درد کا رشتہ


عامر

آج تمہارے فون نے سارے وجود میں روشنی بھر دی۔ دھنک کے سارے رنگ آنکھوں کے سامنے بکھر گئے تم PLAB پاس کر گئے بہت دنوں کے بعد ایک اچھی خبر ملی۔ تمہاری امی بھی خوش ہوں گی، تمہاری نوکری بھی اب شروع ہو جائے گی۔ یہ بہت اچھا ہوا عامر۔ کالج میں بھی لوگ پوچھ رہے تھے۔ تمہارے دوست جو ہسپتال میں کام کر رہے ہیں، بہت خوش ہوں گے۔ تم نے بہت اچھا کیا ہے۔ اب کیا پروگرام ہے۔ اب کہاں کام کرو گے؟ کون سی لائن اختیار کرو گے۔ خبر کرنا۔ تمہارے خط کا انتظار رہے گا۔

تمہاری انجم
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
کراچی 5 نومبر 1981 ء
عامر، میرے اچھے عامر

تمہارا خوشیوں سے بھرا ہوا خط ملا۔ تم اب سائیکائٹری میں نوکری تلاش کر رہے ہو، یہ پڑھ کر تعجب ہوا کیونکہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم سائیکائٹری کرو گے۔ وقت اپنے دامن میں بہت کچھ چھپائے بیٹھا ہے، صرف مستقبل ہی اس کے رنگ دکھائے گا۔ تم نے صحیح لکھا ہے کہ تم جلد از جلد پارٹ ون امتحان پاس کرنا چاہتے ہو جس کے لیے جاب کا ملنا ضروری ہے۔ عامر تم کام کے پکے ہو، مجھے یقین ہے تم جو بھی چاہو گے وہ ہو جائے گا۔

ابی کو میں نے تمہارے امتحان کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے بھی مبارکباد دی ہے۔ مگر بہت تھکی ہوئی مبارکباد تھی۔ لگتا تھا جیسے میرے بارے میں ان کے اندیشے جاگ گئے ہیں۔ اگلے تین چار ہفتے امتحان اور پھر پریکٹیکل میں گزر جائیں گے۔ نوکری ملتے ہی فون کرنا، خط لکھتے رہنا۔

تمہاری انجم
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
کراچی 12 دسمبر 1981 ء
عامر

خط ملا تھا لیکن جو اب میں تاخیر ہو گئی۔ کالج یکایک بند کر دیے گئے ہیں۔ تمام تعلیمی اداروں میں تالے لگ گئے ہیں۔ چند صحافیوں اور وکیلوں نے جلوس نکالنے کی کوشش کی تھی تو اندر ہو گئے، مگر حکومت نے سوچا کہ کہیں طالب علم بھی نہ شامل ہوجائیں۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر کیا کر سکتا ہے؟ تعلیم کے دروازے بند کر سکتا ہے۔ سوچ کے تمام راستوں پر پہرے لگا سکتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک اسی طرح سے چل رہے ہیں۔ اخبارات میں کچھ نہیں ہے، تمہارے کچھ سندھی دوستوں نے بتایا ہے کہ اندرون سندھ عجیب صورت حال ہے، سوائے چند ایک کے ہر بڑا وڈیرا ضیاء کے ساتھ ہے اور غریب لوگوں کا وہی حال ہے جو پہلے تھا۔

جئے بھٹو کہنے والا ہر آدمی اندر ہے، کسی کو کوڑے پڑ رہے ہیں، کسی کے ناخن کھینچے جا رہے ہیں، کوئی پھانسی پا رہا ہے، جو بچ گئے ہیں وہ ڈاکو بن گئے ہیں۔ جو سیاسی نہیں وہ ضیاء الحق کے وظیفہ خوار بن گئے ہیں اور زندگی ان کے لیے آسائشیں لے آئی ہے۔ غریب ویسا ہی ننگا ہے اور بھوکا ہے، کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور سے دور بہت دور، جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔

کاش ہم لوگ کچھ کر سکتے، کچھ کرتے۔ ابو سمجھتے ہیں کہ میں بے وقوف ہوں، پاگل ہوں، میرا دماغ تم نے خراب کر دیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے زندگی افسانوں اور ناولوں سے مختلف ہوتی ہے اور ہمیشہ یہی ہوا ہے اور ہوتا رہے گا۔ وہ کہہ رہے تھے غریب کا نام لیا جاتا ہے، کام اسی کا ہوتا ہے جس کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ فوج ہوتی ہے اور روپیہ ہوتا ہے۔ شاید وہ بہت پریکٹیکل ہیں یا شاید میں بہت بدھو ہوں۔ مجھے لکھنا کہ وہاں کے پریس میں کیا آ رہا ہے۔ تم کیسے ہو۔ اس خط کے ملتے ملتے تمہارا انٹرویو ہو گیا ہوگا اور جاب بھی ہو گئی ہوگی۔ میں اپنے امتحانوں میں لگی ہوئی ہوں۔

انجم
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
کراچی 13 جنوری 1982 ء
عامر

ملازمت مبارک ہو، نیا سال مبارک ہو۔ زندگی کے اس موڑ پر کامیابیاں اچھی لگتی ہیں۔ تمہیں سائیکائٹری کے روٹیشن میں نوکری ملی ہے۔ فروری سے کام شروع ہوتے ہی تم بہت مصروف ہو جاؤ گے۔ سردی سے بچنا۔ میں نے سنا ہے کہ انگلینڈ کی فروری سب سے بری ہوتی ہے۔

ہم لوگوں کے امتحان شروع ہو گئے ہیں پھر ختم بھی ہوجائیں گے۔
تمہاری انجم
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
عامر

آج تھیوری کا آخری امتحان بھی ہو گیا اور اب اگلے دس پندرہ دنوں میں پریکٹیکل اور زبانی امتحان بھی ہوجائیں گے۔ تم تو کام میں بہت الجھے ہوئے ہو گے۔ ایک بری خبر ہے۔ سلمیٰ کو تو تم جانتے ہو۔ اس نے امتحان نہیں دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کے بارے میں کچھ پتہ لگے، لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔ کل امتحان کے بعد میں بڑی مشکل سے اس کے گھر پہنچی۔ غفور بابا نے بڑی مشکل سے بغدادی لیاری کے علاقے میں اس کا مکان تلاش کیا۔ وہ مجھے دیکھ کر زار زار رو دی، بہت دیر تک میں اس کے گھر بیٹھی رہی۔

عامر یہ عجیب کہانی ہے، اخباروں میں پڑھی تھی، تین عورتیں تین کہانیاں میں ایسا ہوتا ہے، زندگی میں نہیں ہوتا۔ اس کا ایک ہی بھائی تھا۔ باپ پہلے ہی مر چکا ہے۔ ماں مختلف گھروں میں کام کر کے بھائی بہن کو بڑھا رہی تھی۔ ڈاؤ میں داخلے سے پہلے اور بعد میں ٹیوشن کر کے اپنے خاندان کو سپورٹ کر رہی تھی مگر قرینے سے رہتی تھی۔ مجھے تو کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ سلمیٰ کی زندگی کے کتنے مسائل ہیں۔ پچھلے دو سالوں سے اس کا بھائی ہیروئنچی ہو گیا تھا۔

گھر سے چوری کر کے، گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اور ماں کی چیزیں چوری کر کے بیچ بیچ کر وہ اپنی ضروریات پوری کر رہا تھا۔ امتحان سے پہلے اس کی لاش ملی تھی سوئیوں سے چھلنی۔ وہ ڈرگز کا شکار ہو کر مر گیا تھا۔ سلمیٰ کی ماں کا برا حال تھا۔ سلمیٰ امتحان بھی نہیں دے سکی۔ اتنی مشکل زندگی! میں نے تو سوچا بھی نہ تھا۔ گھر آئی تو آنسو رکتے نہ تھے۔ ابی کو میں نے بتایا تو افسوس کرتے رہے۔ وہ سلمیٰ کو بہت چاہتے تھے۔ بار بار کہہ رہے تھے کاش پتہ ہوتا، کاش پتہ ہوتا تو ہم لوگ کچھ کر سکتے تھے۔

غصے میں تھے، کہنے لگے کہ اس افغانستان کی جنگ نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ عوام کو ہیروئن، غنڈوں کو کلاشنکوف اور جرنیلوں کو ڈالر۔ کتنے لوگ مر گئے، کتنے خاندان برباد ہو گئے۔ یہ کیسا جہاد ہے جو ریگن اور مارگریٹ تھیچر کے لیے لڑا جا رہا ہے۔ عامر تم سچ کہتے تھے امریکا اور روس کی اس جنگ میں جرنیل ہی پیسے بنا رہے ہیں، ڈالر کما رہے ہیں اور غریبوں کے آنگن کے گلاب اگر جنگ سے بچ جاتے ہیں تو ہیروئن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مجھے سلمیٰ کا ساتھ دینا ہوگا۔ امتحان کے بعد میں اسے سپلیمنٹری امتحان کی تیاری کرا دوں گی۔ اپنا خیال کرنا۔

تمہاری انجم
٭٭٭٭ ٭٭٭٭
کراچی یکم مارچ 1982 ء
عامر

کل رات کچھ اس طرح سے دل دھڑکا، کچھ ایسی بے قراری سی ہوئی، کچھ ایسی بے چینی سی اٹھی کہ نہ بیٹھا گیا نہ پڑھا گیا، گھر ویران تھا، ہمیشہ کی طرح اور میں ساکت بیٹھی تھی ٹیلی ویژن کے سامنے۔ آٹھ بجے کے قریب ابی آئے وہ بھی کچھ اداس اداس سے تھے۔ کہنے لگے چلو انجم اسپنزر پر ملک شیک پیتے ہیں۔ دل تو نہیں چاہ رہا تھا مگر ابی کی خاطر تیار ہو گئی۔ اسپنزر سے ہم لوگ کلفٹن چلے گئے۔ اسی جگہ پہ جہاں میں اور تم اور ابی کبھی کبھی گھنٹوں بیٹھے رہا کرتے تھے بپھری ہوئی موجوں کے سامنے، تند ہواؤں کے خلاف۔

گزرے ہوئے دن بڑے ظالم ہیں عامر، تھکی ہوئی زندگی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ میں اور ابی باتیں کرتے رہے مگر ہر لحظہ، ہر لمحہ ہوا کا ہر تند جھونکا تمہاری یاد کی بارش کرتا رہا اور جب خنکی بڑھی تو میرا دل چاہا کہ کاش تم یہاں میرے پاس ہوتے، اسی دن کی طرح جب تم نے اپنا پرانا بوسیدہ کوٹ اتار کر میرے کاندھوں پر ڈال دیا تھا۔ اب تک اس تمہارے کوٹ کی آنچ میں جل رہی ہوں۔ تم پھر کب ملو گے عامر۔

ابی سے بڑی باتیں ہوئیں۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ میں تمہیں بھلا بیٹھوں گی مگر کسی اچھے دوست کی طرح وہ مجھ سے تمہاری باتیں سنتے رہے۔ ہاتھوں کو ملتے رہے۔ کچھ سوچتے رہے، کچھ سمجھتے رہے۔ بڑا پیار آیا تھا ان پر۔ ہلکی ہلکی چاندنی میں جب سمندر سے روشنی گھبرا کر ان کے چہرے پر پڑتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ اپنے اندر کے کرب کو دبا رہے ہیں، چھپا رہے ہیں۔ عامر، دولت جو میرے ابی کو ہمیشہ سے عزیز رہی ہے وہ انہیں کوئی بھی خوشی نہیں دے سکی، مگر پھر بھی وہ اسی کے اسیر ہیں۔

تمام تر دولت بھی میری ماں کو نہیں بچا سکی۔ یہ دولت ہی تو ہے جو آصف کو ان سے دور لے گئی ہے، یہ دولت ہی تو ہے جس کی وجہ سے میں ان سے محروم رہ جاتی ہوں۔ دولت میں اتنی طاقت ہوگی کس نے سوچا ہوگا۔ ابی کے ساتھ وقت گزار کر بڑا اچھا لگا۔ گھر آ کر بری اچھی نیند تمہاری یاد کے ساتھ آئی۔ سیاست کی کوئی خبر نہیں ہے۔ بے نظیر جیل میں ہے، باقی لوگ ضیاء کے ساتھ اقتدار میں ہیں، سرحد اور بلوچستان میں مزید گرفتاریاں ہوئی ہیں، ملتان کے کالونی ٹیکسٹائل مل کے مزدور جلوس میں مارے گئے ہیں، لانڈھی میں فسادات ہوئے ہیں۔

حیدرآباد اور میرپور ساکرو سے بڑے سندھی گرفتار ہوئے ہیں، سنا ہے کہ غداری کا مقدمہ چلے گا۔ وقت ہمیشہ کی طرح بے رحم ہے اور انسان ہمیشہ کی طرح مظلوم۔ اور اقتدار بھی ہمیشہ کی طرح اسی اقلیت کے پاس ہے جو ہتھیار کا مالک ہے۔ عامر، پلے خانوف بکواس کرتا ہے۔ تاریخ میں فرد کا کردار کچھ بھی نہیں ہے۔ تاریخ میں ہتھیار کا کردار ہے۔ وہ تلوار ہو یا کلاشنکوف یا ایٹم بم۔ یہ ہتھیار جو فرد کو طاقت بخشتا ہے جو اس کو اس کی ابتدا اور انتہا سے آگاہ کرتا ہے، جو فرد یا افراد کو سیدھے سادھے معصوم انسانوں سے خوفناک خونی درندوں میں بدل دیتا ہے۔

یہ ہتھیار ہی تو ہے جو بڑے بڑے باضمیر، کلاہ پوش باریش لوگوں کے سروں کو ضرورت کے نظریے کے پائے دان پر سجدہ کراتا ہے۔ طاقت کو قائم رکھنے کے لیے طاقت کا ایسا استعمال کرتا ہے جو نہ اخلاق میں ہے، نہ مذہب میں ہے اور نہ سماجی اصولوں کے ابواب میں ہے۔ میں تو پلے خانوف کے اس فرد کو تلاش کرنے میں ناکام ہو گئی ہوں جو تاریخ کو بدل دیتا ہے، اس کی راہوں کا تعین کرتا ہے۔ کہاں ہے وہ فرد، کدھر ہے وہ آدمی۔ واشنگٹن میں ریگن ہے۔ ماسکو میں بریزنیف اور اسلام آباد میں ضیاء الحق اور اپنی اپنی جگہ پر ہتھیاروں کے مالک جن پر ان کا کنٹرول ہے۔ باقی ساری باتیں کتابوں میں ہیں اور کتابوں میں ہی رہیں گی۔

تم تو میری بات نہیں مانو گے۔ تم نے مجھ سے زیادہ پڑھا ہے، زیادہ سمجھا ہے اور شاید زیادہ دیکھا بھی ہے۔ میں تو ایک امیر باپ کی بے وقوف بیٹی ہوں۔ مجھے غربت کا کیا پتہ، حقوق کا کیا علم، پسینے کی کیا خبر، میں تو جذباتیت کا شکار ہوں، تم تو یہی کہو گے۔ تم جو بھی کہو، سچ تو یہ ہے جو میں کہہ رہی ہوں وقت ثابت کرے گا، انتظار کرو میری بات یاد رکھنا۔

اورل امتحان کے بعد خط لکھوں گی۔ تم میرے بہت قریب ہو عامر۔
تمہاری انجم

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments