ہمارے موصوف سے ملیے


یوں یہ چرخہ دوبارہ چل پڑا۔ کیا سی آئی اے کے ایجنٹ ہوں گے، جو ہمارے ہاں کے اندرون خانہ جاسوس ہیں۔ یعنی بی جمالو اور جیمس بانڈ 007 بھی ایک طرف کو ہو کر آگ تاپنے لگے۔ سعید میاں نے اشتیاق احمد کی کہانیوں کے طریقے اپنائے اور بھائی جان ابن صفی کا کردار بنے پل پل کی خبریں لاتے رہے۔ ان کے یہ انداز دیکھ کر دوبارہ ہماری آنکھوں میں ’موتی‘ اتر آئے۔ (موتیا بند نہیں ) ہم نے پھر اپنا خدشہ دہرایا۔

”یوں لگتا ہے کسی ’ایسے ویسے‘ سے ہماری شادی ہو رہی ہے۔ “
”بھئی اگر ایسا ہوا بھی تو ہم نکاح سے صرف ایک منٹ پہلے تمہیں اسٹیج سے اتار لیں گے۔ “
”کیوں۔ ۔ ۔ ؟ ایک منٹ بعد کیوں نہیں؟ “

”بھئی اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا ہوگا۔ بہن ویسے بھی یہ بنگالی ہیں۔ تمہاری خبیث اور انتہائی منحوس عادتوں کو جو ہم سے بھی برداشت نہیں ہوتیں، بانچھیں کھلی رکھ کر برداشت کریں گے۔ اور پھر ویسے بھی تم ہاجرہ ماں کے زیر سایہ پل کر ان ہی جیسی ہوگئی ہو۔ تم جتنے بڑے بڑے نوالے نگلتی ہو، جس طرح چپڑ چپڑ آوازیں نکالتی ہو، انگلیاں چاٹتی ہو اور پلیٹ سے منہ لگا کر دال پیتی ہو، بسکٹ چائے میں بھگو کر کھاتی ہو۔ یہ سارے طور اطوار شرفا کے ہرگز نہیں ہوتے۔ تمہارا ’چال چلن‘ ہم سے یکسر جدا ہے، بلکہ اچھا خاصا ’مشتبہ‘ ہے۔ موٹے چاول اور مچھلی تمہارا من بھاتا کھاجا ہے۔ وہ نیک آدمی چاہے جتنا بھی ’فلرٹ‘ ہو بہرحال اپنی عادتوں سے تمہیں سکھی رکھے گا۔ بس سمجھو رشتہ ’طے‘ ہوا۔ یہ دو متضاد تہذیبوں کا ’سمبندھ‘ ہے، اس کی ’لاج‘ رکھنا۔ “

تو ہمارے تصور میں ایک دبلا پتلا مرگھلا سا آدمی لنگی بنیان پہنے، ہاتھ میں ایک بڑی سی تازہ مچھلی لیے سامنے آیا۔ ۔ ۔ ”مگر اس کی شکل؟ میری سہیلیاں کیا کہیں گی؟ “۔ ۔ ۔

”اس کی شکل و صورت پر مت جاؤ، اچھا خاصا ’آدمی کا بچہ‘ ہے۔ تن کے کالے من کے گورے، یہ محاورا تو تم نے سنا ہوگا، اس کی بنی بنائی تصویر ہے۔ اور پھر کون سا تمہارے چہرے پر اتنا ’نور‘ برس رہا ہے۔ نہ ہی تم کوئی ’ابلا‘ پری ہو کہ جس کے لیے آسمان سے بر اترے گا۔ اپنی اصل شکل و صورت اگر یاد نہیں تو آئینہ دیکھو۔ ۔ ۔ “

مگر ہمارے ذہن کی آنکھ تو لنگی بنیان اور ہاتھ میں ’مچھلی والا‘ دیکھ رہی تھی۔ سو ہم نے بے چون و چراں ’ہاں‘ کردی۔ مگر صاحب! سات مہینے ہوگئے ہماری شادی کو، مگر آج تک ہمارے ہاں مچھلی نہیں آئی۔ نہ وہ لنگی، نہ بنیان، نہ ہی موٹے موٹے نوالے۔ ہائے کتنا بڑا دھوکا ہوا۔ گھر میں تو ہم باورچی خانے میں اکڑوں بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، یہاں تو صاحب میز، میز پر پلاسٹک، پلاسٹک پر میٹس، میٹس پر پلیٹ، پلیٹ میں کھانا اور کھانا بھی کیا ’چونگا‘ سانپا تلا، یعنی انتہائی گھٹیا اور مصنوعی فضا۔ اب ہمیں اللہ میاں سے سچ مچ کا ’گلہ‘ ہے کہ وہ ’اتنی‘ ساری ’نعمتیں‘ دے کر ’اتنی‘ ساری نعمتیں چھین کیوں لیتا ہے۔

جیسے ہی ہم نے ہاں کی، یہاں سے پس و پیش ہونے لگی کہ اب لڑکے والوں سے ہاں کی جائے یا دوچار جوتے گھسوا دیے جائیں۔ اس کی ماں کی طرف سے ’لال خط‘ کا انتظار کیا جائے یا نہیں؟ ماں کو بنگلا دیش سے بلوایا جائے کہ نہیں۔ ۔ ۔ کیا کیا شرطیں رکھی جائیں اور کیا کیا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

