ملکہ حسن کہلانے والی اداکارہ صابرہ سلطانہ


”فلموں کی عکس بندی کے دوران کبھی کوئی ناقابل فراموش واقعہ پیش آیا؟“

”ہم فلم“ غرناطہ”( 1971 ) کی بیرونی عکس بندی میں گئے تھے۔ روزینہ میری دوست بن گئی۔ آسیہ اس وقت نئی نئی آئی تھی۔ ریاض شاہد صاحب کے ساتھ کام کرنے میں ہم بہت مزہ لیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے میں کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا تھا۔ خود بھی بہت خوش مزاج واقع ہوئے تھے۔ بہرحال۔ ہم اس فلم کے لئے سوات اور کالام گئے۔ میں اور روزینہ شغل کے طور پر ٹیپ ریکارڈر لگا کر اپنے کمرے میں ڈانس کرتے تھے۔ شوٹنگ تقریباً ختم ہی ہو گئی تھی کہ ایک دن صبح ہی صبح شور مچ گیا کہ چلو چلو واپس چلو۔ میں نے پوچھا کہ بھئی کیا ہوا؟ ریاض شاہد کہنے لگے چلو سامان پیک کرو واپس لاہور جانا ہے۔ پتا یہ چلا کہ وہاں کہیں قریب ڈاکو تھے۔ انہیں پتا چلا کہ کسی فلم کا یونٹ ٹھہرا ہوا ہے۔ انہوں نے یونٹ کی تینوں لڑکیوں کو اغوا کر نے کا پروگرام بنا لیا تھا جس کی یونٹ کو مخبری ہو گئی۔ کمال کی بات دیکھئے کہ جس وقت یہ شور مچ رہا تھا میں اور روزینہ مٹک مٹک کے ڈانس کر رہے تھے۔ ڈانس تو ایک طرف رہا، اگلے ہی لمحہ ہم نے ٹیپ ریکارڈر بند کیا اور باہر کی جانب سرپٹ دوڑ لگائی۔ میں نے سوچا کی ضرور کوئی نیکی کام آ گئی۔ میرے تو تصور کرنے سے ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے ”۔

”ایک اور واقعہ پشتو فلم“ عجب خان آفریدی ”کی عکس بندی کے دوران پیش آیا۔ کہانی کا سین تھا کہ انگریز میجر کی لڑکی کو عجب خان اغوا کر کے لے آتا ہے۔ جس کا کردار میں ادا کر رہی تھی۔ مجھے یرغمال بنا رکھا ہے۔ رات کو میں سوچتی ہوں کہ عجب خان کو قتل کر دوں۔ میرے ہاتھ میں خنجر ہوتا ہے۔ ادھر عجب خان کی منگیتر پستول سے فائر کر کے میرے ہاتھ میں پکڑا ہوا خنجر توڑ دیتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ سین کیسے کیا جائے؟ ڈائریکٹر صاحب نے اس خنجر پر تھوڑا سا بارود لگا کر اس کو لپیٹا۔

اس کے اندر بجلی کی ایک تار لگائی۔ وہ تار میری آستین کے اندر سے گزار کر وہاں جوڑ دی جہاں سے دھماکہ کرنا تھا۔ کام کرنے کا شوق تھا لہٰذا میں نے ممکنہ نتائج کی کوئی پروا نہیں کی۔ والد صاحب دیکھ رہے تھے، انہوں نے تشویش ظاہر کی۔ ان کو یہ کہہ کر تسلی کرا دی گئی کہ یہ تو کوئی ایسا خطرناک معاملہ نہیں۔ معمولی سا دھماکہ ہو گا، خنجر ٹوٹ جائے گا اور بس۔ چنانچہ یہی ہوا۔ ادھر میں نے عجب خان کو مارنے کے لئے خنجر اٹھایا ادھر سے گولی چلنے کا ایکشن ہوا اور دھماکہ کرنے والے نے بٹن دبایا۔

بارود پٹھا اور میرا ہونٹوں کے نیچے سے سارا منہ زخمی ہو گیا۔ والد صاحب بہت غصہ میں آ گئے اور رحیم گل سے کہا کہ آپ کیسے ڈائریکٹر ہیں؟ خنجر توڑنے کا کوئی اور طریقہ نہیں سوجھا؟ دیکھو بچی کا چہرہ کیا ہو گیا! وہ بہت شرمندہ ہوئے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ شاٹ او کے ہو گیا۔ میری مرہم پٹی کی گئی اور دو تین دن آرام کیا تب کہیں جا کر چہرہ ٹھیک ہوا اور میں دوبارہ کام کے قابل ہوئی ”۔

”اسی فلم کا ایک اور واقعہ یاد آیا۔ ایک سین تھا کہ میں گھوڑے پر بیٹھ کر چوری چھپے فرار ہونے کی کوشش کر رہی ہوں تا کہ عجب خان کے نرغے سے نکل آؤں۔ وہاں کچھ گھوڑے کھڑے کیے گئے تھے۔ میرا گھوڑا قدرے کنارے پر کھڑا ہوا تھا۔ نیچے کھائی تھی۔ میں بڑے مزے سے گھوڑے پر بیٹھی لیکن جیسے ہی میں نے مڑ کر دیکھا تو میری روح فنا ہو گئی۔ گھوڑا ذرا سا بھی بد کا اور میں تو گئی! میں نے کہا کہ گل صاحب ( ڈائریکٹر رحیم گل ) یہ تو روح فرسا معاملہ ہے۔

اس پر وہ کہنے لگے کہ دیکھو کیمرے کا فریم کتنا اچھا بن رہا ہے میڈم! بس کچھ نہ پوچھیں! میں نے دل میں کہا کہ ایسی تیسی میں گیا فریم میری تو جان نکلی جا رہی ہے۔ میں نے تو کلمہ پڑھ لیا کہ بس اب زندگی ختم ہے۔ اسی کے تسلسل میں ایک اور سین تھا کہ انگریز کی بیٹی گھوڑے پر بھاگی جا رہی ہے اور عجب خان اسے روکنے کی غرض سے فائر کرتا ہے اور وہ گھبرا کر نیچے گر جاتی ہے۔ والد صاحب پھر بگڑے کہ دیکھو یہ بچی گھوڑے سے گر گئی ہے۔ یہ کیسا شاٹ لیا ہے، خدا کا نام لیں! تب والد صاحب کو سمجھایا گیا کہ یہ آپ کی بیٹی نہیں بلکہ اس کا ڈوپلیکیٹ ہے۔ تب وہ کہنے لگے کہ تم تو دہلا ہی دیتے ہو۔ پہلے بتایا ہوتا۔ ”۔

”کیا کبھی آپ پر کوئی کلاسیکی رقص بھی فلم بند ہوا؟ جیسے زرین پنا اور ایمی مینوالا کرتی تھیں“۔ میں نے سوال کیا۔

”کلاسیکل تو کبھی نہیں کیا۔ بس وہی ہلکے پھلکے رقص جو فلموں میں عموماً ہیروئنیں کرتی ہیں“۔
”زرین پنا سے آپ کی ملاقات کب اور کیسے ہوئی؟“۔

”ہوا یہ کہ جب 1958 میں پہلا مارشل لاء لگا اس وقت حکومت نے اپنی پبلسٹی کے لئے“ نئی کرن ”کے نام سے چار فلمیں بنوائیں۔ گویا صدر ایوب پاکستان کے لئے نئی کرن لائے ہیں۔ ایک پنجابی، ایک اردو، ایک سندھی اور ایک شاید پشتو تھی۔ میں کراچی میں تھی اور اردو پنجابی فلمیں لاہور میں بن رہی تھیں۔ اب سندھی فلم میں مجھے ہیروئن کے کردار کی پیشکش ہوئی۔ میں نے کہا کہ مجھے سندھی پر عبور حاصل نہیں۔ کہا گیا کہ اسکرپٹ لیں اور مشق کریں۔ دن رات عکس بندی ہوتی اور ہم بڑے اکڑ کر چلتے کہ ہمارے آس پاس فوجی کھڑے ہوتے تھے۔ بڑا مزا آتا تھا۔ ایسے ایسے کھانے۔ واہ واہ! ! کچھ نہ پوچھیں کیا پروٹوکول تھا۔ بات ہو رہی تھی زرین پنا سے ملاقات کی۔ تو اس فلم میں ایک کورس ڈانس تھا۔ گوری چٹی زرین آپا اس کو لیڈ کر رہی تھیں“۔

”میں نے انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ وہ مجھے بہت اچھی لگیں۔ بہت زندہ دل اور مزاحیہ۔ انہیں مجھ میں پتا نہیں کیا نظر آیا کہ مجھے کہا کہ بے بی تو کتنی پیاری! کام جاری رکھنا۔ کراچی میں اب زیادہ کام نہیں رہا۔ جاؤ لاہور میں جا کر کام کرو۔ پھر جب میں لاہور آ گئی تو ان سے دوبارہ رابطہ ہو گیا اور انہوں نے مجھے اپنی چھوٹی بہن بنا لیا۔ ایک دن وہ میرے گھر بتائے بغیر آئیں۔ میں گھر پر نہیں تھی۔ انہوں نے پرچے پر ایک عبارت لکھ کر دروازے کے نیچے ڈال دی : ’اے ذلیل لڑکی، خوش رہو!

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8