منٹو کے افسانے صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہیں


ٹھنڈا گوشت

منٹو کے افسانے ’ٹھنڈا گوشت، میں جنس ایک استعارہ بن کر ابھرتی ہے اور ڈوب جاتی ہے۔ اس استعارہ کے پس پردہ کلونت کور میں حسد کا شعلہ لپکتا ہے۔ اس استعارے کی وساطت سے منٹو 1947 کے قتل و غارت کے مناظر دکھاتا ہے۔ وہ ایشر سنگھ کے حوالے سے انسانی ذات اور تاریخ کے تاریک رخ پر روشنی ڈالتا ہے جسے دیکھنے سے ہم سب آنکھیں چراتے ہیں۔

منٹو اپنے افسانے ’ٹھنڈا گوشت، میں ایک مرد کی نامردی کی نفسیات بیان کرتا ہے۔ وہ افسانہ پڑھ کر مجھے ژاں پال سارتر کا مقالہ ANTI-SEMITE یاد آ گیا جس میں سارتر نے یہودیوں سے تعصب کا نوحہ لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک یورپی مرد ایک طوائف کا پاس جاتا ہے اور اس سے چند گھنٹوں کی جنسی لذت خریدتا ہے۔ وہ اس کے کمرے میں شدتِ جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے کپڑے اتار رہا ہوتا ہے کہ اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت یہودی ہے، یہ جانتے ہی اس کا سارا جنسی جوش جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور وہ عارضی طور پر نامرد ہو جاتا ہے۔

انسان کی جنسی زندگی میں نفسیاتی عوامل کیا کردار ادا کرتے ہیں یہ پہلو ماہرینِ جنسیات کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اکثر نامرد جسمانی طور پر صحتمند لیکن ذہنی طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اسی لیے وہ ایک جوان عورت کی موجودگی میں بھی جنسی رشتہ قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

عورتوں میں بھی ایک ایسا مسئلہ تشخیص ہوا ہے جو جنسی عمل کے دوران درد پیدا کرتا ہے یہ مسئلہ DYSPAREUNIA کہلاتا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بعض دفعہ وہی عورت جس مرد کوپسند نہیں کرتی اس کے ساتھ مباشرت میں تکلیف محسوس کرتی ہے لیکن جس مرد کو پسند کرتی ہے اس کے ساتھ مباشرت میں مسئلہ کافور ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ ماہرینِ جنسیات کے لیے انسانی نفسیات کی ایک نئی کھڑکی کھولتا ہے۔

٭٭٭  ٭٭٭

دھواں

منٹو نے اپنے افسانے ’دھواں، میں ایک نوجوان بچے مسعود کی بلوغت کی آمد پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ بچہ اس نئے جذبے اس نئی تبدیلی سے ناواقف ہے۔ اس کے انداز میں ایک معصومیت ہے، ایک سادگی ہے، ایک سادہ لوحی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ جوانی اس کے جسم پر دستک دے رہی ہے۔ اس کے پارمونز میں ایک چنگاری سلگ رہی ہے۔ اس کا ذہن اپنی اس تبدیلی کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہے۔

یہ علیحدہ بات کہ اس کی بڑی بہن کلثوم ان مراحل سے گزر چکی ہے۔ اسی لیے جب بھائی اس کی کمر دباتا ہے تو وہ ہائے ہائے کرتی ہے اور بعد میں اپنی سہیلی کے ساتھ جنسی کھیل کھیلتی ہے۔ افسانے کا وہ حصہ پڑھتے ہوئے مجھے عصمت چختائی کا مشہور افسانہ ’لحاف، یاد آ رہا تھا۔

اس بچے کا والد بھی اپنی بیوی کے ساتھ جنسی مباشرت کر رہا ہے لیکن بیٹے کو بتاتا ہے کہ اس کی ماں اس کا سر دبا رہی ہے۔

