ہمارے موصوف سے ملیے


گویا پی ایچ ڈی نہ ہوئی، گڑیا گڈے کا کھیل ہوگیا کہ صبح کو بی گڑیا کا رشتہ طے پایا شام کو گڑیا کی ماں بھوں بھوں روئی، رات کو گڈے کی ماں نے گڑیا کی ماں سے لڑائی کی اور نتیجتاً گڈے نے گڑیا کو طلاق دے دی اور وہ روتی دھوتی گھر آ گئی۔ کہانی ختم پیسہ ہضم۔ ۔ ۔ پی ایچ ڈی ہوگیا۔ سنا ہے کہ فی زمانہ، نہ نہ کرکے بھی تین چار سال لگ ہی جاتے ہیں۔ ہم تو اس وقت کو روتے ہیں، جب ان کی یہ تپسیا ’مکمل ہوگی۔ فی الحال تو منظر کچھ یوں نظر آتا ہے کہ یہ پیٹھ موڑے ٹیبل لیمپ جلائے، کتابیں پھیلائے، منہ پھلائے ادق، کتابوں میں گم ہیں اور پیچھے دور صوفے پر ہم بیٹھے ٹکر ٹکر ان کی پیٹھ تک رہے ہیں :

ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم

جب یہ پروفیسر بنیں گے تو بقول بھیا، کس قابل رہ جائیں گے۔ پھرا ہوا دماغ پروفیسر، مینڈک کھا جاتا ہے اور سینڈوچ جیب میں ہی رہنے دیتا ہے، جانے ہمارا کیا ہوگا؟

آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی ساری ذمہ داریاں ہمارے نازک کاندھوں پر ڈالنی شروع کردیں۔ ساتھ ہی جتا دیا کہ اس سلسلے میں ہمیں اپنی ساری صلاحیتیں بروئے کار لانی پڑیں گی اور چیزوں کو یاد کرکے ان کی مخصوص جگہوں پر رکھنا ہوگا۔ نہ صرف رکھنا ہوگا، بلکہ ان پر کڑی نظر بھی رکھنی ہوگی کہ وہ کہاں کہاں کون کون سی چیز رکھتے ہیں۔ مثلاً، چابیاں صوفے کے پیچھے چھپاتے ہیں۔ پیسے، چائے کی کیتلی میں رکھتے ہیں، تنخواہ فائلوں کے درمیان دباتے ہیں، پینٹس ’شرٹس اوپر ہینگر میں لٹکاتے ہیں، چائے کی پتی کے ڈبے میں ماچس ہوتی ہے، دودھ فرج میں رکھتے ہیں، پلیٹیں دھونے سے پہلے کاغذ سے ان کا گھی پونچھتے ہیں، تاکہ گٹر بند نہ ہو جائے، چولہا ایک ہی دیا سلائی سے جلاتے ہیں، روزانہ نل کھولتے ہیں اور پھر بند کرنا بھول جاتے ہیں۔ یہ یاد دلانا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ وہ باہر لان کا نلکا کھول کر بھول گئے ہیں۔ اکثر ہمیں بتائے بغیر کھول دیا اور اس امید پر بیٹھے رہے کہ ہم انہیں یاد دلائیں گے۔ نتیجتاً پوری ٹنکی خالی ہوجاتی اور ہم خشکی میں تیرتے رہ جاتے۔

جب چابی کھو گئی

ایک دن ہم نے چابی پلو سے کھولی۔ اتنا تو یاد رہا، مگر کہاں رکھی؟ یہ یاد نہ آکر دے۔ امی کے گھر جا رہے تھے۔ کیریئر پر سامان بھی بندھ چکا تھا، خود بھی تیار تھے، مگر گھر بند ہوتو کیسے؟ کافی دیر تک یہاں وہاں ٹٹولتے پھرے۔ اوپر نیچے تلاش کی۔ اچانک یاد آیا کہ لاحول ولا قوۃ، پرس کے بجائے بیگ میں ڈال دی ہے اور بیگ اسکوٹر کے کیریئر پر بندھا ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی حسب معمول تھوڑی ہی دیر میں اپنے مخصوص ’گھٹیا پن‘ پر اتر آئے۔ فوراً طعنہ دے ڈالا، ”بھئی، تم۔ ۔ ۔ تم تو چابیوں تک کا خیال نہیں رکھتیں۔ اٹھاکر بیگ میں ڈال دیں، بھلا یہ بھی کوئی جگہ ہے؟ ایک تو میں لاپروا تھا ہی، دوسری تم ٹکرا گئیں۔ “

کھول کر رہ گئے۔ چابیاں چاہے پرس میں رہیں یا بیگ میں، رہیں گی تو چابیاں ہی ناں؟ اور خود جو بھرے بازار میں پورا گچھا ٹپکا آئے تھے۔ نئی نویلی دلہن کا سارا سامان آرائش و نمائش ’بھری الماری‘ میں بند رہ گیا تھا، تو بھی لبوں پر شکوہ تک نہیں آیا۔ جواب شکوہ سننے کی تاب جو نہیں تھی۔ جب تک ’ڈپلی کیٹ‘ چابیاں نہیں بن گئیں، ارمان دل کے دل ہی میں گھٹتے رہے۔ یہاں ذرا دیر کیا ہوئی چابیاں ڈھونڈنے میں کہ آسمان سر پر اٹھالیا۔

پھر بھی ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ بڑے تحمل سے ہم نے اسکوٹر پر بیٹھتے بیٹھے ’سورۃ الھمزۃ‘ کا مفہوم حسب ضرورت جتنا یاد تھا سنا دیا۔ ”تباہی ہے، بربادی ہے ہر عیب نکالنے والے اور طعنہ دینے والے کی۔ “ بڑے اطمینان سے سنتے رہے، پھر گردن جھٹک کر بولے، ”ہاں تو اسی لیے تو منع کرتا ہوں کہ طعنے مت دیا کرو۔ سیدھی جہنم میں جاؤ گی۔ “ جی چاہا اپنی بوٹیاں خود ہی نوچ کھائیں۔

زبان و بیان کی ندرت

ماشاء اللہ۔ ۔ ۔ ماشاء اللہ زبان و بیان پر ایسا ’عبور‘ کہ توبہ۔ انتہائی دھڑلے کے ساتھ خود ساختہ زبان، بلکہ اردو محاورے تک استعمال کرنے سے نہ چوکتے اور استعمال بھی ایسا برمحل کہ اچھل پڑتے تھے۔ ہائے بھلا اس کی یہاں کیا تک تھی۔ ایک دن حیران و پریشان، باورچی خانے میں ہاتھ میں ڈیٹول کی شیشی لیے۔ ادھر ادھر تانکتے جھانکتے پھر رہے تھے۔ ’تاکنا جھاکنا کبھو نہ گیا۔ ‘ ہم سے رہا نہ گیا۔ پریشانی کا سبب پوچھ بیٹھے۔

”اس کا سر کہاں ہے؟ “
”ہائیں کیا ہوا کس کا سر؟ “ ہم گھبرا اٹھے۔ ”کیا بلی کا؟ “
”ارے نہیں، اس کا سر؟ “ شیشی آگے کردی۔
”دھت ترے کی، آپ کا سر۔ اس کے ڈھکن کو پوچھ رہے ہیں؟ “
”ہاں۔ ۔ ۔ وہی۔ ۔ ۔ وہی۔ ۔ ۔ “

”توبہ ہے، ہمارا تو دم ہی حلق میں آ گیا تھا۔ ویسے بھی ہوسٹل کے وارڈن ہیں۔ جانے کیا سمجھ بیٹھے تھے۔ خدانخواستہ کسی کا سر اتر گیا۔

ناظرہ بہت نفاست سے مہمانوں کے لیے ٹرالی سجا کر لارہی تھی۔ وہ برآمدے میں ہی تھی کہ اچانک چیخے، ”ارے! اس کا پیر کہاں گیا؟ “ ناظرہ گھبرا کر فوراً وہیں بیٹھ گئی۔

”کس کا پیر۔ ۔ ۔ کیوں ناظرہ کو کیا ہوا؟ “ سب گھبرا گئے۔
”ارے بے وقوف، ناظرہ کا نہیں ٹرالی کا پیر، کہاں گیا؟ “
اس کے بعد جو قہقہوں کا طوفان اٹھا ہے کہ بس توبہ ہی بھلی۔ ٹرالی کے ’پیر‘ سے مراد پہیہ تھا۔
ایک دن بڑے موڈ میں تھے۔ فرمانے لگے، ”چلو نغمہ کے ہاں چلتے

ہیں۔ ”نغمہ کے ہاں پہنچے تو بڑے مخلصانہ اور اخلاق بھرے لہجے میں انتہائی سادگی سے بولے، “ میں نے سوچا کہ آپ سے ’لپٹتا‘ چلوں۔ ”

وہ بے چاری بری طرح اچھل پڑی۔

”یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ دراصل ’نمٹتا‘ کہنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے فوراً بوکھلا کر تصحیح کی۔ ۔ ۔ نمٹنا۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ دراصل بنگالی ہیں نا۔ ’جلیل‘ کو ’ذلیل‘ بولتے ہیں۔ “

جب تک اس کے ناراض دیدے واپس اندر نہیں چلے گئے، ہم ان کی ’زبان دانی‘ کے بقیہ راز کھولتے رہے اور یہ بیٹھے ہماری اس حرکت پر کھولتے رہے۔

نغمہ کو جو شرارت سوجھی وہ بولی، ”ہائیں رفعت کیسا ہو کہ کل کو یہ تم سے کہہ دیں کہ بھئی ذرا مصروف ہوں تم جاکر حمید صاحب سے لپٹ آؤ۔ یا۔ ۔ ۔ “ اس سے پہلے کہ اس کی زبان اور منزلیں طے کرتی، ہم نے اجازت چاہی، مگر راستے بھر ہم انہیں یہ سمجھاتے آئے کہ نمٹنا اور لپٹنا میں کتنا عظیم فرق ہے اور یہ کہ ’غالب‘ غالب ہوتا ہے، ایسا ’گا۔ ۔ ۔ لی۔ ۔ ۔ ب ”نہیں کہ بالکل‘ مغلوب ’دکھائی دے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7