غیب سے پانی کی بوچھاڑ


میں اس کی ٹر ٹر کو نظرانداز کرتا رہا۔ اگر وہ چاہتی تھی کہ ابا یہی سمجھیں کہ بس وہ ہی ان کا اچھا بچہ ہے، تو اس لمحے وہ مجھے کوئی نقصان نہیں دے رہی تھی۔ اسے ابا کے ساتھ مال جانا تھا۔ میں بعد میں بات کر لوں گا۔ ان کے واپس آنے تک اماں جاگ چکی ہوں گی اور میں تب تک ان سے گپ شپ لگا لوں گا۔

یہ میرا پلان بی تھا۔ ابا کی صبح کی سیر کی رسومات میں یہ بھی شامل تھا کہ واک کے بعد ابا کو اپنے ساسیج بسکٹ کھانے ہوتے تھے، کافی کے ایک کپ سے خود کو محظوظ کرنا ہوتا تھا، اور اگر مفت کا دوسرا کپ بھرنا ممکن ہوتا تو پھر دو کپ۔ اس کے بعد ہی ہم واپس لوٹا کرتے۔ مگر آج وہ کچھ زیادہ ہی جلدی لوٹ آئے تھے۔ ماں ابھی تک سو ہی رہی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ میری بہن نے ہی ابا کو آج ناشتے کی رسم ادا کرنے سے روکا تھا۔

جب مجھے گیراج کے دروازے کی آواز آئی تو میں نے سیڑھیوں کے جنگلے سے جھک کے دیکھا۔ ابا غصے میں بڑبڑا رہے تھے۔ بہن صاحبہ باورچی خانے میں موجود بہتر کھانے کی چیزوں کے بارے بتا رہی تھی۔ اس نے میرے پاس سے گزرتے ہوئے ایک نگاہ مجھ پہ ڈالی۔ جیسے ابا کا اس پہ غصہ ہونے میں بھی میرا ہی قصور ہو۔

باقی تمام دن باسکٹ بال جیسے تھکا دینے والا کھیل کھیلتے گزرا۔ میری بہن دفاعی مقام سے کھیلتی تھی مگر اصولوں پر۔ ہمارے ارد گرد لوگ تھے لہٰذا آپس میں کوئی رابطہ نہ تھا۔ میری کوشش تھی کہ مجھے گس میرے والدین کے ساتھ کہیں اکیلا مل جائے، مگر ان میں سے کوئی نہ کوئی بیچ میں ہر وقت موجود رہتا۔

آج رات کے کھانے کی دعوت میں تو بہن اماں کا ہاتھ بھی بٹا رہی تھی۔ میں اماں کے بھاپ میں بنے بھرتی والے بن ( نان) بنانے کے لئے آٹا گوندھ رہا تھا۔ میری بہن نے بیچ میں دخل اندازی شروع کر دی۔ کئی برس بڑی بڑی دعوتوں میں اکٹھے کھانے بنانے کی وجہ سے میرے اور اماں کے کام کی ایک خاص ترتیب ہوتی تھی۔ ایک وقت آیا جب ماں نے یہ کہنا چھوڑ دیا کہ میری بیوی آئے اور میرے لئے کھانا بنائے۔ اس نے مجھے کھانا بنانا سکھانا شروع کر دیا۔ یا تو وہ میرے ہر وقت کے نقص نکالنے سے تنگ آ گئی تھی یا پھر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں آٹا اس سے زیادہ جلدی گوندھ لیتا ہوں۔ اس وقت بھی بہن ہم دونوں کو اکیلا چھوڑ دیتی تو رات کا کھانا تیار کرنے میں اتنا وقت بھی نہ لگتا۔

گس اپنی سی پوری کوشش کر رہا تھا یہ جتانے میں کہ وہ میرا اپارٹمنٹ کا ساتھی ہے اور کرسمس کے موقع پر اس کے جانے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی اس لئے چلا آیا۔ وہ میری بھانجیوں، میرے بہنوئی اور میرے والدین کے ساتھ وقت گزار رہا تھا مگر باورچی خانے کا چکر لگاتا رہتا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ میری بھلے کے لئے چاہتا تھا کہ میں سب سے اپنی بات نہ کہوں مگر مجھے اس کی یہ سب باتیں بھی بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ کیسی دیوانگی تھی، ایک ہی گھر میں ہوتے ہوئے یوں اس کے لئے بے چین رہنا۔ جب بطخ کے گوشت پہ میں نے الٹے سیدھے ٹوکے مارے تو ماں نے مجھ سے بھاری چھرا لے لیا اور مجھے مشروم بھگونے کو کہا۔

