ملکہ حسن کہلانے والی اداکارہ صابرہ سلطانہ


میں اس میں شان کی ماں ہوں۔ شان کی میں بہت سی فلموں میں ماں بنی۔ میں کہتی تھی کہ شان کا اور میرا ستارہ ملتا ہے۔ میں جس فلم میں اس کے ساتھ ماں بنی وہ فلم ہٹ ہوئی۔ جیسے 2000 میں ریلیز ہونے والی فلم ”تیرے پیار میں“ ( یہ کراچی میں سلور اور لاہور میں ڈائمنڈ جوبلی رہی )۔ پھر اسی سال ہی ریلیز کی گئی فلم ”گھر کب آؤ گے“ ( پلاٹینم جوبلی فلم ثابت ہوئی )۔ گویا میں نے سندھی، پشتو، پنجابی اور اردو سب ہی فلموں میں کام کیا ”۔

”ایک صنف رہ گئی اور وہ ہے تھیٹر۔ کبھی یہاں کام کیا؟“۔

”تھیٹر میں مجھے بہت بلایا جاتا رہا کہ آپ کا قدو قامت اور شکل و صورت اسٹیج کے لئے بہت موزوں رہے گی۔ فلم میں تو میک اپ اور ہیر اسٹائل سے مزید خوبصورت بنا دیا جاتا ہے۔ اسٹیج ایک ایسی چیز ہے کہ اگر آپ کی قدرتی خوبصورتی ہے تو ٹھیک ورنہ۔ میں نے کہا کہ اتنے لوگوں کے سامنے تو میرے ویسے ہی ہوش اڑ جائیں اور میں گھبرا جاؤں گی۔ اداکاری کہاں ہو سکے گی! میں نے معذرت کر لی۔ بس اس طرح میں ریڈیو، ٹیلی وژن، ماڈلنگ اور فلم تک ہی محدود ر ہی“۔

”لکھنے لکھانے کو کبھی شوق رہا؟“۔

”جی ہاں! میں نے شبابؔ صاحب کے رسالے ’ڈائریکٹر‘ میں مزاحیہ مضمون لکھا جس کا عنوان ’خبروں کی زنجیر‘ تھا۔ اس میں لکھا کہ دیواروں پہ اشتہارات لکھے ہوتے ہیں جیسے کسی کلینک کا اشتہار : ’ہمارے ہاں دمے کا علاج ہوتا ہے‘ ۔ کہیں : ’ہمارے ہاں دیگیں پکتی ہیں‘ ۔ دیوار پر سے کچھ چیزیں مٹ گئیں اور کچھ ہیں۔ اب اگر انہیں ملا کر پڑھا جائے تو وہ کیا بنے گا۔ اس پر میں نے بڑا غور و فکر کیا ہے۔ اس وقت زیبا محمد علی کی فلم“ بھروسا ”چل رہی تھی۔ اب دیوار پر تحریر کچھ یوں پڑھی جانے لگی: ’ہمارے ہاں تشریف لائیے بہترین کھانا ملے گا اس میں بھروسا رکھئیے زیبا محمد علی‘ ۔ اور بھی پتہ نہیں کیا کچھ میں نے لکھا۔ شبابؔ کیرانوی صاحب ہنس ہنس کے لوٹ گئے۔ کہنے لگے کہ یہ بڑا مزیدار مضمون ہے اور انہوں نے اپنے رسالے میں شائع کر دیا“۔

”پھر ا یمی مینوالا کے گھر میں ایک پارٹی ہوئی تھی جس میں ریاض شاہد، ہدایتکار جمیل اختر وغیرہ بھی تھے۔ وہ بھی سب لکھ مارا: کہ جمیل اختر صاحب موڈ میں تھے۔ ریاض شاہد بولے کہ بھئی کیمرہ لاؤ اور ہم سب بیٹھے ہووں کی فلم بندی کرو۔ اب کیمرہ کہاں سے آئے۔ ایک صاحب اٹھے اور کیمرہ مین کو اٹھا کر سامنے کھڑا کر کے کہ کہا کہ کیمرہ تو نہیں کیمرہ مین ہے۔ یہ روداد بھی لکھ دی۔ مجھے اس قسم کے لکھنے کا اب بھی شوق ہے۔ میں بہت شوق سے ڈائجسٹ پڑھتی ہوں“۔

”کون سے ڈائجسٹ؟“۔ میں نے تجسس سے پوچھا۔

”سسپنس ڈائجسٹ اور جاسوسی ڈائجسٹ۔ اس میں غیر ملکی کہانیوں کے تراجم ہوتے ہیں۔ میں نے جاسوسی کہانیاں بھی لکھیں جیسے“ سنہرا پھول ”لیکن شائع کرنے نہیں بھیجیں۔ پھر کیلی گرافی کا بھی شوق رہا۔ میرے والد صاحب بہترین خوش نویس تھے۔ کچھ تھوڑی بہت صلاحیت تھی کچھ والد صاحب سے فن خطاطی سیکھا۔ لوگ اپنے پراڈکٹ کو ’ٹو ان ون‘ کہتے ہیں۔ میں تو کافی ساری چیزیں ’ان ون‘ لئے ہوں : گانا مجھے آتا ہے، بجانا مجھے، ڈانس مجھے، خوش نویسی مجھے، لکھنا مجھے، اداکاری مجھے۔“۔

”جب آپ ریڈیو پاکستان میں باقاعدگی سے خط لکھتی تھیں تو اسی طرح سے اخبارات میں لکھنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟“۔

”میں اس کو وقت کی کمی کہوں گی۔ کیوں کہ کم عمری ہی میں فلموں میں کام شروع کر دیا تھا۔ اس لئے میری صلاحیتیں اجاگر ہی نہیں ہوئیں“۔

”کچھ آفاقیؔ صاحب کے بارے میں بات چیت ہو جائے“۔ میں نے کہا۔

”وہ فون کرتے رہتے تھے۔ رات کے نو دس بجے ان کی کال آتی۔ میں اطمینان سے سر کے نیچے تکیہ رکھ لیتی کہ اب تو ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔ اپنے مخصوص انداز سے کہتے : ’ہاں بھئی سن رہی ہیں آپ‘ ۔ بہت خلوص سے فون کرتے تھے کہ میں با ذوق ہوں۔ میں ان کے حساب سے فلمی دنیا میں ایک بہت معقول خاتون تھی (قہقہہ) اس لئے وہ مجھ سے بہت خوش ہوتے تھے“۔

”علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے اپنی کتاب میں آپ کا کئی جگہوں پر ذکر کیا ہے“۔

”(ہنستے ہوئے) ہاں! انہوں نے مجھے فیملی میگزین کے دفتر بلوایا تھا۔ وہاں انہوں نے بڑی آؤ بھگت کی، تصویریں بنوائیں اور میرا انٹرویو ہوا۔ بہت خوش ہوئے۔ بڑی گپ شپ کی۔ دبلے پتلے ہو گئے تھے“۔

”آپ کو کس قسم کی موسیقی پسند ہے؟“۔

”مجھے وہ موسیقی پسند ہے جس پر ڈانس ہو سکے۔ انگریزی میوزک بھی مجھے پسند ہے۔ میں ریڈیو پر یاسمین طاہر کے پروگرام ’میوزک بائی ریکوئسٹ‘ میں فرمائشیں بھیجا کرتی تھی۔ مجھے ’کم سییپٹمبر‘ کا میوزک بہت پسند تھا ”۔

”ناہید نیازی نے بھی اس دھن پر گانا گایا تھا : ’سمجھ نہ آئے دل کو کہاں لے جاؤں صنم۔‘ یہ اقبال یوسف فلمز کی جاسوسی فلم“ دال میں کالا ”( 1962 ) میں مصلح الدین کی موسیقی میں حمایتؔ علی شاعر نے لکھا تھا“۔ میں نے کہا۔

”اب بھی کسی مہندی، شادی کے موقع پر بچیاں پکڑ لیتی ہیں کہ آنٹی نے ڈانس کرنا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ پیر میں تکلیف ہے۔ اس پر کہا جاتا ہے کہ جیسا بھی ہو کریں! خود میں نے ابھی اپنی سالگرہ پر دل کھول کر ڈانس کیا اور چار روز تک ہائے ہائے کرتی رہی“۔

”پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے کیسا لگا؟“۔

”میری پہلی فلم“ انصاف ٰ ”( 1960 ) میں ایک المیہ گانا تھا۔ آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ مجھے رونا تو آ ہی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے کہا گلیسرین لگاتے ہیں۔ او ہو! کچھ نہ پوچھو میری آنکھوں میں اتنی جلن ہوئی۔ پھر تو آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ یوں مجھ پہ گانا فلم بند ہوا۔ توبہ توبہ! لیکن میں گھبرائی نہیں۔ جہاں تک کیمرے کا سامنا کرنے کی بات ہے۔ میں تو اس سے پہلے اشتہاری فلمیں اور“ نئی کرن ”میں بھی کام کر چکی تھی۔ اس لئے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔ پھر“ تم نہ مانو ”( 1961 ) میں میں شہزادی بنی۔ اس میں بھی آرام سے کام کیا“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8