ہمارے موصوف سے ملیے


”موصوف کے بارے میں رپورٹ آ گئی ہے۔ سنا ہے انتہائی دل پھینک ہیں۔ ایک جگہ رشتہ دیتے ہیں، دوسری پر نظر ہوتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ تین منگنیاں توڑ چکے ہیں، گویا منگنیاں نہ ہوئیں ’مٹکیاں‘ ہوگئیں۔ اچھے خاصے ’فلرٹ‘ مشہور ہیں۔ میں نے اسلم کو فون کیا، اسلم نے فوق کو اور فوق نے حمیدی صاحب سے پوچھ کر۔ ۔ ۔ یہ ماموں جان تھے اور ہمارے ’متوقع‘ منگیتر کے بارے میں یہ ان کی پہلی ’مبینہ‘ رپورٹ تھی!

”اچھا؟ یہ بات ہے؟ پر شکل سے تو انتہائی شریف نظر آتا ہے۔ وہ جاوید بتا رہا تھا پکا نمازی ہے۔ “ امی معصومیت سے بولیں۔

”نہیں صاحب، انتہائی بدمعاش لگتا ہے۔ بقول فوق صاحب، صاف 302 کا کیس ہے۔ “
”ارے نہیں؟ “
”ہاں تو اور کیا؟ لوگوں کے چہروں پر کچھ لکھا تھوڑی ہوتا ہے۔ شکر کرو بروقت بچ گئیں۔ “
”ہاں اگر بٹیا کو لے کر کہیں بھاگ جاتا تو؟ “ بوا منمنائیں۔

”اجی تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ لوگ تو اپنی بیوی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، کم ازکم اس طرح خس کم جہاں پاک تو ہوتا۔ “ چھوٹے بھائی جان دھیرے سے بڑبڑائے۔ کھڑکی کا پٹ چھوڑ کر ہم نے انہیں گھورا، انہوں نے آنکھیں موندلیں۔ بھناکر ہم نے پٹ دوبارہ تھام لیا۔

”بھئی ہمیں تو وہ انتہائی نیک لگتا ہے۔ یاد کریں بھائی جان، خود اپنی شادی کے وقت آپ کی شکل کیسی تھی۔ “ امی کی آواز ابھری۔

”اجی کمال کرتی ہیں آپ بھی، شکل پر جائے جارہی ہیں۔ “ ماموں جان تنک کر بولے، ”سنا نہیں کتنی منگنیاں توڑ چکے ہیں موصوف۔ ۔ ۔ ؟ “

”ہائے تو اس میں کیا برائی ہے۔ “ امی اطمینان بولیں۔ ”مرتضیٰ کے لیے بھی تو کتنی ’خاک‘ چھانی گئی تھی اور لڑکی خاندان کی آئی۔ اس کی بات بھی تو پکی ہوکر ختم ہوئی تھی؟ “

”وہ اور بات تھی۔ “ ماموں جان جلدی سے بولے۔

”اور بات کیسے؟ “ امی نے اسی پھرتی سے بات کاٹی۔ بھئی اکیلا لڑکا ہے، جو بھی کرے کم ہے۔ شادی کے بعد سدھر جائے گا۔ بھائی میاں کا یاد نہیں؟ اور پھر اپنی منی بھی تو۔ ۔ ۔

(ہنھ چاہے ڈاکو کا بچہ ہی کیوں نہ ہو ہم جل اٹھے ) ”بس ہمارے جی کو تو یہ لڑکا ’ٹھک‘ گیا ہے۔ “
”جی نہیں بس اب بات کو ختم ہی سمجھیں۔ “

”مگر وہ شہزاد آیا تھا کہہ رہا تھا کہ وہ بہت اچھے ہیں اور بہت شریف ہیں۔ اس نے تو ان سے پڑھا ہے۔ “ امی ذرا سا جھجکیں۔

”ارے آج کل کے لونڈے کیا ہوویں ہیں۔ “ ماموں جان جلبلا کر بولے۔ ”اور پھر وہ خود کئیوں کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ان کی نظر میں تو یہ فرشتہ ہوگا، دھلا دھلایا، مگر ہماری لڑکی چاہے جیسی بھی ہو ہم پر بھاری نہیں۔ “

”ماموں جان اب بھی وقت ہے، اس ’بارہ من‘ کی دھوبن کو تول کر دیکھ لیں۔ “ بھائی جان یہیں سے بدبدائے۔
ماموں جان کا سلسلۂ کلام جاری تھا۔ ۔ ۔ ”وہ۔ ۔ ۔ ایک کسٹم والے بھی تو ہیں۔ “

”نہیں کسٹم والے رشوت خور ے ہوتے ہیں۔ نہ بھئی ہمیں نہیں کرنی۔ بس اب تو ہم اللہ میاں سے ہی رائے لیں گے۔ جو نکل آئے گا، اسی پر قناعت کریں گے۔ “ امی کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔

”کون سا خواب والا استخارہ؟ “ ماموں جان، ان کے استحکام سے مرعوب ہوکر بولے۔

”نہیں جی خواب تو کیا مجھے تو نیند کا پتا نہیں چلتا۔ ایسی مدہوش ہوکر پڑتی ہوں، بہشتی زیور والا کر رہی ہوں۔ “ ”پھر بھی کون سا؟ “

”ارے وہی، اگر کام ہمارے حق میں اچھا ہوا تو سلسلہ آگے بڑھے گا، ورنہ خودبخود ہی راستے میں بات ختم ہو جائے گی۔ “

”بھائی جان! ہم نے پلٹ کر ڈبڈبائی نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ “ یہ سب کیا ہے؟ ”
”تمہارا تازہ ترین رشتہ ہے۔ “
”یہ رشتہ ہے؟ “

”ہاں تو اور کیسے ہوتے ہیں رشتے۔ تمہارے وہ صاحب (اللہ انہیں جنت نصیب کرے ) شکل دکھا کر روپوش ہوگئے۔ ایسا گئے کہ اب تک نہیں لوٹے۔ “

”ان کی امی راضی نہیں ہوئی ہوں گی۔ “

”نہیں، بلکہ اس نے تمہیں قریب سے دیکھ لیا ہوگا۔ اگر ذرا سا بھی دم ہوتا منحوس میں تو یہ مصیبت ہمارا مطلب ہے کہ تم اب تک کیوں ہمارے گلے پڑی رہتیں۔ ویسے یہ جو ہیں، انہیں تو تم بھی جانتی ہو۔ “

”ہاں جانتے تو ہیں، مگر ایسا ہی جیسا کہ دوسری لڑکیاں جانتی ہیں۔ یہ مسز خالد کی جگہ آئے تھے۔ مگر اس وقت تو ایسے نہیں لگتے تھے۔ “

”تمہارا مطلب ہے کہ گنوں کے پورے؟ “
”جی! “

”بھئی ہر ایک میں کوئی نہ کوئی وصف ہوتا ہے۔ ہم تو پانچوں شرعی عیب ڈھونڈ کر نکالیں گے تمہارے لیے۔ بہت تنگ کیا ہے تم نے، ویسے بھی تمہارے لیے ایسا ہی ’درنایاب‘ فٹ بیٹھے گا۔

”بھائی جان ہمیں تو لگتا ہے ہماری شادی کسی ڈاکو سے ہو رہی ہے۔ “
”خیر ایسا ڈاکو بھی نہیں، ہاں، البتہ سوچ لو ’لیکچرار‘ ضرور ہے۔ “
”پتا ہے ہمیں۔ “ ہم نے جھلا کر کہا۔

انہی دنوں ہمارے امتحان کا خاتمہ برد کھووے پر ہوا تھا۔ مایوسی اور بیکاری کے دن تھے۔ ایم اے کرتے ہی لوگوں کی نظروں میں چڑھ گئے اور ان کی نظر بھی اس ’بیری‘ پر پڑی۔ اچانک ہی انہیں محسوس ہوا کہ کیچڑ میں ایک ’کنول‘ بھی ہے، گو کہ ذرا میلا ہے، گدڑی میں ایک لعل بھی ہے چلو تڑخا ہوا سہی۔ بہرحال اس کا احساس ہوتے ہی ڈلے پتھر آنے لگے کہ ان ہی میں ایک ’درنایاب‘ یہ بھی آکر گرا۔ بظاہر صاف ستھرا ہر نقص سے پاک۔

اتنا چمک دار نگینہ کہ لوگ پہلے تو پریشان ہوئے اور پھر شک میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں کوئی کھوٹ تو نہیں۔ ہمیں بھی چھانا پھٹکا گیا کہ کہیں واقعی یہ کسی ’حسن خفتہ‘ کی حامل تو نہیں، جس کا احساس انہیں بروقت نہ ہوسکا ہو۔ کہیں گھر کی مرغی دال برابر کے دھوکے میں ’شہزادی حسن‘ نظر انداز تو نہیں کی جارہی۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا، یعنی وہی پھٹکار ماری شکل و صورت، کوئی خاص اچھائی دریافت نہیں ہوئی تو لڑکے کی نیت پر شک کیا گیا کہ کیا بات ہے، کیوں بنیئے کا بیٹا یوں اوندھا گر پڑا۔

اس شک بھری فضا میں ایک تحقیقاتی کمیشن ماموں جان کی سربراہی میں بٹھا دیا گیا اور آئے دن تازہ ترین رپورٹیں آنے لگیں۔ بلا مبالغہ یہ کوئی اکیسواں بلٹن تھا، جس کے بعد معاملہ ٹھپ ہوچلا تھا اور لوگوں کو یقین ہوچلا تھا کہ ہمارے سہرے کی کلیاں اب اللہ میاں کے ہاں جاکر ہی کھلیں گی۔ اگر کسی نادانستہ نیکی کے بدلے ہمیں کوئی ’غلمان‘ عطا ہوا تو خیر، ورنہ اللہ اللہ خیر صلٰی۔ ۔ ۔ لیکن حالات نے اچانک کینچلی بدلی اور امی کے استخارے نے کام دکھایا اور کہانی میں دوبارہ جان پڑگئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7