا نہیں ہو گا۔ پوہ۔ پوہ۔‘ اس نے میری طرح یہ لفظ ادا کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ اب بھی غلط بول رہا تھا۔ ’میری پوری کوشش ہو گی کہ یہ کبھی زندگی میں پھر اکیلا نہ ہو پائے۔‘

ماں پہلے میری طرف مڑی۔ پہلے تو میں سمجھا اس کو ترجمہ درکار ہے۔ مگر وہ شاید سمجھ گئی تھی اس لئے اس نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔

’ تم بائیو ٹیکنالوجی پڑھتے ہو۔ کیا تم مجھے ایک پوتا دے سکتے ہو؟ اپنے دونوں کے جین (حیاتیاتی معدے ) ملا کر؟‘ ۔ اب یہ یقیناً اس کے برجستہ اور دانا ہونے کا ثبوت نہ تھا۔ میری ماں بہت عملی اور بہت صاف گو بھی تھی۔

میں اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز سن رہا تھا۔ گس وضاحت کے لئے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اگر مجھے اس سے کچھ چھپانا پڑتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہمارا آپس میں کوئی تعلق ہی نہ تھا۔

’وہ کہہ رہی ہیں کہ تم بائیوٹیک ریسرچر ہو۔ ایک پوتا دے سکتے ہو مجھے۔ دونوں کی جینز ملا کر؟‘ گس نے یقیناً ان کا دل جیت لیا تھا۔ ’تم ان سے تمام دوپہر کیا باتیں کرتے رہے تھے؟‘

’ایسا تو کچھ خاص نہیں۔‘ وہ بھی حیرت زدہ تھا جیسا کہ میں۔ ہم نے آپس میں بچوں کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ گس ماں کی طرف مڑا۔ ’ہم اس کا حل نکالیں گے۔‘

اور مجھے اس طرح ماں کی ضد پر اپنی دونوں کی جینز سے پوتا پیدا کرنے پہ نوبل انعام ملے گا۔ ہم دونوں کو بحیثیت والدین۔

ماں اس تسویہ پہ مطمئن تھی کہ گس مجھے خطرے سے بچا لے گا۔ عام طور سے وہ مجھے کہا کرتی کہ مشیل کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو وہ مجھے اپنے پاس رکنے کا کہے گی۔ اس کے نزدیک مشیل اس لئے مجھ پہ غصہ کرتی ہے کیونکہ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے۔ مگر اب گس کا فرض تھا کہ مجھے ٹھنڈا رکھے۔ ماں اس پہ بہت خوش تھی۔ اسے اس بات کی پرواہ نہ تھی کہ گس ایک مرد ہے۔ گو کہ گس بھی یہ کام ماں سے زیادہ بہتر نہیں کر سکتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6