ہمارے موصوف سے ملیے


”عطو خالہ، جو آپ کے ساتھ آئی تھیں وہ تو گئیں، ظاہر ہے کل ہی چلی گئی تھیں۔ “
”تو کیا ماسی بنائے گی؟ “
”نہیں آپ! “ وہ اطمینان سے بولے۔ ہم مارے حیرت کے ہکا بکا رہ گئے۔
”یعنی ہم۔ ۔ ۔ ہم؟ “

فوراً روہانسے ہوگئے۔ ہم، جس کے کان میں صبح ہی صبح امی کی میٹھی آواز پڑتی تھی۔ ”اٹھو ناشتا کرلو۔ “ بلکہ ہماری تو آنکھ ہی ناشتے کے بعد ’کھلتی‘ تھی جیسے اسکوٹر، پیٹرول ڈالنے کے بعد ہی چلتا ہے۔ یہاں ’کوٹھی‘ سے کھونٹے تک کا سفر، لاحول ولا قوۃ۔ وہ بھی اتنے ارمانوں بھرے دل کا، تف ہے ہم پر اور ہماری اوقات پر۔

”ہم امی کے گھر جائیں گے۔ “ ہم مچل گئے۔
”ابھی چلتے ہیں۔ پہلے ناشتا تو کر لیں۔ “
”نہیں۔ ناشتا وہیں کریں گے۔ “

”ارے! کیا غضب کرتی ہیں آپ۔ صبح نو بجے آپ کو کہیں ناشتا ملے گا؟ “ ”ہمارے ہاں تو ہر وقت ملتا ہے۔ “ ہم نے منہ پھلاکر کہا۔

”چلیے آئیے ایسا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ انڈے میں ابال چکا ہوں۔ آپ بس چائے بنالیں۔ “

”بس چائے؟ “ ہم کھل اٹھے۔ مگر نیچے آکر پتا چلا کہ میز پر برتن لگانے تھے۔ اپنے ہی ہاتھوں سے پیالے میں دودھ ڈالا، دھت تیرے کی۔ کارن فلیکس، یہاں تک کہ چینی بھی خود ہی ڈالی اور وہ بھی نئی نویلی دلہن کے ہاتھوں کی حرکت بیٹھے ٹکڑ ٹکڑ دیکھا کیے۔ ہائے وہ ناول، وہ افسانے، جن میں ہیروئن دلہن کو انگلی ہلانے کی زحمت نہیں دی جاتی تھی، سوائے تگنی کا ناچ نچانے کے، جہاں قدم قدم پر اللہ آمین ہوتی تھی، ساس نندیں واری جارہی ہیں، میاں صدقے جا رہے ہیں۔

چمچہ بھر بھر کر دلہن کے منہ میں ڈال رہے ہیں، وہ اٹھلا رہی ہیں، نخرے دکھا رہی ہیں، یہ ناز اٹھا رہے ہیں۔ اس عمل میں چاہے کمر ہی کیوں نہ دوہری ہو جائے۔ اف نہیں کر رہے۔ جو چیز اس نے چاہی، وہ حاضر۔ نہانے کا پانی، استری شدہ کپڑے، کھانا، ناشتا وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی ’پٹ‘ تھا۔ ناشتا تو ناشتا تھوڑی دیر میں مسکراتے ہوئے جوتا ہاتھ میں تھما دیا۔ ہم سمجھے کہ پوچھ رہے ہیں کہ جوتے تو نہیں ماروگی؟

مگر پتلا چلا کہ نہیں صاحب ان پر پالش کرنا ہے۔ ہم نے منہ بناکر کہا، ”رکھ دیجیے اسٹور میں ابھی کرتے ہیں۔ “ تھوڑی دیر بعد کاہلی سے اٹھے اور جوتے اٹھائے، مگر چیخ مار کر دوبارہ وہیں پھینک دیے۔ یہ بھاگے بھاگے آئے۔ لاکھ پوچھا کیے کہ بتلائیے کیا تھا؟ مگر آنکھوں میں آنسو لیے ڈبڈبائی آنکھوں سے ہم نہ، نہ کیے گئے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

نوبیاہتا دلہن کے سامنے ایک تو شوہر کے جوتے رکھ دیے جائیں اور اس میں سے اچانک مینڈک پھدک کر باہر آ جائے تو اس کو کیا کہیے گا۔ ۔ ۔ ”بس یہی ناکہ۔ ۔ ۔

مارا ’دیار غیر‘ میں مجھ کو ’وطن‘ سے دور!

دو تین دن ایک دوسرے کو ’سمجھتے، سمجھاتے‘ گزر گئے۔ انہوں نے بتایا کہ بہت دنوں سے گھر کے کھانوں کو ترسے ہوئے ہیں۔ اب صبح ناشتے میں پراٹھے دوپہر کو دال چاول کے ساتھ کسی قسم کی، بھجیا۔ گوشت مختلف طریقوں سے پکا ہوا۔ رات کو عمدہ قسم کے سالن اور روٹیوں کے طلبگار ہیں۔ ساتھ ہی گھر میں صفائی ستھرائی چاہتے ہیں۔ ساس نندوں کا بکھیڑا تو یہاں ہے نہیں، آرام سے راج کیجیے۔ اور ہاں، اگر زبان سے کم اور ہاتھ سے زیادہ کام لیں تو اچھا ہے۔ ”

”مگر۔ ۔ ۔ ہم۔ ۔ ۔ ہم نے تو سنا تھا کہ شادی کے بعد ’نیو میریڈ‘ لوگ خوب گھومتے ہیں۔ آپ کہیں نہیں جائیں گے؟ “ ہم نے انتہائی مایوس کن لہجے میں پوچھا۔ ”آپ کا مطلب ’ہنی مون‘ منانے سے ہے؟ “ وہ سنجیدگی سے بولے۔

”ہاں۔ ۔ ۔ وہی۔ ۔ ۔ “

وہ نوبیاہتا جوڑا فلموں کا ہوتا ہے۔ شوٹنگ کے ساتھ ساتھ ہنی مون بھی منا لیتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ وقت اور پیسوں کا زیاں ہے۔ اور پھر جو لوگ حقیقی زندگی میں یہ حماقت کرتے ہیں، وہ ہمارے خیال میں پورے گدھے ہوتے ہیں۔ جس آزادی کو وہ تین بولوں کے عوض ’بھینٹ‘ چڑھا دیتے ہیں، اس کا غم غلط کرنے کے لیے ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہیں۔ تنہائی میں سوچتے ہیں کہ کہیں کوئی فاش غلطی تو نہیں کر بیٹھے۔ شہروں میں رہیں گے تو دنیا والے فوراً ہی جتانا شروع کردیں گے کہ میاں اب تمہاری دم کٹ چکی ہے۔

”پھر تو لوگ آپ کو بھی جتائیں گے۔ “
”جتائیں گے کیا، جتارہے ہیں۔ “ انتہائی ڈھٹائی سے مسکرائے۔
”تو پھر چلیے۔ “
”ہم کوئی بزدل تھوڑی ہی ہیں، جو یوں منہ چھپائے چھپائے پھریں۔ “
”خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک دنیا جاتی ہے گھومنے پھرنے۔ “ ہم نے دبا دبا سا احتجاج کیا۔

”ارے ’تنہائی‘ کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ ۔ ۔ سچی۔ ۔ ۔ اور یہ نعمت آپ کو وافر مقدار میں یہیں دستیاب ہے۔ “

”توبہ توبہ! ایسی خوفناک نعمت! ہم مارے خوف کے کانپ اٹھے۔ فوراً کانوں کو ہاتھ لگایا اور حیران ہوکر بولے،

”جانے کیسے لوگ ہوتے ہوں گے۔ بیوقوف سے، ہم تو کبھی نہیں جائیں گے۔ “

”ہاں یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ “ وہ مطمئن سے لہجے میں بولے۔ اب ایک بات اور صاف کردیں۔ یہ جو چھٹیاں ہیں، ان میں ہم نے سوچا کہ بہت سے وہ کام جو ’پینڈنگ‘ میں ڈالے ہوئے ہیں، وہ کر ڈالیں۔ شادی تو بھگتا لی، اب پی ایچ ڈی باقی ہے۔ آپ ہمیں ’کٹ کٹو‘ کہیں یا کچھ اور، لیکن پلیز! جب ہم پڑھ رہے ہوں تو بیچ میں مت بولیے گا، سمجھ گئیں؟ ”

”سمجھ گئے۔ “ ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا ان کی محفل میں۔ ۔ ۔ ایک تو بھرے گھر سے اٹھالیے گئے اور یہاں تنہائی کا ’کالا پانی‘ نصیب ہوا۔ سارے خاندان میں بتو مشہور تھے۔ سبھی کہتے تھے کہ اب یہ آ گئی ہے، اب کان کھائے گی اور یہاں؟ آتے ہی چپ کی مہر لگا دی گئی۔

مشرقی دلہن وہ بھی زیادہ پرانی نہیں۔ اس پر سے ’پتی ورتا‘ کی پٹی پڑھائی ہوئی۔ ادھر موصوف پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ اچانک خیالات نے غوطہ کھایا۔ دوستوں نے ورغلایا کہ پی ایچ ڈی کرتے ہوئے ’رسد‘ کی فراہمی بہت اہم چیز ہے۔ یہ پاپی پیٹ کچھ مانگے یا نہ مانگے، کم بخت کھانا ضرور مانگتا ہے۔ خود پکانے یا لانے میں وقت ضائع ہوتا ہے۔ بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ نگاہ انتخاب میں یہ نگینہ جچا اور جاکر لے آئے۔ لاکر، مہروفا ’منہ پر لگا دی کہ جب تک دماغ پوری طرح پھر نہ جائے، یعنی پی ایچ ڈی مکمل نہ ہو جائے، بیچ میں مت بولنا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7