ان ہی باتوں سے گھبرا کر ایک دن ہم ریڈیو پاکستان جا نکلے۔ شہناز باجی نے سنا تو تڑپ اٹھیں، ”ہائیں تمہاری شادی۔ ۔ ۔ ؟ ابھی سے؟ بنگالی کے ساتھ؟ تم۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ ہمیں چھوڑ کر چلی جاؤ گی۔ ہائے نہیں رفعت، ایسا نہیں ہو سکتا۔ “ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ادا نثار چونک کر بولے، ”ارے! اب ہم اپنا بچا کھچا کھانا کس کے آگے ڈالیں گے۔ تمہارے آتے ہی ہم نے اپنی پرانی بلی کو ٹھینگا دکھا دیا تھا۔ نہیں بھئی شہناز، کچھ کرو اس ’ڈسٹ بن‘ کا ہمارے کمرے میں رہنا انتہائی ضروری ہے (ادا نثار، شہناز باجی کے ساتھی پرڈیوسر تھے۔

اللہ انہیں سلامت رکھے )۔ ’ہاں فقط یہی تو پکی روزے دار ہے۔ اس کی آڑ میں ہمارا تالو بھی گرم ہوجاتا ہے۔ اور اس کی‘ روکھی سوکھی ’صورت دیکھ کر کسی کو شک بھی نہیں ہوتا کہ یہاں‘ کھوجے ’بھی ہیں۔ ہاں ادا نثار! نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا، تاکہ گھر کی جائیداد گھر میں رہے۔ یوں کریں، کسی ریڈیو والے سے رشتہ کرادیتے ہیں۔ ”

رشتہ تجویز ہوا کہ جلدی میں تو بشیر چپراسی کا بیٹا ہی دستیاب ہے۔ بلوائے گئے۔ عمر کوئی دس سال، انتہائی کالے چمک دار، اوپر سے طوطا ہرے رنگ کا جوڑا زیب تن کیا ہوا۔ یوں لگا کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اچانک ’نیون سائن‘ جل اٹھا ہو۔ ذات پات کی قید نہیں تھی۔

ادا بولے، ”تم ویسے بھی ’عمر چور‘ ہو اور یہ اپنی عمر سے زیادہ پکا لگتا ہے۔ ہم سندھیوں کے ہاں تو جائیداد کی خاطر 35 سالہ ’لڑکی‘ کی شادی چھ سالہ پوت سے کردی جاتی ہے۔ “

”مم۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ہم تو۔ ۔ ۔ ہم تو۔ ۔ ۔ “ ہم ہکلانے لگے۔

”ہم تم کیا۔ ۔ ۔ بھئی تم ہماری جائیداد ہو، گود لی ہوئی۔ تمہاری نگہداشت اور تم پر گرفت رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ریڈیو پاکستان اپنی اس ’مسروقہ جائیداد‘ (جس کو اس نے تمہارے گھر والوں سے چھین کر اپنا بنایا ہے ) سے محروم ہونا کسی صورت پسند نہیں کرے گا۔ لہٰذا آج سے تم ادب سے دوپٹہ سر پر ڈال کر بشیر کہہ کر آواز دینا۔ لہجے میں خالص بہوؤں والی ’کرختگی‘ پیدا کرو۔ کمانڈ، ابھی سے ضروری ہے ہاں ابھی سے ’ابا‘ مت کہنا۔ اس رشتے سے فائدہ یہ ہوگا کہ تم بھی ہمارے درپر پڑی رہوگی اور بچی کھچی روٹیاں بھی ضائع نہیں جائیں گی۔ ۔ ۔ یا تو ’رزق حلال‘ کو یوں حرام ہوتے دیکھ کر ہمارا دل ڈوبتا ہے یا خوب صورت لڑکیوں کے شوہروں کو دیکھ کر۔ ۔ ۔ “

ادا کی تقریریں ٹھپ ہوگئیں۔ باجی کی تدبیریں ہوا میں رہ گئیں۔ رشتہ داروں کی آنا کانی سب کچھ ادھر ادھر ہوگیا۔ چوں کہ کاتب تقدیر نے یہ رشتہ آسمان پر جوڑا تھا اورآسماں کو تھی ’کدورت‘ سو نکالا یوں ’غبار‘

’ہماری‘ اور ’ان‘ کی شادی ہوگئی!
سنتے آئے تھے کہ پرانے زمانے میں سال بھر تک دلہن کو پلنگ سے پاؤں اور منہ سے گھونگھٹ نہیں اتارنے دیا جاتا تھا۔ کم ازکم سال بھر تو اس تیز و طرار ’قینچی‘ کو لوگ مخملی بٹوے میں رکھنے کے قائل تھے، یہاں تک کہ اسے زنگ لگ جائے۔ لیکن چوں کہ ہمارا زمانہ خاصا جدید ہے، لہٰذا اس کی رعایت ہم نے اپنے ذہن میں رکھی تھی کہ کم ازکم ایک مہینے کا سکھ آرام تو ہمارے ذہن میں تھا، جس میں میاں بیوی زمین پر قدم نہیں دھرتے اور ہوا کے ہنڈولے پر سوار رہتے ہیں۔ مگر صاحب یہاں تو سر منڈواتے ہی اولے پڑے۔ صبح ہی صبح صاحب بہادر نے جگا دیا۔ ہم سمجھے کہ ناشتا لائے ہیں۔ پتا چلا کہ نہیں، ابھی ناشتا بنے گا، مگر بنائے گا کون؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7