اور لڑکی میں جن آ گیا (دوسرا اور آخری حصہ)


رضیہ اپنے کام میں مصروف تھی۔ اس کے چاچے نے چودھری اکبر کو عزت سے بٹھایا اور اس کی خاطر تواضع کی۔ پھر چودھری کے اصرار پر رضیہ بھی اسے ملنے آ گئی۔ اس کے پاس وقت کم تھا اس لئے زیادہ دیر وہاں رک نہ سکتی تھی۔ اس نے چودھری اکبر کو خوش آمدید کہا اور تھوڑی دیر بعد معذرت کر کے چلی گئی۔ وہ تو چلی گئی لیکن چودھری اکبر پر جیسے جادو کر گئی۔ وہاں سے آنے کے بعد بھی اس کے دماغ پر رضیہ کی آواز، اس کا بارعب اور پروقار سراپا چھایا رہا۔

چند دن وہاں گزار کر چودھری اکبر کے دوست تو واپس چلے گئے لیکن وہ خود وہیں رک گیا۔ ماں کے فوت ہو جانے کے بعد چونکہ عنایت بیگم نے ہی دونوں بھائیوں کی ابتدائی پرورش کی تھی اس لئے وہ دونوں بھی عنایت بیگم کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہ جب کبھی بھی حویلی آتے تو ان کے قیام و طعام اور آرام و آسائش کا خیال بھی عنایت بیگم اپنے ذمہ لے لیتی تھی۔ دونوں بھائی عنایت بیگم کی بیٹیوں (اپنی سوتیلی بہنوں ) سے بھی بہت پیار کرتے تھے۔ عنایت بیگم اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتی تھی اور وہ دونوں بھائی اس کے اس ارادے کے پورے پورے حامی تھے۔

چودھری اکبر جب اپنی سی کوشش کر چکا اور اسے رضیہ سے ملاقات کا موقع نہ ملا تو اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار عنایت بیگم سے کر دیا۔ اس نے اکبر کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ ایک تو وہ اس کے باپ کی بیوی رہ چکی ہے، لوگ کیا کہیں گے؟ دوسرے اب وہ ایک بڑی شخصیت بن چکی ہے۔ علاقے میں اس کا نام ہے۔ چودھری حاکم کے خلاف اس کے دل میں نفرت بھی بہت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملاقات پر وہ اکبر کے شایان شان سلوک نہ کرے اور اکبر کی عزت میں کمی آ جائے۔ مگر اکبر اپنی ضد پر قائم رہا تو عنایت بیگم نے ایسی ملاقات کے لئے کوشش کی ہامی بھر لی۔

ملاقات رضیہ کے گھر میں ہونا طے پائی۔

چودھری اکبر ملاقات کے لئے پہنچا تو پہلے اسے بڑے کمرے میں بٹھا کر چائے پلائی گئی اور کچھ انتظار بھی کرایا گیا۔ گھر کے باہر سے تو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا تھا مگر کمرے کی اندرونی سجاوٹ قابل دید تھی۔

رضیہ کمرے میں داخل ہوئی تو حیرت کا ایک اور پہاڑ چودھری اکبر کے سر پر ٹوٹا۔ وہ نہایت قیمتی زنانہ لباس میں ملبوس تھی۔ بال تو ایسے لگتا تھا جیسے کسی بیوٹی پارلر سے بنوائے گئے ہیں۔ اس کے اندر آتے ہی کسی اعلیٰ پرفیوم سے پورا کمرہ مہک اٹھا۔ وہ تقریباً چالیس منٹ اس کمرے میں موجود رہی اور سارا وقت اکبر کی تعلیم، اس کے آئندہ ارادوں اور اس کی سوتیلی بہنوں کی پڑھائی کے بارے میں گفتگو کرتی رہی۔ چودھری اکبر نے بار بار کوشش کی لیکن وہ بات چیت کو رضیہ کے حسن و جمال یا اس سے متعلق اپنی پسندیدگی کی طرف نہ موڑ سکا۔ رضیہ نے اسے ایسا موقع ہی نہیں دیا۔

چودھری اکبر کی خواہش اور عنایت بیگم کی مدد سے دونوں کی تین اور ایسی ہی ملاقاتیں ہوئیں لیکن ہزار کوشش کے باوجود اکبر اپنی آرزو کو زبان پر نہ لا سکا۔ آخر ایک دن کھانا ختم ہونے کے بعد خود رضیہ نے ہی بات کا آغاز کیا۔

”دیکھو چودھری اکبر! اگر تم مجھے ایک نوجوان لڑکی سمجھ کر یہاں ملنے چلے آتے ہو، جو تمہاری موجودگی سے خوش ہو گی تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ مجھے اس وقت کسی مرد کی ضرورت نہیں اور تمہاری تو بالکل بھی نہیں۔ تمہارے باپ نے عمومی طور پر اس علاقے کے عوام کے ساتھ، یہاں کی کئی نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اور پھر خاص طور پر جو کچھ میرے ساتھ کیا، اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں اور بہت تکلیف دے رہے ہیں“ ۔

چودھری اکبر نے موقع غنیمت جانا اور بغیر کسی تمہید کے بولا ”میں ان سب دکھوں کا مداوا کرنا چاہتا ہوں رضیہ! میں تم سب کے لئے انصاف کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں“ ۔

”اچھا تو چودھری حاکم اب ایک نیا روپ اوڑھ کر آیا ہے؟“ رضیہ نے طنز یہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا

”نہیں، بالکل نہیں! میرا نام اکبر ہے اور میں ثابت کر دوں گا کہ میرے باپ کے ماضی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں“ ۔

”لیکن مجھ سے ہے اور اسے کسی طرح بھی بھلایا نہیں جا سکتا، میں تمہاری سوتیلی ماں بھی رہ چکی ہوں۔ جانتے ہو نا سوتیلی ماں سے شادی کا کیا مطلب لیا جائے گا؟“ ۔

”میں نہیں سمجھتا کہ ایسی شادی کو شادی بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ صرف ایک زبردستی تھی۔ وہ میرے باپ کا گناہ تھا۔ اور میرے باپ کے گناہ کی سزا مجھے دینا کسی طرح بھی انصاف نہیں ہو گا“ ۔

”جو تمہارے باپ نے بوئی تھی وہ نفرت اب پوری جوان ہو چکی ہے۔ وہ اتنی جلدی کیسے مر جائے؟ یہ اور بات کہ میں بھی جوان ہوں تو جلد یا بدیر شادی تو میں نے بھی کرنی ہے۔ لیکن کروں گی اپنی مرضی کے آدمی سے“ وہ اعتماد سے بولی۔

”اور کون ہے تمہاری مرضی کا آدمی؟ یا کوئی ایسا جسے تم پیار کرتی ہو؟“ ۔

”پیغام تو بہت سے آ رہے ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی نہیں ہے جو میری پسند کے زمرے میں آتا ہو، اور تم تو ہو ہی نہیں سکتے۔ یوں بھی میں تو پیار محبت کے علاوہ بھی اپنے ہونے والے مرد کے بارے اور بہت کچھ جاننا چاہتی ہوں۔ سمجھنا چاہتی ہوں“ ۔

”کوئی مرد جو اپنی ہونے والی بیوی سے پیار کرتا ہو۔ اسے اچھی زندگی دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ اس سے زیادہ کسی عورت کو اور کیا چاہیے؟“ ۔

”لیکن مجھے چاہیے۔ مجھے چاہیے ایک ایسا شخص جسے میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ بھی مجھے ہر انداز سے جانتا ہو۔ مجھے معلوم ہو کہ پیار کا دعویٰ کرنے والا بستر میں میرے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ وہ مجھ سے کیا توقع رکھتا ہے اور میری توقعات پر کس حد تک پورا اترتا ہے؟ میرے نزدیک جب تک مرد اور عورت ایک دوسرے سے ذہنی اور جسمانی ہم آہنگی نہ رکھتے ہوں، وہ اچھے میاں بیوی ثابت نہیں ہو سکتے“ رضیہ نے جیسے بات کھول کر رکھ دی۔

”لیکن شادی سے پہلے ہم جسمانی تعلقات کی ہم آہنگی کے بارے میں کیسے جان سکتے ہیں؟“ ۔
”جیسے تمہارے شہروں کی ہائی سوسائٹی کے لوگ جان لیتے ہیں“ ۔

”تم یہاں گاؤں میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہو۔ تھوڑا بہت اردو ضرور لکھنا پڑھنا سیکھ چکی ہو۔ چند الفاظ انگلش کے بھی آتے ہیں تمہیں۔ تم شہروں کی ہائی سوسائٹی کے بارے میں کیا جانتی ہو؟“ ۔

”مجھے لکھنا پڑھنا سکھانے والی بڑی دانا عورتیں ہیں چودھری اکبر! انہوں نے زندگی کا ایک ایک سبق مجھے گھول کر پلا دیا ہے۔ اور میں نے بھی اس کا ایک ایک نکتہ اپنی رگ رگ میں اتار لیا ہے“ ۔

”چلو مان لیا۔ اب یہ بتاؤ تم کیسے جان پاؤ گی کہ بستر میں تمہارے ساتھ میرا کیا برتاؤ ہو گا؟“ ۔

”تم ایک رات میرے ساتھ کہیں ایک بستر میں گزارو۔ میں سمجھ جاؤں گی کہ تم نے صرف ایم بی اے کی ڈگری ہی حاصل کی ہے یا عورت کے ساتھ سونے جاگنے کی تہذیب بھی سیکھی ہے؟“ ۔

”میں شہر کی کئی لڑکیوں کے ساتھ سو چکا ہوں، اور کسی نے کوئی شکایت نہیں کی“ ۔

”مجھے ایسی کسی لڑکی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں اپنا تجربہ خود کروں گی اور بڑی حد تک تمہیں پہچان بھی لوں گی“ ۔

”اچھی طرح سوچ لو۔ تم اس گاؤں میں رہتی ہو، یہاں بے شمار مذہبی اور معاشرتی پابندیاں ہیں۔ اور اب تک اچھی خاصی عزت بھی ہے تمہاری یہاں“ ۔

”یہ میرا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی مجھے کوئی پاکباز عورت یا مذہبی رہنما نہیں بننا ہے۔ مجھے اپنی زندگی گزارنی ہے، اپنے طریقے سے، اور کسی کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر“ ۔

”اور اگر میں تمہارے امتحان میں کامیاب ہو گیا تو پھر تم میرے ساتھ شادی کر لو گی؟“ ۔

”نہیں، یہ تو اس سمت میں پہلا قدم ہو گا۔ اس کے بعد کے مرحلے تو اور بھی مشکل، بلکہ تمہارے لئے تو شاید ناممکن ہوں گے“ ۔

”مطلب، اس کے بعد مجھے کچھ اور بھی کرنا ہو گا؟“ ۔
”بالکل! اس کے بعد تمہیں میری تین شرطیں پوری کرنی ہوں گی“ ۔

”میں تمہیں ہر صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تمہیں پیار محبت اور عزت دینا چاہتا ہوں۔ تم مجھے اپنی شرائط بتاؤ؟ سوائے کسی کو قتل کرنے کے، میں تمہاری ہر شرط پوری کرنے کو تیار ہوں“ ۔

”میں کسی کو قتل کروانا نہیں چاہتی، بلکہ ایک قاتل کو سزا دلوانا چاہتی ہوں۔ البتہ وہ شرائط بستر والے مرحلے سے گزر کر بتاؤں گی“ ۔

چودھری اکبر خوش بھی تھا کہ وہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے اور خوفزدہ بھی کہ رضیہ جو اس معاملے میں اتنے کھلے انداز سے سوچتی ہے، اس نے نجانے اس سلسلے میں اپنا کیا معیار بنا رکھا ہے ”۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments