اور لڑکی میں جن آ گیا (دوسرا اور آخری حصہ)


رجو، اب باپ کے گھر واپس پہنچی تو وہ بہت سے قیمتی ملبوسات، سونے کے زیورات اور ایک مربع اراضی کی مالک تھی۔ اس لئے جب اس نے سب کو صاف صاف لفظوں میں کہا کہ اس کی طلاق کی وجہ سے کوئی اس سے دکھ یا ہمدردی کا اظہار نہیں کرے گا، یہ طلاق اس کے لئے خوشی کی بات ہے اور اس کی جیت بھی، تو کسی کی بھی اس کے آگے بولنے کی جرات نہ ہوئی۔

رجو کی سہیلیاں بھی روز اسے ملنے کے لئے آ رہی تھیں۔ رجو خوب بن ٹھن کر ان کا استقبال کرتی اور ان کی خاطر تواضع بھی کرتی۔ چودھری کے اب تک ہونے والے مظالم کی وجہ سے علاقے کی ہر جوان لڑکی سہمی ہوئی رہتی تھی۔ اس معاملے میں اب تک اتنے واقعات ہو چکے تھے اور پولیس کچہری یہاں تک کہ وکیلوں تک جانے میں بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ لگتا تھا جیسے اس علاقے کے سب لوگ چودھری حاکم کے آگے بالکل بے بس ہیں۔ اسی لئے ہر لڑکی کو یہ جاننے کی جلدی تھی کہ رجو آخر کس طرح چودھری کے چنگل سے اور اتنے باعزت طریقے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی؟ رجو اپنی ہر سہیلی کو پوری پوری بات بتا دیتی۔ اسی وجہ سے جلد ہی ”جنڈل گھمباٹا“ اس کی سب سہیلیوں میں اور پھر پورے علاقے کی لڑکیوں میں مشہور ہو گیا۔ بعض لڑکیاں تو مذاق میں بھی ایک دوسرے سے پوچھتیں ”کیا تمہاری بھی کسی جنڈل گھمباٹا سے دوستی ہے؟“ ۔

حویلی چھوڑنے سے پہلے، عنایت بیگم اور رجو کے درمیان یقیناً بہت گہرے عہد و پیمان ہوئے تھے لیکن اس کی تفصیلات تو کسی کو بھی معلوم نہیں تھیں۔ البتہ بات ضرور کوئی گہری تھی۔ اسی وعدے کو وفا کرتے ہوئے عنایت بیگم نے اپنے ایک عزیز کو ساتھ بھیج کر رجو کے تمام زیورات ایک بینک کے لاکر میں رکھوا دیے۔ ساتھ ہی اس نے اپنی بیٹیوں کی مدد کے لئے آنے والی استانی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ رجو کو اردو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔

کچھ ہی دنوں میں پورے پچیس ایکڑ زمین کا انتقال بھی رجو یعنی رضیہ بی بی کے نام ہو گیا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی زمین کی دیکھ بھال کا کام بھی سنبھال لیا۔ اس کے باپ اور چچا لوگوں نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ ابھی عمر میں چھوٹی ہے اس لئے لوگ اس کی بات آسانی سے نہیں مانیں گے۔ اور پھر وہ اس کے بڑے ہونے کے ناتے پوری محنت اور دیانتداری سے اس کے کھیتوں اور فصلوں کی دیکھ بھال کریں گے، لیکن وہ مصر رہی کہ ہر کام اس سے پوچھ کر، اسے بتا کر اور اس کی نگرانی میں ہو گا۔

اس نے سب کو مجبور کر دیا کہ اب اسے رضیہ بی بی کہہ کر ہی بلایا جائے گا۔ لفظ ”رجو“ آج کے بعد استعمال نہیں ہو گا۔ چودہ سالہ ایک دیہاتی لڑکی کا یہ حاکمانہ رویہ برداشت کر ناکسی کے لئے بھی آسان نہ تھا۔ خاص طور پر ان کے لئے جو رشتہ میں بھی اس کے بڑے تھے، مگر اس وقت طاقت کا توازن اس کے حق میں تھا۔ اس لئے سب اس کی بات ماننے کے لئے مجبور تھے۔

چند مہینوں میں ہی اس نے تھوڑی تھوڑی اردو پڑھنی لکھنی سیکھ لی۔ اب کھیتوں کی آمدنی بھی اس کے پاس آنے لگی۔ روپیہ پیسہ ہاتھ آتے ہی اس نے شہر سے سعدیہ احمد نام کی ایک استانی کو یہاں اپنے ساتھ رہنے کے لئے بلا لیا۔ معقول تنخواہ کے علاوہ اس کے آرام وغیرہ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ ہفتے میں دو دن وہ اپنے گھر بھی جا سکتی تھی۔ نئی استانی معقول نصابی علم کے علاوہ ایک دانا اور ہمدرد انسان تھی۔ اس نے اردو لکھنا پڑھنا تو رضیہ کو سکھایا ہی، ساتھ ساتھ اسے زمانے کے نشیب و فراز سے بھی آگاہ کر دیا۔ زندگی کے بارے میں جتنا علم اس کے پاس تھا وہ تو اس نے سارے کا سارا رضیہ کے دماغ میں انڈیل دیا۔ اور اسے دعا بھی دی کہ وہ اس علاقے میں رضیہ بی بی کے روپ میں، رضیہ سلطان کی طرح مضبوط عورت بن کر ابھرے۔ یہاں تک کہ وہ آس پاس کے دیہات کی عورتوں کے لئے ایک مثال بن جائے۔

اس تمام عرصہ میں چودھری حاکم زیادہ وقت تو شہر میں ہی گزارتا رہا، البتہ جب بھی کبھی وہ گاؤں میں موجود ہوتا تو اکثر اس کی شامیں آمنہ بی بی کے ساتھ ہی کٹتیں۔ نجانے کیوں مگر اب آمنہ بی بی سے اس کی محبت نئے سرے سے جوان ہو گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ آمنہ بی بی کی ماں بننے کی خواہش بھی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی تھی۔ اگرچہ امید کا ابھی دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا۔

گاؤں میں رہتے ہوئے چودھری حسب معمول روز صبح گھوڑے پر سوار ہو کر ڈیرے تک بھی ضرور جاتا اور شرفو سے بھی اس کی ملاقات ہوتی رہتی۔ شرفو بھی اپنے پرانے داؤ پیچ استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہتا تا کہ اس کی زائد آمدنی کا پھر کوئی وسیلہ بن سکے۔ مگر ابھی تک اس کا کوئی تیر بھی نشانے پر نہیں لگ رہا تھا۔ یوں تقریباً ایک سال گزر گیا۔

اس ایک سال کے بعد بالآخر چودھری کا دل پھر سے اپنے علاقے کی کنواری لڑکیوں کی طرف مچلنے لگا۔ شرفو اس تبدیلی پر بہت خوش ہوا۔ اس نے چودھری کو موبائل پر ایک تصویر دکھائی۔ شرفو کئی مہینوں سے اس لڑکی کی خوبصورتی کا بیان کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ چودھری نے تصویر دیکھی تو وہ بھی فریفتہ ہو گیا۔ شرفو نے بتایا تھا کہ لڑکی کے ماں باپ اور بھائی وغیرہ سب پیسے کے انتہائی لالچی ہیں، اس لئے امید ہے کہ بات آسانی سے بن جائے گی۔ چودھری نے شرفو کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ پہلے ہی رجو کا معاملہ بگڑتے بگڑتے بچا ہے۔ اب اگر اس لڑکی کے ماں باپ یا بھائیوں کی غیرت جاگ اٹھی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ لیکن شرفو بولا حضور یہ لوگ غربت کی چکی میں اتنے پس چکے ہیں کہ اب غیرت کی کوئی کنکری بھی نہیں بچی ہو گی۔

چودھری کی طرف سے ہری جھنڈی ملتے ہی شرفو نے لڑکی کے ماں باپ سے رابطہ کیا اور انہیں روپے پیسے کے سبز باغ دکھانے کے ساتھ ساتھ مکمل رازداری کا بھی یقین دلایا۔ لڑکی کو پہلے سے ہی کچھ شک تو تھا مگر مکمل بات کا علم نہیں تھا۔ اتفاق سے اسے شرفو اور اپنے ماں باپ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا تھوڑا بہت حصہ سننے کا موقع مل گیا اور اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ شرفو کے جانے کے بعد لڑکی نے ماں باپ سے کہا کہ وہ ان کی اطاعت گزار اور فرمان بردار ہے۔ ان کے ارادوں کے خلاف نہیں جائے گی مگر اگلی بات شروع ہونے سے پہلے وہ ایک بار شرفو چاچا سے ملنا چاہتی ہے۔

لڑکی کو پہلے اس کی کسی سہیلی نے رضیہ سے چودھری کی شادی اور پھر طلاق کی ساری کہانی سنا دی تھی۔ بعد میں اس کی ایک بار رضیہ سے براہ راست ملاقات بھی ہو گئی تھی۔ انہی معلومات کی بنا پر جب وہ شرفو سے ملی تو اس نے چودھری کے لئے نہایت پیار اور فرمان برداری کے لہجے میں ایک پیغام دیا۔ جو کچھ یوں تھا کہ اسے بھی چودھری حاکم جیسے بڑے آدمی کے ساتھ ایک، دو یا چار راتیں گزار کر بہت خوشی ہو گی مگر اس کے ساتھ اس کا دوست جنڈل گھمباٹا بھی اس کی رکھوالی کے لئے آئے گا۔ شرفو جانتا تھا کہ اس نام کا کوئی بندہ تو سرے سے اس علاقے میں موجود ہی نہیں، پھر یہ کیا واقعہ ہے؟ اس نے استفسار بھی کیا کہ اسے جنڈل گھمباٹا کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کون ہے؟ لیکن لڑکی نے شرفو کو تاکید کی کہ وہ پہلے چودھری کو صرف اتنا بتائے۔ پھر اگر چودھری نے ہامی بھر لی تو وہ مزید تفصیل بھی بتا دے گی اور خوشی خوشی آ بھی جائے گی۔

شرفو نے چودھری کو لڑکی کے الفاظ بعینہ اسی طرح پہنچا دیے۔ چودھری کو تو لڑکی کی بات سنتے ہی ایک جھٹکا سا لگا اور اس کے سامنے رجو والی راتوں کا نقشہ آ گیا مگر اس نے اپنی حالت ظاہر نہ ہونے دی۔ بلکہ شرفو کو ایک دو دن سوچنے کا کہہ کر ٹال دیا۔ لیکن دو دن بعد ہی یہ کہہ کر اس سلسلے سے انکار کر دیا کہ اسے خبر ملی ہے، لڑکی کے دماغ میں کچھ خرابی ہے۔ اور سنا ہے اسے کبھی کبھی پاگل پن کے دورے بھی پڑتے ہیں۔ شرفو کو کسی کی بھی کوئی بات سمجھ نہ آئی مگر وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔

رضیہ نے اب تک نہ صرف ڈرائیونگ سیکھ لی تھی، بلکہ ایک پرانی پک اپ بھی خرید لی تھی۔ اپنے کھیتوں پر اب روایتی فصلوں کی جگہ وہ زیادہ تر سبزیاں اگانے لگی تھی۔ کاشت کے انداز میں بہتری لانے کے لئے، اس نے زرعی سائنسدانوں سے بھی مدد لینی شروع کر دی تھی۔

نہایت ضروری کاموں کے علاوہ، رضیہ کے کھیتوں میں اب مرد لوگوں کا آنا کم ہی ہوتا تھا۔ زیادہ تر کام اب وہ عورتوں اور لڑکیوں سے ہی لیتی تھی۔ وہ تمام عورتیں اور لڑکیاں جو پہلے صرف کپاس چننے، دھان لگانے یا دیگر ہلکے پھلکے کاموں تک محدود تھیں، اب سبزیاں اور دیگر فصلیں بونے، انہیں پانی دینے، ان کی نلائی کرنے اور ضرورت پڑنے پر ان کی کانٹ چھانٹ کا کام بھی کرنے لگی تھیں۔ رضیہ خود بھی ان کے ساتھ مل کر ایسے سب کام انجام دیتی تھی۔ یوں اب اس علاقے کی بہت سی عورتیں اور لڑکیاں اس کے کھیتوں میں کام کر کے معقول پیسے بھی کمانے لگی تھیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments