ہمارے موصوف سے ملیے


”تو پھر کوئی بات نہیں۔ “

وہ دونوں گئے تو بلدیہ کے ایک امیدوار اپنے ’حواری‘ سمیت آگئے۔ ووٹوں کی باتیں ہونے لگیں۔ اچانک انہوں نے کرسی ان کے قریب کی اور سہمے ہوئے لہجے میں دھیمی آواز میں پوچھا۔

”سنیں! بلی کے کاٹنے سے کچھ ہوتا تو نہیں؟ “
”بلی پاگل تھی کیا؟ “
”نہیں بالکل تندرست تھی۔ دراصل میں، اپنی ’بلی کے بچے سے کھیل رہا تھا تو۔ ۔ ۔

پوری رام کہانی تمام ہوئی تو وہ صاحب سخت بیزار نظر آنے لگے۔ یوں لگا بس اب ان کی رگیں چٹخیں کہ تب آخر ’خدا حافظ‘ پر بات تمام ہوئی۔ ساتھ ہی ’زندگی‘ کی دعا بھی دے گئے کہ کل ووٹ دینے ضرور آئیے گا۔

پھر ہم منظور الدین صاحب کے ہاں گئے۔ باتیں ہونے لگیں۔ ڈرامہ شروع ہوگیا۔ یہ ضبط کا دامن ہاتھ میں پکڑے بیٹھے رہے۔ ڈرامے کے اختتام پر انتہائی ڈرامائی انداز میں ان کی بیگم سے مخاطب ہوئے، ”آنٹی آج میں، بلی کے بچے سے کھیل رہا تھا کہ اس نے دانت ’مار‘ دیا (گویا ڈنڈا مار دیا) کچھ ہوتا تو نہیں؟ “

”ہائے میاں ہوتا کیوں نہیں اچھا خاصا ہوتا ہے۔ “
”کیا؟ “

”زہر۔ “ وہ اپنی مخصوص معصومیت بھری پریشانی سے بولیں، ”اے میاں تم بس سیدھے ڈاکٹر کے پاس چلے جاؤ۔ مگر اب کیا ہوگا، کافی رات جاچکی ہے۔ یوں کرو صبح ہی صبح چلے جانا۔ جب تک کے لیے تم یہ ’دل روز‘ لگا لو، بہت مفید ہے، زہر چوس ہے۔ میرے تو ٹیٹنس کا انجکشن لگا تھا۔ “

خیر صاحب، نہ صرف وہ دوائی لگائی گئی، بلکہ باقاعدہ بڑے اہتمام سے اس کا ’شجرۂ نسب‘ تحریر کیا گیا۔ کافی تحلیل و تجزیہ کے بعد یہ طے ہوا کہ واقعی ’نجیب الطرفین‘ ہے۔ اسی دوران ان کی بیٹی، تارا بتانے لگی کہ اس کی ایک دوست کو کتے کے کاٹنے سے دو دفعہ، چودہ چودہ انجکشن پیٹ میں اور جانے کتنی دفعہ بندر، خرگوش وغیرہ وغیرہ کے کاٹنے سے مختلف نوعیت کے انجکشن لگے ہیں اور وہ ’نیم حکیم‘ ننھی فوزی بھی اپنے تجربات کی بنا پر اندوہناک قصے گوش گزار کرنے لگی۔

ہمیں بھی یاد آیا کہ خالد بھائی جان جب چھوٹے سے تھے تو ہماری بلی ایک گاڑی کے نیچے آ گئی تھی۔ یہ اس کو بچانے گئے تو اس نے انتقاماً انہیں بری طرح بھنبھوڑ ڈالا (کیا ہم نے کبھی بھنبھوڑا ہوگا) تو انہیں ایک بڑا سا، بلکہ انتہائی موٹا تازہ انجکشن لگا تھا، تاکہ وہ بچ جائیں۔ جس کے بعد سے وہ ساری زندگی انجکشن لگوانے سے ڈرتے رہے۔ ہم نے یہ ’اضافی‘ قصہ سنا کر رہی سہی جان نکال دی اور وہ خوب ہلکان ہوگئے۔

ساری رات کروٹیں بدلتے گزاری اور صبح ہی صبح نور کے تڑکے مسجد گئے تو مختلف لوگوں کی مختلف آرا سے نوازے گئے۔ مسجد جانے کا مقصد نیکی کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ وہاں بہت سارے لوگ ’اکٹھے‘ مل جائیں گے۔ وہاں بھی زیادہ تر ووٹ اس حق میں پڑے کہ میاں سیدھے ڈاکٹر کے پاس چلے جاؤ، ورنہ اللہ میاں کے ہاں چلے جاؤ گے۔ واپس آئے تو سلیم بھائی کو یہ ’دکھ بھری‘ داستان سنائی، جس کے اختتام پر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے ایک پوڈر کی شیشی تھما دی کہ فی الحال اسی کو لگالیں، پھر ڈاکٹر کو دکھائیں۔

دوائی ہاتھ میں پکڑے کھڑے تھے کہ جانے کہاں سے دو بلے لڑتے بھڑتے آئے۔ ان کے درمیان ہماری چلبلی بلی کود پڑی۔ ایک بھاگ گیا، دوسرا ہماری والی پر جھپٹا۔ یہ ’اپنی‘ والی کو بچانے آگے بڑھے۔ ان کی ٹانگ ان کے بیچ میں آ گئی اور وہ ’اپنی والی‘ پنجوں سے تجریدی آرٹ بناتی بھاگ گئی۔ خون ٹپکنے لگا۔ آنکھوں میں باقاعدہ آنسو آگئے۔ رفعت۔ ۔ ۔ رف عت۔ ۔ ۔ ”بھر ائی ہوئی آواز میں چلائے اور ہم گھبرا کر باہر نکل آئے۔

’‘ ہائیں۔ ۔ ۔ یہ کیا۔ ۔ ۔ ؟ ”ہماری تو جان ہی نکل گئی۔ اف میرے خدا، پھر وہی چرخہ چل پڑے گا۔

”سنیے! میں، بلی کے بچے سے کھیل رہا تھا کہ۔ ۔ ۔ اس نے دانت سے کاٹ لیا۔ سب سے مشورہ کیا تو یہی جواب ملا کہ ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔ منظور صاحب کی بیوی نے ’دل روز‘ لگایا۔ سلیم صاحب نے ایک پاؤڈر دیا۔ ابھی میں لے کر آہی رہا تھا کہ (سبکی) دو بلے لڑتے ہوئے آئے۔ ایک دم ہماری بلی بیچ میں آ گئی۔ ۔ ۔ ایک بھاگ گیا۔ دوسرا ہماری بلی پر لپکا۔ میں آگے بچانے بڑھا تو یہ۔ ۔ ۔ یہ، ہمیں یقین ہے کہ آگے ان سے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ بس ہچکیاں بندھ جائیں گی، روپڑیں گے۔ پھر؟ پھر مخاطب پوچھے گا کہ کیا خون نکلا تھا؟ اور پھر۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔

ویسے آج کل یہ عالم ہے کہ ڈنڈا اور چپل لیے۔ ۔ ۔ کبھی بلی، کبھی اس کے بچے کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور کبھی بلی ماں کے آگے۔ جب ڈاکٹر کے پاس ڈریسنگ کرانے گئے تھے تو اس نے انہیں کہیں یہ بتا دیا کہ بلی کے پالنے سے دمہ ہوجاتا ہے۔ گھر آکر پوچھا، ”یہ دمہ کیا ہوتا ہے؟ “

”دمہ؟ “ ہم آنکھیں پھاڑ کر چلائے۔
”کیا ہوتا ہے؟ “ فوراً گھبرا گئے۔
”ارے! بہت خوفناک بیماری ہوتی ہے۔ “
”واقعی؟ “
”ہاں تو اور کیا۔ بس یہی بیماری ایسی ہے جو جان لے لیتی ہے۔ “
”بھلا کیسے؟ “

”ارے ہر وقت آدمی کا دم پھولتا رہتا ہے۔ زندگی عذاب ہوجاتی ہے۔ جان لگتا ہے کہ نکل کر بس حلق میں آ گئی۔ “

”اچھا؟ “

اور اب یہ عالم ہے کہ اس ’ناگہانی آفت‘ سے محفوظ رہنے کے لیے بلیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں اور ہر وقت دم پھولا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7