ہمارے موصوف سے ملیے


ایک تو نبیل والوں (ہمارے پڑوسی) کی بلی ہمارے ہاں خودبخود آکر پل گئی۔ پہلے ہی اس کے وہ وہ نخرے اٹھائے گئے کہ بعض دفعہ ہمیں عجب شبہات ہوئے۔ پھر ان ناز برداریوں کے نتیجے میں دو بچے تولد ہوئے، جن کی شکل و صورت سے اندازہ ہوا کہ کم ازکم دو باپوں کے الگ الگ بچے ہیں۔ پھر تو زچہ بچہ کی وہ وہ خاطریں ہوئیں کہ توبہ۔ پڑھتے پڑھتے جہاں سر اٹھایا ’زچہ بچہ‘ یاد آگئے۔ بجائے اس کے کہ دو مہینے کی نئی نویلی دلہن کے کانوں میں رس گھولتے، اس منحوس کی خاطر داری شروع ہوجاتی۔

دیوان کا کور اٹھا کر بڑے پریم سے اندر جھانکتے۔ بلی سے آنکھیں چار ہوتے ہی لبوں پر کلیاں سی چٹک جاتیں۔ اس کے بلو نگڑوں کو سہلاتے۔ پھر ان کی حرکتوں پر چپکے چپکے مسکراتے۔ پھر ’زنان خانے‘ کا پردہ چھوڑ کر داد طلب نظروں سے ہمیں دیکھتے۔ گویا یہ ’کارنامہ‘ انہیں کا ہو۔ ہمیں ان سے ایک ہی گلہ ہے کہ یہ ہم سے بلی جیسا سلوک کیوں نہیں کرتے!

سوچا انہیں الٹی میٹم دے دیں کہ یا تو ہم رہیں گے یا موئی بلی، مگر یوسفی جی یاد آگئے، جن کی بیوی آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی تھیں کہ اب آپ اس طوفانی رات میں کہاں جائیں گے۔ اگر یہی حشر ہوا تو۔ ۔ ۔

اب اوپر سے یہ دو مصیبتیں اور گلے آپڑیں تو ہمیں یوں لگا کہ جیسے یہ ہمارا گھر نہیں ’بلیوں کا میٹر نٹی ہوم‘ ہے۔ جس بار کو اس زبردست بلی نے گلے نہیں لگایا، اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا۔ پہلے روئی کے پھاہے سے دودھ حلق میں ٹپکایا گیا۔ ۔ ۔ پھر پچکاری آئی۔ ۔ ۔ پھر ڈرو پر آیا۔ اس کے بعد بھابی سے فیڈر ادھار مانگ کر لائے۔ وہ تو قدرت کے ہاتھوں مجبور ہوگئے، ورنہ کوئی بعید نہیں تھا جو خود بلی بن جاتے، یعنی حال یہ ہوا کہ ہوتے ہوتے :

پہلے جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں ہوگئے

پھر تو صاحب یہ عالم تھا کہ بڑی بلی اور اس کے بچوں سے فرصت ملی تو دوسرے بچوں کو گود کھلانے لگے۔ حتیٰ کہ ناشتا کرنا اجیرن ہوگیا۔ عالم یہ تھا کہ منہ میں نوالہ ہے اور بھاگے جا رہے ہیں بچے کے پیچھے کہ اس نے ’پوٹی‘ کردی ہے۔ آخر بن ماں کے بچے ہیں۔ ہمیں یقین تھا کہ ان کی ان ہی حرکتوں سے بچنے کے لیے ان کا بلا باپ انہیں ہڑپ کرجاتا ہے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، دروغ برگردن راوی، آج تک ہم نے بچوں کے پوتڑوں کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔

مگر صاحب! موصوف نے نہ صرف اپنے ہاتھوں سے یہ کام خود انجام دیا، بلکہ ہمیں بھی اکسایا اور ان گندے اور بدبودار بچوں کو نہلاکر ڈیٹول ملے پانی میں غوطہ دیا۔ پھر اپنا دل پسند کیوٹی کورا پوڈر، جو کہ ہمیں بھی نہیں لگانے دیتے، انہیں لگایا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ممکن ہوتا اور اگر بلو نگڑوں کے نیپکن باندھے جا سکتے تو یہ لنگوٹ باندھنے سے بھی گریز نہ کرتے۔

ایک دن خوش خوش بانچھیں کھلاکر عجیب سی معصومیت سے بولے،

”سنو۔ ۔ ! اے سنو! ایک بچے کی ماشاء اللہ آنکھ ’نکل‘ آئی ہے“۔ ”ہائیں، مگر کیسے؟ کیا بلی نے پنجہ مار دیا تھا۔ “ مگر بعد میں پتا چلا کہ ان کی مراد باہر نکلنے سے نہیں، بلکہ ’آنکھ کھلنے سے‘ تھی۔

اب تو آنکھ کھلنے کے بعد ان کی محبت کا یہ عالم ہوگیا کہ لیٹے لیٹے ہڑبڑاکر اٹھ جاتے اور چونک چونک کر انہیں دیکھتے۔ ذراسی انہوں نے چوں کی اور ان کی مامتا کو آگ لگی۔ بھاگے دوڑے ان کی ٹوکری کی طرف جاتے۔ یوں لگتا کہ جیسے کوئی نئی ماں اپنے بچے کی کلبلاہٹ پر رہ رہ کر کچی نیند سے چونکتی ہے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اسے ڈھانکتی ہے، اس کے پوتڑے بدلتی ہے، دودھ پلاتی ہے۔ ایسے سمے مامتا کا ایسا آفاقی اور الوہی نور ان کے چہرے سے ٹپکتا تھا کہ کیا کسی اصل ماں کے چہرے سے ٹپکے گا۔

ایک دن کے لیے ہم میکے چلے گئے۔ دوسرے دن ان سے رہا نہ گیا، آن دھمکے۔ شام تک رہنے کا پروگرام تھا۔ دیکھا کہ کیریئر پر ایک ٹوکری بندھی چلی آ رہی ہے، جس میں ان کی ’متاع حیات‘ کلبلا رہی تھی۔

”یہ کیا ہے؟ “ ہم سمجھے کہ شاید آم ہیں۔
”ککو۔ ۔ ۔ مکو ہیں۔ “
لیجیے صاحب! نام بھی تجویز ہوگیا۔
”مگر یہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ “
”بے چارے بھوکے رہتے۔ سارا دن اور پھر ان کو چونٹے کاٹتے۔ اتنے سے تو ہیں ہٹا بھی نہیں سکتے۔ “

لیجیے صاحب! مامتا کا بلکہ باپتا کا یہ عالم، وہ بھی بلونگڑوں کے ساتھ۔ ہم نے دیکھا نہ سنا۔ کاش! اس کا آدھا حصہ بھی ہمارے ساتھ ہوتا تو لڑکیاں بالیاں ہماری قسمت پر رشک کرتیں اور عورتیں مارے حسد کے مری جاتیں۔

’سادگی‘ اور برجستہ ’معصومیت‘ کا یہ عالم کہ ’ہم‘ سے بھی چار ہاتھ آگے نکلے۔

ایک دن بلی کے بچے سے کھیل رہے تھے کہ اس نے لاڈ میں آکر دانت کاٹ لیا۔ ماتھے پر تفکر کی لکریں، انتہائی سہمے ہوئے، اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے آئے اور بولے،

”اے! بلی کے ’بچے‘ کے کاٹنے سے کچھ ہوتا تو نہیں؟ “ ”بلی کا بچہ۔ ۔ ۔ ؟ یعنی بچہ؟ “ ہم آنکھیں پھاڑ کر چلائے۔ ”ارے! بچے میں تو زہر ہوتا ہے، زہر۔ ’رے بی یز‘ کا نام سنا ہے آپ نے؟ “

”وہ کیا ہوتا ہے؟ “
”یہ جراثیم کا نام ہے۔ “
”اس سے کیا ہوتا ہے۔ “
”بلی میں بھی اس کے جراثیم ہوتے ہیں۔ “
”تو۔ ۔ ۔ ؟ “
”ارے؟ آدمی پانی سے ڈرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی ساری رگیں ’سوکھ‘ جاتی ہیں۔ ہر نس چٹخ جاتی ہے۔ “
”اور پھر۔ ۔ ۔ ؟ “
”پھر کیا، بس سیدھا اللہ میاں کے ہاں ٹہل جاتا ہے۔ “
”یعنی۔ ۔ ۔ ؟ “

”یعنی مرجاتا ہے۔ پتا ہے سعید صاحب کے بھائی کو بھی نیولے نے ایک مہینہ پہلے کاٹ لیا تھا، بے چاروں کا انتقال ہوگیا۔ “

بری طرح سہم گئے۔
”کتے۔ ۔ ۔ چوہے۔ ۔ ۔ خرگوش۔ ۔ ۔ نیولے۔ ۔ ۔ اور بلی میں اس کے جراثیم ہوتے ہیں۔ “
”نہیں؟ “

”ہاں تو اور کیا۔ “ ہم انہیں یہ تفصیل بتا کر بھول گئے۔ شام کو لطفی اور یونس آئے۔ باتیں ہونے لگیں۔ اچانک چہرے پر تشویش کے گہرے بادل منڈلائے اور اپنی کرسی آگے کھسکا کر ان کے قریب کی اور بڑے مسکین لہجے میں گویا ہوئے،

”سنیے! میں بلی کے بچے سے کھیل رہا تھا۔ جب سے اس کی آنکھ ’نکلی‘ ہے، وہ بہت شریر ہوگیا ہے۔ “
”آنکھ کھلی ہے۔ “ (ہم نے فوراً تصحیح کی)
”وہی۔ ۔ ۔ وہی۔ ۔ ۔ ہاں تو میں کھیل رہا تھا کہ کھیلتے کھیلتے اس نے کاٹ لیا۔ کچھ ہوتا تو نہیں؟ “
خون نکلا تھا؟ ”لطفی سنجیدگی سے بولا۔
”ہاں خون؟ پتا نہیں۔ شاید، ویسے میں نے فوراً ڈیٹول لگا لیا تھا۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7