کھانا تیار کرنے کے لئے ایک پورا دن درکار نہیں ہوا کرتا مگر میری بہن کے بے شمار سوال تھے کہ بھرتی والے بن کا آمیزہ کیسے بنایا جائے، پین کیک کی پرتیں بنانے کے لئے تلوں کا کتنا تیل درکار ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ وہ باورچی خانے سے باہر جاتی مگر اتنی مہلت نہ دیتی کہ میں ماں کو بتانے کا حوصلہ کر پاتا۔ میں جب بھی باورچی خانے سے نکلتا، وہ دو منٹ میں مجھے ڈھونڈ لیتی یہ کہہ کر کہ اسے میری مدد کی ضرورت ہے۔ میں بھی بادل نخواستہ اس کے شوہر اور اس کے ساس سسر کے سامنے اپنی باہم یکساں زبان میں کہہ ہی دیتا، ’ہاں بھئی، تم بھی ایک زبردست باورچی جو ٹھہریں۔‘ ۔ وہ مجھے کھینچتی ہوئی باورچی خانے لے جاتی۔ جب میں ایسا کہتا تو پانی کی بوچھاڑ نہ پڑتی۔ میں بھی خوشیاں بٹورنے کا موقع ڈھونڈتا۔

جب میری بھانجیاں اپنی نانی کو گھر بنانے والے ٹکڑوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے لے گئیں تو میری بہن نے کہا کہ وہ اور میں مل کے باقی کھانا تیار کر لیں گے۔ کہہ رہی تھی اسے ماں کی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔ میں اس سے مکمل اتفاق کرتا رہا مگر بس اتنا کافی نہ تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باورچی خانے میں پابند ہو گئے تھے۔

’ تم جانتے ہو گس کچن میں کیوں نہیں آتا۔ کچھ خبر ہے؟‘ ۔ اس کا انداز بے پرواہانہ تھا مگر ہم دونوں جانتے تھے کہ یہ گفتگو ایسی غیر اہم نہ تھی۔

’ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے؟‘ ۔ میں اچاری مولیاں کاٹتے ہوئے بولا۔ ’تم بتاؤ ایسا کیوں ہے۔‘

’ کیا تمہیں سچ میں ایسا لگتا ہے کہ تم اس کے ساتھ رہ سکتے ہو؟‘ ۔ اس نے پالک تیل سے بھری کڑاہی میں ڈالی۔ پالک میں موجود پانی نے تیل میں تڑاخ پیدا کیا اور چھینٹا اچھل کے اس پہ پڑا۔ ”آج اس نے تم سے زیادہ وقت کیون کے ساتھ گزارا۔ ’

میں نے کتلیاں کاٹتے ہوئے زور بڑھا دیا۔ انگلی کاٹنے کی لاپرواہی کا اس وقت میں متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ میرا دل جیسے میرے کانوں میں دھڑکنے لگا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی مجھے زیادہ غصہ کس پہ ہے، اپنی بہن پہ یا اپنے محبوب پہ۔

’میں سمجھا نہیں آپا، کیا کہنا چاہ رہی ہو؟‘ ۔ جب ہم اس ملک میں آئے تھے تو وہ ایک ٹین ایجر تھی اور میں چھوٹا بچہ تھا۔ امکان تھا وہ میرے لہجے میں چھپے طنز کو نہ سمجھی ہو۔ البتہ پانی کو اس کا علم ہو چکا تھا اور میں خشک تھا۔

’کیون زیادہ خوبرو مرد ہے، ممکن ہے اس لئے۔‘ اس جملے کی کاٹ شاید زیادہ ہوتی اگر اس کا پالک تلنے کی طرف دھیان نہ ہوتا۔ اس نے کفگیر یوں تھام رکھا تھا گویا وہ اس کی ڈھال ہو۔

کیون مجھ جیسا ہر گز نہ تھا۔ مجھے یقین تھا وہ گس کی پسند بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر شاید مجھے علم نہ ہو۔ ایسا نہیں تھا کہ مجھ سے پہلے گس کے دوسرے مردوں سے تعلقات نہ تھے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ سب اس پہ مرتے نہ تھے۔ میرا ذہن ایک لمحے میں گھوم گیا۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ اس نے گس پہ کوئی الزام تھوڑی لگایا تھا۔ اور یوں بھی کیون اتنا صاف گو تھا کہ اگر گس نے اس کے ساتھ کوئی کوشش کی ہوتی تو وہ نہیں، میری بہن مجھے اور گس کو گھر سے باہر نکال دیتی نہ کہ وہ محض گس کے بے وفا ہونے پہ مجھے طنز کرتی۔

’ ممکن ہے۔ کیا؟‘ ۔ عام طور پہ کٹی ہوئی مولی کی قاشیں سجانا مجھے ایسا دشوار نہ لگتا تھا۔ مگر اس لمحے وہ مجھے غلیظ زرد قتلیاں لگ رہی تھیں۔

’ تم سمجھتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔ مجھے وضاحت سے کہنے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں اپنی بہن پہ اعتماد نہیں؟‘

جب میں آٹھ برس کا تھا تو اس نے مجھے اس بات کا یقین دلا دیا تھا کہ وہ ایک نفسیاتی ماہر ہے اور مجھے شیشے میں اتار لیا تھا کہ اگر میں نے بالکل اسی طرح نہ کیا جیسا وہ چاہتی ہے تو میری زندگی کس قدر خراب ہو گی۔ یہ بات میرے لئے شرمناک ہے کہ کتنے سال وہ اسی بات کا فائدہ اٹھاتی رہی۔ اگر تب پانی کی بوچھاڑ پڑا کرتی تو اس نے یہ پورا گھر ڈبو دیا ہوتا۔

’ صرف تمہاری فیملی ہی تم سے اتنی محبت کر سکتی ہے کہ تمہیں یہ سب بتائے۔‘ اسے سنتے ہوئے مجھے لگ رہا تھا کہ مجھ پہ پتھروں کی برسات ہو رہی ہے۔ ’اسے تم میں کیا دکھائی دیا ہو گا۔ چھوڑو اسے اور ایک چینی عورت سے شادی کرو۔ اس کے ساتھ رہے تو یا وہ تمہیں دھوکہ دیتا رہے گا یا ایک دن چھوڑ دے گا۔‘

اس کے آخری جملے کے تین الفاظ۔ میں جانتا تھا وہ کیا کہے گی۔ میں نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے برتن پکڑا اور چولہا بند کیا۔ غیب سے پڑنے والی بوچھاڑ اسے بھگو رہی تھی اور چولہے پہ بھی پڑنے لگی تھی۔ اگر وہ پانی پین پہ پڑ جاتا تو اس سے اٹھنے والی بھاپ اور اڑتا تیل اسے جلا ڈالتے۔

’جاؤ جا کے خود کو خشک کرو‘ ۔ میں نے پالک کو ڈش میں نکال کے کاؤنٹر پہ رکھتے ہوئے کہا۔ ’میں فرش صاف کر دوں گا‘

’ لوگ بدل بھی جاتے ہیں۔ مگر ممکن ہے وہ تم سے پیار کرتا رہے۔ ممکن ہے تم اسے نکال باہر کرو جیسے تم نے مجھے، اماں اور ابا کو اپنی زندگی سے نکال رکھا ہے۔‘ ۔ اس نے بازو باندھ رکھے تھے۔ ’ہم بھی تو تم سے پیار کرتے ہیں، پر میں سوچتی ہوں ہم تمہاری پرواہ کرتے ہی کیوں ہیں۔ تمہیں احساس ہے کہ تم اماں اور ابا کا دل توڑ دو گے اگر تم ان کا نام اور نسل آگے نہیں بڑھاؤ گے۔ کیا تم واقعی اس شخص کے پیچھے اپنا خاندان چھوڑ دو گے؟‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6