ہمارے ہاں جنسی تعلیم دینے کی کوئی روایت نہیں، ماں باپ بچوں کو فطرت اور سستے ناولوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں یا ان کے ہاتھ میں بہشتی زیور تھما دیتے ہیں۔

منٹو کے افسانے کا موضوع جنس سے زیادہ بلوغت کی نفسیات ہے جس میں انسان اپنے جسم کے سچ سے روشناس ہوتا ہے۔ بلوغت زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ وہ ہم سب پر آتی ہے۔ ہم سب اس مرحلے سے گزرتے ہیں۔ ہم سب جوان ہوتے ہیں لیکن جلد ہی اسے بھول جاتے ہیں کیونکہ ہم اپنے جسم کے سچ کو مذہب اور اخلاقیات کی دھند میں کھو دیتے ہیں اور اچھے برے، نیکی بدی اور گناہ و ثواب میں الجھ جاتے ہیں۔

وہ لوگ جو اپنے جسم کے سچ کو قبول نہیں کرتے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتےہیں اور ان میں سے بعض نامرد ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے منافق معاشرے کا حصہ ہیں جہاں روایت کو سراہا اور سچ کو چھپایا جاتا ہے۔

ہم محبت کی بات کرتے ہیں لیکن محبت کے اظہار کو گناہ سمجھتے ہیں اور جنس کا رشتہ محبت، پیار اور دوستی سے جوڑنے کی بجائے گناہ اور غیرت سے جوڑ لیتے ہیں۔

٭٭٭  ٭٭٭

کھول دو

منٹو کے افسانے ’کھول دو، میں بھی موضوع جنس نہیں ہے بلکہ 1947 کا المیہ ہے جس میں ایک مہاجر باپ سراج الدین ہجرت کے دوران اپنی جوان بیٹی سکینہ کھو بیٹھتا ہے۔ اپنی بیٹی کی جدائی اسے پاگل کر دیتی ہے اور وہ ہر اجنبی سے سکینہ کے بارے میں پوچھتا ہے۔

جب سکینہ غائب ہوتی ہے تو وہ ایسے مردوں کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے جو اس کی جوانی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور بار بار اس کا اتنا جنسی استحصال کرتے ہیں کہ وہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔

جب سکینہ ہسپتال لائی جاتی ہے تو سکینہ کا باپ بھی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ سکینہ مر چکی ہے۔ منٹو لکھتا ہے

 ’ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا

’کھڑکی کھول دو،

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں نے ازاربند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا

’زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے،

ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا،

ان چند جملوں میں منٹو نے جو انسانی نفسیات کی گرہ کھولی ہے وہ صرف ایک ایسا ادیب ہی لکھ سکتا ہے جو آدھا افسانہ نگار ہو اور آدھا ماہرِ نفسیات۔

منٹو کے افسانے ذہنی طور پر بالغوں اور صحتمند لوگوں کے لیے ہیں جو زندگی کے مسائل سے جڑے ہوئے ہیں اور افسانوی ادب اور انسانی نفسیات کے راز جاننا چاہتے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے نہیں جنہیں ہر چیز میں شہوت اور لذت دکھائی دیتی ہے۔ ایسے لوگ تو مذہبی کتابیں بھی لذت حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ منٹو کو اس حقیقت کا احساس تھا اس لیے اس نے اپنے افسانوں کے دفاع میں کہا تھا

’ دنیا میں ایسے اشخاص بھی پائے جاتے ہیں جو مقدس کتابوں سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں اور ایسے انسان بھی آپ کو مل جائیں گے، لوہے کی مشینیں جن کے جسم میں شہوت کی حرارت پیدا کر دیتی ہیں۔ مگر لوہے کی مشینوں کا، جیسا کہ آپ سمجھ سکتے ہیں، کوئی قصور نہیں۔ نہ ہی مقدس کتابوں کا۔ ایک مریض جسم ایک بیمار ذہن ہی ایسا غلط اثر لے سکتا ہے۔ جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہی کے لیے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے.”

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail