منٹو کے افسانے صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہیں


کالی شلوار

منٹو کے افسانے ’کالی شلوار، کی ہیروئن سلطانہ اس افسانے میں امیری سے غریبی کی طرف سفر کرتی ہے۔ انبالہ میں اس کا کاروبار زوروں پر تھا اور وہ اپنی کمائی سے خوبصورت کپڑے اور مہنگے زیورات خرید سکتی تھی لیکن جب وہ دہلی آ گئی تو کاروبار میں مندی کا رجحان ہو گیا اور وہ بے کار محسوس کرنے لگی۔ وہ تنہا ہو گئی اور سارا دن اپنے کمرے کی کھڑکی سے ریل کی پٹڑیاں دیکھتی اور اپنی قسمت پر ماتم کرتی۔ جب حالات بہت ہی ناگفتہ بہ ہو گئے تو اسے کھانا کھانے اور کمرے کا کرایہ ادا کرنے کے لیے بادلِ ناخواستہ اپنے قیمتی زیورات بیچنے پڑے۔

وہ سارا دن خدا بخش سے شکایتیں کرتی اور کسی گاہک کی راہ تکتی لیکن گاہک نے نہ آنا ہوتا نہ آتا۔

منٹو کے افسانے کی ہیروئن اپنی زندگی اور ریل کی پٹڑیوں، ریل کے ڈبوں اور انجنوں میں ایک مماثلت محسوس کرتی ہے۔

منٹو لکھتا ہے

’ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح ابھری رہتی تھیں،۔ ۔ ۔ ۔

’دھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔ وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جا رہی ہے۔

دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے۔ نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہوگا۔ ،

یہ جملے پڑھنے سے سلطانہ کے EXISTENTIAL CRISIS کا بھرپور تعارف ہو جاتا ہے۔

آخر ایک دن اسے ایک دلچسپ مرد شنکر نظر آتا ہے اور وہ اسے اوپر بلا لیتی ہے لیکن وہ مرد عجیب و غریب ہے۔ اس کی شخصیت غیر روایتی ہے۔ وہ عام مردوں کی طرح بات چیت نہیں کرتا۔ وہ جنس کے لیے پیسے دینے کی بجائے پیسے لینے کی بات کرتا ہے۔ سلطانہ کی اس سے پہلے شنکر جیسے مرد سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ سلطانہ نہیں جانتی تھی کہ جہاں عورتیں طوائف ہوتی ہیں اور جنسی فعل کے پیسے لیتی ہیں، اسی طرح کچھ مرد بھی طوائف ہوتے ہیں اور جنس کے پیسے لیتے ہیں۔ ایسے مرد جیگلو کہلاتے ہیں۔

شنکر کا کردار جاندار کردار ہے۔ منٹو نے اس کے ڈائلاگ سے اس کردار میں جان ڈال دی ہے۔ ایسا کردار اردو ادب میں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔

منٹو لکھتا ہے

’ آپ کیا کام کرتے ہیں؟،

شنکر نے جواب دیا ’یہی جو تم لوگ کرتے ہو،

’کیا؟،

’تم کیا کرتی ہو؟،

’میں۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی،

’میں بھی کچھ نہیں کرتا،

سلطانہ نے بھنا کر کہا ’ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہونگے،

شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ’تم بھی کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتی ہوگی،

’ جھک مارتی ہوں،

’میں بھی جھک مارتا ہوں،

’تو آئو دونوں جھک ماریں،

’ میں حاضر ہوں مگر جھک مارنے کے لیے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا،

’ ہوش کی دوا کرو۔ یہ لنگر خانہ نہیں ہے،

’اور میں بھی والنٹیر نہیں ہوں،

سلطانہ یہاں رک گئی ’یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں؟،

شنکر نے کہا ’الو کے پٹھے،

شنکر کے مزاج میں بے نیازی ہے ایک درویشی ہے جو سلطانہ کو بہت بھاتی ہے۔ وہ کہتا ہے

’تم مجھے سو دفعہ بلا سکتی ہے اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جائو ۔ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہوا کرتا،

سلطانہ کے لیے شنکر کا کردار نیا ہے۔ وہ اس کے لیے ایک بجھارت ہے، ایک پہیلی ہے۔ ایک معمہ ہے۔ سلطانہ اس سے دوستی کر لیتی ہے۔ شنکر اسے ایک نئے رشتے سے متعارف کرواتا ہے جسے اکیسویں صدی کے نوجوان FRIENDS WITH BENEFITS کہتے ہیں۔ شنکر سلطانہ کو دوست بن کر ہمبستری کی دعوت دیتا ہے اور سلطانہ اسے قبول کر لیتی ہے۔

ہمبستری کے بعد سلطانہ اس سے ایک دوست ہونے کے ناطے کالی شلوار کی فرمائش کرتی ہے اور وہ اس سے دوست ہونے کی حیثیت سے بندے مانگتا ہے۔ سلطانہ اسے اپنے بندے دے دیتی ہے اور شنکر محرم کی پہلی تاریخ کو کالی شلوار کا وعدہ کر کے چلا جاتا ہے اور پھر وہ وعدہ وفا بھی ہو جاتا ہے۔

جب سلطانہ اپنی سہیلی مختار سے ملتی ہے تو اسے حیرانی ہوتی ہے کہ مختار نےاس کے بندے پہن رکھے ہیں اور مختار کو پریشانی ہوتی ہے کہ سلطانہ نے اس کی کالی شلوار پہن رکھی ہے۔

’کالی شلوار، میں منٹو عورت اور مرد کے ایسے رشتوں کی نشاندہی کرتا ہے جو زندگی میں موجود ہوتے ہیں لیکن ادب سے خارج کر دیے جاتے ہیں کیونکہ وہ مذہب اور اخلاقایات اور روایت کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔

منٹو لکھتا ہے ’ شنکر اس پر مسکرا دیا ’تو میری شرطیں منطور ہیں،

’کیسی شرطیں؟ سلطانہ نے ہنس کر کہا ’کیا نکاح کر رہے ہو مجھ سے؟،

’نکاح اور شادی کیسی؟ نہ تم عمر بھر کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں۔ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو،

 بولو کیا بات کروں؟

تم عورت ہو۔ ۔ ۔ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دکانداری ہی دکانداری نہیں، کچھ اور بھی ہے،

منٹو اپنے افسانون میں اس ’کچھ اور بھی، پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے۔

منٹو نے کہیں لکھا تھا کہ ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی نطر ویشیا پر جا کر رک جاتی ہے۔ وہ اس سے آگے یا پیچھے یا اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے۔ وہ اس کے کردار پر فتوے لگا سکتے ہیں لیکن اسکے دل کی گہرائیوں میں نہیں جھانک سکتے۔ منٹو سلطانہ کے دل میں محرم منانے اور کالی شلوار پہننے کی خواہش تک پہنچ جاتا ہے اور اس جذبے کا تخلیقی اظہار کرتا ہے یہ فن کا کمال ہے۔

منٹر نے ہمیں بتایا ہے کہ انسانی شخصیت ہمہ جہت ہے اور اننسانی رشتے پیچیدہ اور گنجلک ہیں۔

منٹو کے افسانوں نے جہاں مذہبی رہمائوں کو پریشان کیا تھا وہیں اس نے ترقی پسند ادیبوں، نقادوں اور دانشوروں کو بھی حیران کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ منٹو کرشن چندر کی طرح افسانے لکھے جن میں صرف مزدوروں کسانوں کی جدوجہد کا ذکر ہر اور افسانے کے آخر میں ایک امید کا چراغ جلے۔ لیکن منٹو نے صاف کہہ دیا کہ وہ نہ تو مولوی ہے نہ ہی سیاسی ریفارمر۔ وہ ایک ادیب ہے اور اس کے لیے سب عقیدے اور نطریے چاہے دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے ناقابلِ قبول ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ ادیب کی وفادادی اپنے سچ اور زندگی کے ساتھ ہے کسی نظریے کے ساتھ نہیں۔ منٹو جانتا ہے کہ انسانی زندگی نظریوں سے زیادہ پیچیدہ اور تہہ دار ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail