ملکہ حسن کہلانے والی اداکارہ صابرہ سلطانہ


”میری بیٹی جب چھوٹی تھی اور میری تصویریں دیکھتی تو کہتی کہ ماما یہ آپ کی طرح کی کون ہیں؟ میں کہتی کہ ایک ہیں میری ہم شکل ہیں۔ میں نے اسے اپنی اداکاری کا نہیں بتایا تھا۔ جب بڑی ہوئی تو بتایا کہ میں نے تھوڑا سا شوقیہ کام کیا تھا۔ پھر روزی کے لئے ضرورت بھی بن گئی۔ پھر وہ کہتی کہ مما کیا آپ اب یہ چھوڑ نہیں سکتیں؟ میں کہتی کہ نہیں بیٹا ابھی تمہاری شادی کرنا ہے، تعلیمی اخراجات وغیرہ۔ پھر وہ مطمئن ہو گئی۔ اب ماشاء اللہ وہ اپنے گھر میں خوش ہے۔ اس کے چار بیٹے ہیں۔ ابھی کل ہی میرے پاس آئے ہوئے تھے۔ ماشاء اللہ پانچ وقت کی نمازی اور بیٹوں کے دوستوں کے سامنے بھی پردہ کرتی ہے“۔

”سسرال میں دیگر خواتین کا آپ سے کیسا سلوک رہا؟“۔

”میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے سسرال میں بھی اپنے گھر کا سا ماحول ملا۔ میری دو نندیں اور چھ دیور تھے۔ ایک نند شادی شدہ تھی باقی سب بہن بھائی کنوارے تھے۔ میں دل میں تو بے حد ڈری سہمی ہوئی تھی کہ میرے ساتھ نہ جانے کیسا سلوک ہو گا؟ میرے سسر بہت اچھے انسان تھے بالکل باپ کی طرح برتاؤ تھا۔ بہت ہی دین دار تھے۔ کہتے تھے کہ تم نے فلموں میں کام چھوڑ چکی اب آئندہ جاری نہ رکھنا۔ میں نے کہا کہ اب شادی ہو گئی اب میرا فلموں سے کنارہ سمجھیں!

جو فلمیں مکمل نہیں ہوئی تھیں وہ تو میری مجبوری تھی۔ وہ اس پر بہت خوش ہوئے کہ میں نے اب اپنے آپ کو تبدیل کر دیا اور گھرہستن بن کر دین پر چلنے کا اقرار کر لیا ہے۔ میری بچی بھی وہیں پیدا ہوئی۔ سب سسرال والے بیٹی کی پیدائش پر خوش ہوئے۔ میرے سسرال والے آج کل لندن میں ہیں۔ فون اور وہاٹس ایپ پر رابطے ہوتے ہیں۔ ان کے اور ان کے بچوں کے فون آتے ہیں۔ جب پاکستان آتے ہیں تو بڑے اچھے طریقے سے ملتے ہیں۔ پھر جب میں نے بڑھاپے کے کرداروں میں کپڑے اور چائے کے اشتہارات کی ماڈلنگ کی تو اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ اب بھی وہ سب میرے ساتھ بہت خوش ہیں ”۔

”آپ کے نواسی نواسوں کو فنون لطیفہ کا کوئی شوق ہے؟“۔

”میرے بڑے نواسے کو ہم نے شوق تو دلایا لیکن وہ کہتا ہے کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ کیمرے کے سامنے آتے ہوئے مجھے شرم آئے گی۔ ویسے ماشاء اللہ بڑا دراز قد اور وجیہہ ہے۔ میرے تمام نواسے دراز قد ہیں“۔

”آپ نے فلم۔ عادل“ کا نام لیا اس میں ہمارے نثار بزمی صاحب کی موسیقی تھی۔ ایک گیت آپ پر بھی فلمایا گیا تھا۔ کچھ اس کا ذکر کریں ”۔ میں نے سوال کیا۔

”ہاں اس فلم میں بزمی صاحب کا بہت اچھا میوزک تھا۔ ایک گانا ’پیاری ماں دعا کرو میں جلد بڑا ہو جاؤں۔‘ بچے اور مجھ پر ’اور لیپ‘ کیا گیا تھا۔ یہ فلم مجھے اس لئے بھی پسند ہے کہ اس میں مجھے ملکۂ حسن کا خطاب ملا تھا“۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”فلموں کے پس پردہ ہنر مندوں کی محنت کا بھی کھلے الفاظ میں ذکر کرنا ضروری ہے۔ مثلاً عکاسی یا فلم بندی۔ یہ بہت مشکل فن ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہر ایک سین کیمرہ مین کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہے۔ اسکرپٹ رائٹر پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ جان دار ہو گا تو فلم یا ڈرامہ اچھا بنے گا۔ میوزک میں دلکشی ہو گی تو لوگ گانا سنیں گے پھر اس فلم کو دیکھنے بھی جائیں گے۔ میں تو اس بات کی قائل ہی نہیں کہ فلاں اداکار / اداکارہ نے بڑی فلمیں کیں! اگر وہی اچھا اداکار ایک کمزور ہدایتکاری، اسکرپٹ، عکاسی، کوریوگرافی، فایٹ، ساؤنڈ اور موسیقی والی فلم میں آئے تو لوگ اس کی اداکاری سے بالکل خوش نہیں ہوں گے۔ اکیلے آرٹسٹ کی وجہ سے نہ کوئی فلم /ڈرامہ کامیاب ہوتا ہے نہ فیل۔ آرٹسٹ کا اس سے قطعی کوئی تعلق نہیں! یہ سوچ ہی غلط ہے“۔

”ماشاء اللہ آپ ذہنی طور پر چاق و چوبند ہیں۔ اگر پی ٹی وی سے کوئی ذمہ دار پروڈیوسر آپ کو ڈرامے کے کردار کی پیشکش کرے تو کیا قبول کریں گی؟“۔

”ہاں! اگر کوئی اچھا کردار اسٹاک کرداروں میں سے ہوا تو کیوں نہیں! خاص طور پر مجھے کامیڈی کا بہت شوق ہے لہٰذا یہ ملے تو کیا ہی بات ہو“۔

”کامیڈی کی تو آپ پر پہلے ہی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ یہ بات زرین پنا بھی کہہ رہی تھیں“۔

”اصل میں رونے پیٹنے کی سین میں آنکھوں میں گلیسرین لگا کر آنسو بہانے کے شاٹ فلم بند کیے جاتے تھے۔ ان سے میری تو آنکھوں میں بے حد جلن ہوتی۔ اس سے بچنے کے لئے میں اپنے اوپر وہ شاٹ طاری کر کے خود ہی روتی تھی“۔

”ارے! کیا واقعی!“۔

”مثلاً فلم“ انسان ”( 1966 ) میں، میں خود ہی روئی۔ پھر وہاں موجود لوگ کہنے لگے کی یہ تو جذباتی کردار بہت اچھے کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ مشکل ترین کام ہے۔ پھر تو مجھ پر ایسی ہی اداکاری کی چھاپ لگ گئی حالاں کہ مجھے کامیڈی کا شوق تھا۔ میں اپنی نجی زندگی میں بہت زندہ دل ہوں۔ سید نور ٹی وی ڈرامہ کرنا چاہ رہے تھے۔ مجھے بھی اس کے بارے میں بتلایا۔ میں نے ان سے کہا کہ اسٹاک کرداروں میں اگر کوئی زندہ دلی کا کردار ہو تو میں ضرور کروں گی۔

ڈرامے سے پہلے انہوں نے ایک فلم بنا لی وہ بھی پنجابی کی۔ پنجابی زبان میں بول نہیں سکتی۔ پشتو فلموں کی طرح پنجابی فلموں کے فلمسازوں نے مجھے کرداروں کی پیشکش کی کہ میں اداکارہ صائمہ کی ماں کے کردار میں صحیح لگوں گی۔ ویسی ہی دراز قد ہیں آپ۔ شکل و صورت بھی قدرے ملتی جلتی ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ”۔“ اس سلسلے میں عبد اللہ چلی اور حاجی شیرا کی فلم ”بارات“ شروع ہوئی۔ بڑی مشکل سے چند مکالمے میں نے یاد کر کے ادا کیے۔

کسی وجہ سے وہ فلم بند ہو گئی۔ پھر کتنے برسوں بعد شروع ہوئی تو اس کا نام ”دنیا“ ( 2014 ) رکھ دیا۔ میرا پہلے بھی ماں کا ہی کردار تھا لہٰذا دیر سویر سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔ پھر سنگیتا کی فلم ”دادا بدمعاش“ ( 2992 ) کی۔ پھر ”چودھرانی“ ( 1999 ) کی جس میں ہم بیرونی عکس بندی میں بھی گئے۔ پہلی مرتبہ دیکھا کہ گاؤں کیسا ہوتا ہے جو مجھے بہت اچھا لگا۔ کھلی ڈلی تازہ ہوا۔ پھر سید نور صاحب کی فلم ”کمانڈو“ ( 2003 ) کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8