اور لڑکی میں جن آ گیا (دوسرا اور آخری حصہ)


بہر حال، دونوں نے وقت طے کیا اور شہر میں ملاقات کا انتظام ہو گیا۔

رات کو جب ایک مدھم سے بلب کے سوا باقی سب روشنیاں بند کر دی گئیں تو دونوں کو ایک دوسرے کے جسم دیکھنے کا موقع ملا۔ اکبر تو رضیہ کے جسم کی بناوٹ دیکھ کر دنگ ہی رہ گیا۔ پھر رضیہ نے پورے عمل میں اس ماہرانہ انداز میں حصہ لیا کہ اکبر کے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ رضیہ پر فریفتہ ہو گیا۔

دوسری صبح رضیہ نے اسے بتایا کہ وہ پاس تو ہو گیا ہے لیکن رعایتی نمبروں سے۔ وہ اپنے باپ کی نسبت عورت کو صرف ایک جسم کی بجائے ایک جیتا جاگتا انسان تو سمجھتا ہے مگر اس کے جذبات سے ابھی تک ناواقف ہے۔ تبھی اس نے اسے اپنی تین شرائط میں سے پہلی دو بتا دیں۔ ساتھ میں یہ بھی حوصلہ دیا کہ تیسری شرط بہت آسان ہے البتہ ابھی بتائی نہیں جائے گی۔

بے شک چودھری حاکم کی طرف سے اپنی اولاد کو کبھی بھی پدرانہ شفقت نہیں ملی تھی مگر اس نے انہیں تمام آرام و آسائش ضرور مہیا کیے تھے۔ بلا شبہ چودھری اکبر کو علم تھا کہ اس کا باپ ایک ظالم زمیندار اور ایک ریاکار سیاستدان ہے لیکن رضیہ اسے جو سزا دینا چاہتی تھی وہ بھی اکبر نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ یہی رضیہ کی پہلی اور بڑی شرط تھی اور یقیناً ایک بہت ہی سخت شرط تھی۔ اکبر کا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ رضیہ کی محبت سے دستبردار ہونے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ اسی لئے آخرکار وہ مشورے کے لئے عنایت بیگم کے پاس پہنچا۔

عنایت بیگم نے اکبر کو یہ کہہ کر اور بھی حیران کر دیا کہ چودھری حاکم کے مظالم اس کی اور رضیہ کی معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ خود اکبر کی والدہ کے ساتھ اس نے کیا کیا تھا اگر وہ جان لے تو شاید رضیہ کی شرط کے بغیر ہی اپنے باپ کو وہ سزا دینے کے لئے تیار ہو جائے۔ اکبر کے استفسار پر عنایت بیگم نے اسے یہ بتایا کہ جب اس کی ماں تیسرے بچے کی زچگی کے دوران درد سے تڑپ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے پہلے سے بتایا ہوا تھا کہ اس بار زچگی پیچیدگی کا شکار ہو سکتی ہے، اس لئے پیشگی احتیاط کی بہت ضرورت ہے۔ جب دائی بار بار کہہ رہی تھی کہ بچے کا سر الٹا ہوا ہے، اسے فوراً ہسپتال لے جائیں۔ اس وقت آپریشن کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں ہے کہ زچہ اور بچہ کی زندگی بچائی جا سکے۔ اس وقت چودھری حاکم کسی معصوم و مجبور لڑکی کی نتھ کھولنے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اکبر کی ماں بے انتہا درد سے تڑپتی تڑپتی اپنے ہونے والے بچے سمیت مر گئی۔ چودھری حاکم تک یہ خبر بھی صبح ہونے سے پہلے نہ پہنچ سکی۔ یہ سب جاننے کے بعد اکبر تو جیسے غصے سے پاگل ہو گیا۔ اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے پھر عنایت بیگم سے ہی مدد مانگی۔

عنایت بیگم نے عذر خواہی کی بہت کوشش کی لیکن آخرکار اسے ہامی بھرنا ہی پڑی۔ تبھی اس نے اپنا دماغ لڑانا شروع کیا۔ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے کے ساتھ ساتھ اس نے آمنہ بی بی کی ایک خاص نوکرانی کو بھی توڑا۔ اسی نوکرانی کی مدد سے ایک بڑا نکتہ بھی اس کے ہاتھ آ گیا۔ منصوبہ کے مطابق ہی اکبر بھی کئی دن لگاتار آمنہ بی بی کے پاس جاتا اور اسے اپنی اطاعت و فرمان برداری کا یقین دلاتا رہا۔ اسی دوران میں وہ آمنہ بی بی کا ایک اہم بیان بھی ریکارڈ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی خوش قسمتی کہ چودھری حاکم ان دنوں کسی خاص کام سے اسلام آباد میں مصروف تھا۔

پھر اکبر نے اپنے ایک دوست کی مدد سے شہر کے ایک مشہور سائیکاٹرسٹ سے واقفیت نکالی اور رشوت کا ہتھیار بھی استعمال کیا۔ آمنہ بی بی کی ریکارڈنگ کے علاوہ حویلی اور لاہور والے فارم ہاؤس سے کئی ملازمین کے بیانات بھی اکٹھے کیے اور اس سائیکاٹرسٹ کو پیش کر دیے۔

پھر ایک دن وہ چودھری حاکم کو ایک بہانے سے اسی سائیکاٹرسٹ سے ملانے لے گیا، جس نے چند باتیں کرنے کے بعد چودھری حاکم کو بتایا کہ عمر کے ساتھ کبھی کبھی انسان ایسے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ مزید جانچ پڑتال کے لئے اسے ایک خاص سپیشلسٹ کے پاس بھیجا، جو دماغی امراض کے ہسپتال کے ایک شعبہ میں بیٹھتا تھا۔ چودھری حاکم بھی ایک انجانے خوف کے تحت اسے ایک بیماری سمجھ کر تشخیص کروانے کے لئے تیار ہو گیا۔

سارا منصوبہ پہلے سے طے تھا اور وہاں معائنہ کے بعد چودھری حاکم کو دماغی امراض کے اس شفا خانے میں عارضی طور پر داخل کر لیا گیا۔ وہاں اسے تیسرے دن صحیح طور پر ادراک ہوا کہ اسے تو یہاں ایک پاگل کے طور پر لایا گیا ہے۔ اب وہ چیختا چلاتا اور بتانے کی کوشش کر تاکہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن جب بھی وہ زیادہ شور مچاتا تو اسے ایک ہیوی ڈوز کا انجکشن دے دیا جاتا اور وہ بے سدھ ہو کر پڑ رہتا۔

جب تک آمنہ بی بی کو اس ساری سازش کی خبر ملی اور اس نے ذاتی کوشش کر کے چودھری حاکم کے کچھ قریبی دوستوں سے رابطہ کیا، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ چودھری حاکم اب ان ٹیکوں کا باقاعدہ عادی ہو چکا تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے جنڈل گھمباٹا کا ذکر کرتا اور اسے اونچی آواز میں گالیاں دیتا رہتا۔ شفاخانہ کا عملہ اسے علاج کے طور پر ایک اور ٹیکہ لگا دیتا۔ یوں وہ شانت ہو کر بیٹھ جاتا۔ حالات ایسے تھے کہ کوئی بھی ڈاکٹر یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ چودھری حاکم کسی سازش کا شکار ہوا ہے۔ اس طرح دراصل پورے محکمے کے خلاف انکوائری کا امکان پیدا ہو سکتا تھا۔ چنانچہ آمنہ بی بی اور چودھری حاکم کے قریبی دوستوں کی تمام کوششیں بے کار گئیں۔

ادھر چودھری اکبر نے تمام زمین اور ہر طرح کی جائیداد کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ وہی اکبر جسے باپ کی سیاست سے کبھی

کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی، اب اس تمام سیاست کی باگ ڈور بھی اکبر کے ہاتھ میں تھی۔ چھوٹے بھائی یعنی چودھری انور کو باپ کے پاگل ہونے کا دکھ ضرور تھا مگر اس سے زیادہ اسے کسی اور معاملے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ روپے پیسے کی اسے جتنی بھی ضرورت تھی، اکبر اس سے کچھ زیادہ ہی بھیج رہا تھا۔ لہٰذا چودھری انور اپنی جگہ مطمئن اور اپنے کام میں مگن تھا۔

چودھری حاکم کے حقیقی طور پر پاگل ہو جانے کی جسے سب سے زیادہ خوشی تھی وہ خود ایک پاگل تھی۔ شاداں جھلی، سردی گرمی، بھوک پیاس سے بے نیاز، گاؤں کی کسی نہ کسی گلی میں پائی جاتی۔ بچے اسے تنگ کرتے تو وہ انہیں گالیاں دیتی، ان کے پیچھے دوڑتی اور آخر تھک کر پھر کہیں بیٹھ جاتی۔ لیکن چودھری حاکم والی خبر کو اس پاگل نے نہ صرف سمجھ لیا بلکہ اس سے اتنی خوش ہوئی کہ اب وہ گلی گلی میں ناچتی گاتی پھر رہی تھی۔

شاداں کا اصل نام شاہدہ جبیں تھا جو اس کے ماموں نے رکھا تھا۔ ماموں تھوڑا بہت پڑھا لکھا اور شہر میں کچھ کام کاج کرتا تھا۔ شاہدہ ابھی صرف تیرہ سال کی معصوم بچی تھی کہ چودھری حاکم کے لوگ اسے اٹھا کر حویلی لے گئے۔ وہ وہاں کئی دنوں تک چودھری حاکم کے جنسی تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔ مسلسل جنسی تشدد اور کال کوٹھری میں قید، وہ جلد ہی اپنے حواس کھو بیٹھی۔ چودھری نے یہ جان کر کہ اب تو وہ اپنے حواس میں ہی نہیں ہے تو کسی کو کیا بتائے گی، اسے آزاد کر دیا۔

یوں تو سارے گاؤں کو اصل واقعہ کی خبر تھی مگر کسی نے بھی زبان کھولنے کی ہمت نہ کی۔ شاہدہ کے ماں باپ نے پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی تو الٹا ان پر ہی مختلف مقدمات بنوا دیے گئے۔ ان کے کوئی رشتہ دار بھی وہاں نہیں تھے جو ان کی مدد کو آ سکتے۔ شاہدہ کا اکلوتا بھائی اس وقت صرف تین سال کا تھا۔ علاقے کے کچھ لوگوں نے کوشش کر کے ان کی پولیس سے خلاصی کرائی۔

شاہدہ نے پہلے اپنے ہوش و حواس کھوئے اور پھر پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ ہر کسی کے قابو سے باہر ہو گئی اور آخر میں بالکل پاگل۔ اس واقعہ کو سترہ سال گزر چکے تھے۔ اب تو کسی کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ شاداں جھلی کا اصل نام شاہدہ جبیں ہے۔ البتہ اب اس کا بھائی بیس سال کا جوان ہو چکا تھا۔ جب سے اسے بہن کے ساتھ ہو چکے واقعہ کی خبر ملی تھی، انتقام کی ایک آگ اس کے سینے میں بھی سلگ رہی تھی۔

تمام حالات پر قابو پا لینے کے بعد چودھری اکبر اور رضیہ بی بی کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ کچھ ہفتوں کے بعد جب رضیہ کاغذات میں بائیس اور اصل میں اٹھارہ سال کی ہو جائے گی تو چودھری کے ڈیرے پر ایک خاص تماشا دکھایا جائے گا۔ مگر وہ تماشا کیا ہو گا اس کے بارے میں ابھی کچھ بتایا نہیں جا رہا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments